• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھٹو صاحب کی زندگی سے لیکر اب تک چلنے والا ٹنٹا ہی ختم ہو گیا۔ ملک جاتا رہا ’’اسلامی سوشلزم‘‘ لکھا جاتا رہا ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘ نعرے لگتے رہے کہ زمین اس کی ہے جو بوئے اور کاشت کرے۔ بھٹو صاحب وہی تھے جنہوں نے 1971ء میں یوم مئی کے جلوس کی قیادت کی تھی۔ وہی تھے جنہوں نے 1972ء میں یوم مئی کی چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ جو شرما شرمی آج تک ہر حکومت یوم مئی کی چھٹی کرتی رہی ہے۔ یہ وہی بھٹو صاحب تھے جنہوں نے غریبوں کو پانچ پانچ مرلے کے پلاٹ دیئے تھے۔ میری مائی آج تک یاد کرتی ہے بھٹو کو کہ اسے پانچ مرلے کا پلاٹ ملا تھا۔ یہ وہی بھٹو صاحب تھے جنہوں نے پیپلزپارٹی کا منشور جے اے رحیم سے لکھوایا تھا اور پھر اسی جے اے رحیم کی ٹانگیں اس لئے تڑوائی تھیں کہ انہوں نے بھٹو صاحب سے کسی بات پر اختلاف کیا تھا۔ یہ وہی بھٹو صاحب تھے جنہوں نے فارن آفس میں خواتین افسران کا مقرر کیا جانا منظور کرکے، کئی خواتین سفیر بھی لگائی تھیں۔ یہ وہی بھٹو صاحب تھے جنہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن اور میاں محمود علی قصوری کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بھی بنایا گیا تھا۔ اسٹڈی سرکلز بھی ہوتے تھے۔ ہر چند کہ ان کو چلانے کیلئے شیر محمد بھٹی کو منتخب کیا گیا تھا لیکن اسٹڈی سرکل باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ مساوات اخبار خوب بکتا تھا۔ کبھی حنیف رامے تو کبھی نذیر ناجی، مساوات کے مدیر ہوتے تھے۔ بہت سے ذہین لوگوں کو لیٹرل انٹری کے ذریعے سینئر پوسٹوں پر لگایا گیا۔ جب نئے بھٹو صاحب وزیراعظم بنے تو کہا ’’خبردار جو میری تصویر چینل پر آئے‘‘۔ مگر کچھ عرصہ بعد خود ہی بولے ’’پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس ملک کا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہے‘‘۔ وہی لبرل بھٹو پھر کوثر نیازی اور مولویوں کی باتوں میں آگیا۔ جمعہ کی چھٹی کر دی، شراب پر پابندی لگا دی۔
سارے الٹے پلٹے کاموں کی سزا ضیاالحق نے دی اور خوب دی کہ اس کو ہی پھانسی پہ لٹکایا جس نے سنیارٹی کو مدنظر نہ رکھا اور اس خوشامدی جرنیل کو چیف آف آرمی اسٹاف بنادیا جو بھٹو صاحب کے ملتان کے دورے کے دوران دیگوں کا مصالحہ بھی چکھتا تھا اور ان کے کمرے کے باہر خوشامدی میں چوکیداری بھی کرتا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی یادداشتوں میں ضرور اقرار کیا ہے اور زبانی بھی بتایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سارے اسلامی ممالک کے اصرار پر کہ بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دی جائے، اس وقت کے آمر نے رات کے دو بجے جبکہ پھانسی کا وقت 4 بجے ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی۔ گڑھی خدا بخش میں کرفیو کا سماں تھا۔ ہر گھر کے اوپر دو سپاہی کھڑے تھے۔ بھٹو صاحب کی پہلی بیگم امیر بیگم کو چند منٹ کے لئے بھٹو صاحب کا منہ دکھایا گیا۔ وہ بھی اس طرح کہ چونکہ امیر بیگم پردہ کرتی تھیں تو بڑی ردوکد کے بعد سپاہیوں نے منہ دوسری طرف موڑا اور بیگم صاحبہ کو چہرہ دکھایا گیا۔
یہ وہی پارٹی ہے جس نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا کیڈر بدلا۔ ان کو بہتر تنخواہیں دینے کے آرڈر کئے۔ خواتین کو پارلیمان میں جگہ دی۔ بیگم نسیم اکبر خاں جنہیں ہمت اور حوصلے والی خواتین کو قومی اسمبلی کا ممبر بنایا اور صوبائی اسمبلی میں بیگم عابدہ حسین کو سیٹ دی گئی۔ ہر چند اسکولوں، کالجوں اور فیکٹریوں کو قومیانے کا انجام اس لئے خراب نکلا کہ پاکستان کی معیشت اس حملے کی متحمل نہیں تھی۔ روس کے ذریعے اسٹیل مل لگوائی گئی اور چین کے ذریعے ہیوی کیمیکل کمپلیکس قائم کیا گیا اور چین ہی کے ذریعے شاہراہ ریشم ایسی قائم ہوئی کہ عام لوگ بھی کاشغر دیکھنے چین جانے لگے۔ یہ سب زمانے بھٹو صاحب کے دم قدم سے تھے۔
وقت بدلا، ضیاء کی حاکمیت دفن ہوئی مگر ٹی وی اور اطلاعات کے محکمے میں جو رجعت پسندی حاوی تھی۔ اس کو یکدم فنا کرنا ناممکن تھا۔ بے نظیر بھٹو نے سر پر دوپٹہ اوڑھنا شروع کیا البتہ بیگم بھٹو، معمول کے مطابق ساڑھی پہنتی رہیں۔ بے نظیر کی دیکھا دیکھی دفتر اور اسمبلی میں ساری خواتین نے دوپٹہ اوڑھنا شروع کردیا۔ اب چونکہ اسکول اور فیکڑیاں قومیانے سے آزاد کی جارہی تھیں تو اب تعلیمی اداروں کا قیام صنعت کا درجہ اختیار کر گیا۔ جس کی جو مرضی آئی پڑھانے لگا۔ اس طرح ہر ممبر پارلیمنٹ نے فیکٹریاں لگانی شروع کیں جو نوازشریف کے پہلے دور میں ہی ایشیا کی سب سے فیکٹری بھی قرار دی گئی۔ سیاست میں آپا دھاپی چاہے نوازشریف کا دور تھا کہ بے نظیر کا، خوب چلی تھی،پیپلز پارٹی کو اپنا آئین بھول گیا تھا۔
زرداری صاحب کے دور میں بھی پیپلزپارٹی کا دستور، بالکل فراموش کردیا گیا۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، اکٹھا کرکے پارلیمنٹ بنائی گئی۔ یہ پارٹی بھی کچھ اداروں سے برداشت نہیں ہوئی۔
رات کے ایک بجے، ہوٹل میں اسی سرکاری ادارے کے کارندوں نے کرسیاں لگائیں اور پیپلزپارٹی کو توڑنے کا منظر نامہ بنانے کی کوشش کی پھر بھی پیپلزپارٹی عوام کی رگوں سے ابھری تھی۔ اس میں چاہے وٹو صاحب شامل ہوں کہ کھر صاحب نکل جائیں پارٹی نے اسلامی سوشلزم کے نعرے سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا مگر اب تو کمال ہوگیا ہے۔ اعلان کیا گیا ہے کہ اب پارٹی بائیں بازو کی سیاست نہیں کرے گی اور اپنے نئے ایجنڈے کا اعلان جلد ہی کرے گی۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب نوجوان بلاول چیئرپرسن ہوں اور کالعدم تنظیمیں فوج کے حق میں جلوس نکال رہی ہوں۔ سب سوال کرتے ہیں کہ کون ہے جو فوج کے خلاف ہے یہ کیسے ہوا کہ کل کا محب وطن حامد میر، آج کا غدار ہوگیا اور پیپلزپارٹی بالکل خاموش رہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ پیپلزپارٹی کا دستور کہیں سے مل جائے مگر اب تو شاید وہ نیا دستور بنائیں گے جس میں بائیں بازو کے لوگوں سے بات بھی نہیں کریں گے۔ نہ کریں، ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کے علاوہ بھی باپ بیٹا کچھ تو کریں گے کہ ہم بڈھے اپنی جوانی کے بھٹو کو بھول جائیں۔
تازہ ترین