• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ ایک فلاحی ریاست ہے جہاں نادار اور ضرورت مند افراد کی کفالت حکومت کی بنیادی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص بے روزگار ہے تو اسے بنیادی ضروریات کے لئے ویلفیئر کا محکمہ وظیفہ دیتا ہے جسے سوشل بینیفٹ کہا جاتا ہے۔اسی طرح بچوں کی پیدائش پر بعض سہولتیں تو تمام مائوں کو حاصل ہیں لیکن جن بچوں کے والدین میں سے کوئی ایک نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہو کہ اس بچے کا باپ کون ہے تو ایسے بچوں کی پرورش کے لئے محکمہ ویلفیئر کی جانب سے اخراجات مہیا کئے جاتے ہیں ۔چند روز قبل لندن کی لور پول کرائون کورٹ میں ایک دھوکے بازی کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے جوڑے نے حکام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ان کے معاشی حالات بدتر نہیں اور چند ماہ قبل یہ اپنے دونوں بچوں کو لگژی کروز پر لیکر گئے۔ان کا لائف اسٹائل چغلی کھاتا ہے کہ انہیں سوشل بینیفٹ کی ضرورت نہیں۔مگر خاتون نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی رہ رہی ہے اور کفالت کے لئے ان کا باپ موجود نہیں ۔چنانچہ سوشل بینیفٹ فنڈ سے اسے 55000پائونڈ فراہم کئے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس کا بوائے فرینڈ اپنے بچوں اور ان کی ماں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہے۔الزامات ثابت ہو جانے پر برطانوی عدالت نے دونوں ملزموں کو نو ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا۔ برطانیہ میں ایسے دھوکہ بازوں کے لئے بینیفٹ چیٹس کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو ٹیکس پیئرز منی پر عیاشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ برطانیہ جیسے متمدن و مہذب معاشرے میں اس جرم کا ارتکاب اس حد تک جا پہنچا ہے کہ برطانوی حکام کو باقاعدہ مہم چلانا پڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سال یہ دھوکہ باز برطانوی خزانے کو 1.2 ارب پائونڈ کا ٹیکہ لگاتے ہیں۔ گزشتہ سال ویلفیئر منسٹر نے بتایا کہ کئی برطانوی شہری ایسے ہیں جو امریکہ، سویڈن، اسپین یا پرتگال میں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں مگر اپنے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر سوشل بینیفٹ بھی وصول کر رہے ہیں۔ اگر ایسے افراد کی نشاندہی ہو گئی تو سالانہ 66ملین پائونڈ کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برس سوشل بینیفٹ فراڈ میں ملوث 11976 افراد کو وارننگ دیکر چھوڑ دیا گیا،6332کو جرمانے کئے گئے اور ہتھیائی گئی رقم واپس لی گئی جبکہ262 کو جیل کی ہوا کھانا پڑی۔ برطانوی حکومت سزائیں دینے کے علاوہ اخبارات،ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے انتباہی پیغامات جاری کر کے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ برطانیہ میں بینیفٹ چیٹس کی اس داستان سے ہمارا کیا تعلق، میرے خیال میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی کرپشن کے خاتمے کی بات ہوتی ہے،تو کچھ لوگ بات پوری ہونے سے پہلے ہی بھاشن دینے لگتے ہیں کہ جس ملک میں دودھ میں پانی کی ملاوٹ ہوتی ہے،جہاں گوشت کا وزن بڑھانے کے لئے پانی کے انجکشن لگائے جاتے ہیں ،جہاں ہر شخص بکائو مال ہے،جہاں ہر چیز بکتی ہے،جاگتی آنکھوں کے خواب تک فروخت ہوتے ہیں ،وہاں کرپشن کا ناسور کیسے ختم ہو سکتا ہے؟جیسی روح ویسے فرشتے۔ حکام اس لئے کرپٹ ہیں کہ خود عوام بدعنوان ہیں۔ جب نظام بدلنے کی بات ہوتی ہے تب بھی ایک ہی زور آور دلیل دی جاتی ہے کہ نظام کیا ہے،اسے انسان ہی چلاتے ہیں ناں،ہم سب ٹھیک ہو جائیں تو نظام خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔ جب مہذب ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں تو تب بھی ہمارے دانشور اپنی قوم کو مطعون کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل ہم پوری دنیا میں سب سے بڑھ کر بے ایمان ،دغاباز اور کام چور ہیں لہٰذا یہاں کچھ نہیں بدلنے والا۔ میں اپنے ملک کے دانشوروں کی اس رائے سے متفق نہیں۔ میرا خیال ہے کہ جرم انسان کی جبلت میں شامل ہے،انسان خطا کا پتلا ہے،اگر انسان کی سرشت میں برائی کی طرف رغبت کا مادہ نہ ہوتا تو حضرت آدم ؑ جنت سے نہ نکالے جاتے۔ ایسا وقت نہ ماضی میں کبھی آیا ہے،نہ مستقبل میں کبھی آ سکتا ہے کہ زمانے کے سب انسان اخلاق و کردار کی اس بلندی کے حامل ہوں کہ گناہ یا جرم کی طرف مائل نہ ہوں۔ متمدن معاشروں میں چونکہ جزا اور سزا کا نظام قائم ہے، جوابدہی کا خوف ہے ،قانون کی عملداری ہے،انصاف کی حکمرانی ہے ،اس لئے جرائم کی شرح کم ہے اور بتدریج وہاں کے باشندوں میں قانون کے احترام کی روش بھی مضبوط ہو گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں جرائم نہ ہوتے۔
آپ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دیکھ لیں وہ لندن ،کینیڈا، واشنگٹن، کوپن ہیگن یا دبئی جا کر مہذب شہری بن جاتے ہیں۔ قانون کا احترام کرتے ہیں،سڑک پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتے، کسی دفتر سے کام نکلوانے کے لئے ایجنٹ کا سہارا نہیں لیتے،کسی سرکاری افسر کو رشوت دینے کی جرأت نہیں کرتے،مار کٹائی اور دنگا فساد سے گریز کرتے ہیں۔لیکن وہ جیسے ہی ہوائی جہاز سے اتر کر ایئرپورٹ سے باہر آتے ہیں تو ان کے اندر کا پاکستانی بھی باہر آ جاتا ہے۔انہیں ٹریفک سگنل پر رُکنا ناگوار گزرتا ہے،پاسپورٹ،شناختی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لئے متعلقہ دفاتر جا کر عام آدمی کی حیثیت سے کھڑے ہونے میں عار محسوس ہوتی ہے،جہاں کوئی کام نہ ہو رہا ہو وہ نہایت بیباکی کے ساتھ رشوت کی پیشکش کرتے ہیں اور اگر کہیں تو تکار ہو جائے تو ہتھ چھٹ واقع ہوتے ہیں اور لڑنے جھگڑنے سے باز نہیں آتے۔آپ پاکستانی سیاستدانوں کو دیکھ لیں ،بیرون ملک یہ پروٹوکول کے بغیر سفر کرتے ہیں ،چند روز قبل میاں شہباز شریف، اسحاق ڈار اور سرتاج عزیز سمیت کئی پاکستانی رہنمائوں کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں فٹ پاتھ پر کھڑے برطانوی وزیر اعظم کا انتظار کر رہے ہیں مگر جب یہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو پروٹوکول کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے،کیوں؟ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں ’’قائد اعظم‘‘ کی سفارش چلتی ہے۔ یہاں قانون موم کی ناک ہے اس لئے جو جدھر چاہتا ہے ادھر موڑ لیتا ہے۔ جس دن ہمارے ملک میں جزا اور سزا کا نظام قائم ہو گیا،اس دن ہمارا شمار بھی متمدن و مہذب معاشروں میں ہو گا۔ یہاں ایک اور نکتے کی وضاحت کرتا چلوں ،عمومی تاثر یہ ہے کہ نظام تو حکومتیں ہی بدل سکتی ہیں مگر میرا خیال ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی منصب پر ہے وہ اپنے دائرے میں جزا اور سزا کا نظام وضع کر سکتا ہے۔ ڈی پی او، ڈی سی او، سی ٹی او، کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز چاہیں تو اپنے اپنے اضلاع کا مقدر سنوار سکتے ہیں۔ ایک ایس ایچ او اپنے تھانے کی حدود میں یہ ہوّا بنانے میں کامیاب ہو جائے کہ مجرم خواہ کیسا ہی بااثر کیوں نہ ہو،سزا سے نہیں بچ سکے گا،تو وہاں کے لوگ مہذب شہری بن جائیں گے،حتیٰ کہ کسی چوراہے میں مامور ٹریفک وارڈن بھی اپنے دائرے میں یہ کام کر سکتا ہے۔اگر حکومتیں چاہیں تو یہ کام برق روی سے ہو سکتا ہے لیکن اگر ہر ذمہ دار شخص اپنے دائرے میں شمع جلاتا چلا جائے تو بھی سست روی سے سہی لیکن یہ اندھیرے چھٹ سکتے ہیں۔
تازہ ترین