• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہمدم دیرنہ امتیاز راشد خوب ہیں کہ بڑھاپے میں بھی متحرک رہتے ہیں۔ اب وہ دور کی کوڑی لائے اور پریس کلب کا ’’لائف ممبرز فورم‘‘ قائم کر دیا ۔ پہلے عاشق چوہدری جو فلمی صحافت کا ایک معتبر اور بڑا نام ہے کے اعزاز میں تقریب منعقد کی اور جمعہ کو 20کے قریب بزرگ صحافیوں کو لے کر گورنر ہائوس جا پہنچے جہاں آج کل چوہدری محمد سرور گورنر ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی نژاد ہیں جو برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہمارے لئے کوئی نیا نام نہیں۔ ایک صحافی دوست نے تو انہیں ’’سرور ملت‘‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ پاکستان میں وہ بہت سے رفاہی ادارے قائم کر چکے ہیں اور اپنے وطن میں بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو پانی کے فلٹر سے آراستہ کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ بظاہر وہ ’’بڑے گھر‘‘ میں رہتے ہیں لیکن غریبوں کے لئے جذبہ خدمت سے سرشار ہیں۔ اس ملاقات کا کوئی باضابطہ ایجنڈا نہیں تھا تقریب ملاقات ہی تھی پھر بھی بات تو ہوئی گورنر صاحب نے کہا کہ قانون اور آئین کے مطابق تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے اور ایسا کرنے سے ہی بات بنے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی کا قلم تلوار کی مانند ہے اور ہم آزادیٔ صحافت کے حامی ہیں۔ میرے حوالے سے تنقید کی گئی لیکن میں نے اس کا خیرمقدم کیا۔ کیونکہ مثبت تنقید میں بھی تعمیر کا پہلو ہوتا ہے۔ صحافت پر کوئی قدغن نہیں لگنی چاہئے بلکہ سب کو آزادیٔ صحافت کا تحفظ کرنا ہو گا۔ چوہدری سرور اگرچہ صوبے کے گورنر ہیں لیکن مجھے ان میں اقتدار کی کوئی خوبو نظر نہیں آئی اور نہ ہی ان کی جانب سے ’’لاٹ صاحب‘‘ ہونے کا کوئی تاثر دیا گیا۔ ان کے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے قریبی تعلق ہیں یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ جب میاں نواز شریف کے خلاف اس وقت کے آمر نے مقدمہ چلایا تو چوہدری سرور ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے بیرون ملک میاں برادران کے بے گناہ ہونے کی بھرپور لابنگ کی اور ان کی ہی کوشش سے برطانوی حکومت نے سابق وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ چوہدری سرور نے اس وقت کے آمر سے ملاقات کر کے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ وہ میاں برادران کے برے وقت کے ساتھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بنایا گیا۔ اگرچہ یہ ایک اعزاز ضرور ہے تاہم ضرورت ہے کہ انہیں با اختیار بنایا جائے تاکہ وہ ملک کی خدمت کر سکیں۔ ’’بڑے گھر‘‘ کے ٹھاٹھ باٹھ اپنی جگہ لیکن کچھ کرنے کے بھی کام ہونے چاہئیں۔
انگریزوں نے ہندستان پر جبراً قبضے کے بعد اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے دلی میں انتہائی پُر شکوہ وائسرائے ہائوس تعمیر کیا جو اب بھارتی صدر کا گھر راشٹر پتی بھون کہلاتا ہے اسی طرح مختلف صوبوں میں بڑے بڑے گورنر ہائوس بنائے گئے جن میں لاہور کا گورنر ہائوس بھی شامل ہے۔ ایک زمانے میں صوبے کے گورنر کو لاٹ صاحب کہا جاتا تھا۔ یہ ’’بڑاگھر‘‘ شاہراہ قائداعظم پر واقع ہے اور اس پُر شکوہ عمارت کو دیکھ کر گزرنے والے یہی سوچتے ہیں کہ اب اس ’’بڑے گھر‘‘ کا کیا جواز ہے جہاں ایک پورا شہر آباد ہے بچے، بچیوں کا سکول ہے چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے اور حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کے ایک پوتے کا مزار بھی جہاں جمعرات کو بڑی تعداد میں لوگ حاضر ہوتے ہیں اور اس روز الحمراء کا گیٹ عام زائرین کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ اس گھر میں پھل دار درخت بھی ہیں اور ایک اہم بات یہ کہ ملک کے ایک ٹوبیکو کمپنی گورنر ہائوس کے لئے خصوصی پیکٹ میں سگریٹ بناتا ہے جو اسٹور سے ملازمین خرید سکتے ہیں۔ جہلم والے چوہدری الطاف جب گورنر بنے تو انہوں نے گورنر ہائوس میں پرندوں اور جانوروں کے پنجروں کا اضافہ کیا یہ عمارت تاریخ کی شاہد ہے اور بہت سے اہم سیاسی جوڑ توڑ اس عمارت میں ہوتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک انگریز بیورو کریٹ سر فرانسس موڈی پہلا گورنر تھا جو اس سے قبل یو پی کا چیف سیکرٹری ہوا کرتا تھا۔ تاہم سردار عبدالرب نشتر پہلے مسلمان گورنر بنے اس کے بعد اس گھر نے بہت سے نامور اور بے نام افراد کی میزبانی کی ان میں کئی حاضر اور سابق فوجی جرنیل، کئی بیورو کریٹ اور سیاستدان شامل تھے۔ قائداعظم کے معتمد ساتھی ابراہیم اسماعیل چندری گھر ابراہیمؒ، سردار عبدالرب نشتر، یوسف ہارون مختصر ترین دنوں کے لئے گورنر تھے۔ ایوب مارشل لاء میں نواب امیر محمد خاں کالا باغ طاقتور خود مختار یوں تھے کہ ملک میں صدارتی نظام تھا جس کے تحت گورنر صوبے کا حاکم اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ بے نظیر دور میں اگرچہ پارلیمانی نظام تھا اس کے باوجود گورنر چوہدری الطاف کا ہی حکم چلتا تھا۔ بڑے بڑے لوگ اس گھر میں آئے اور چلے گئے دربار حال میں ان کی تصویر لگا دی گئی لیکن عظیم وہ تھے جن سے اچھے کام انتساب ہوئے۔ چوہدری سرور بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں اللہ کرے ان کی یہ خواہش اور آرزو پوری ہو۔
تازہ ترین