• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کائنات کی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان اور حیوان میں جوہری فرق کی بنیاد شعور ہے اور پھر جس طرح ایک انسان سے دوسرے انسان کی شعوری سطح میں تفاوت ہے اسی طرح اقوام عالم میں بھی یہ افتراق و امتیاز پایا جاتا ہے۔ ہم افراد کی طرح اقوام کو بھی اسی ریشو سے مہذب قرار دیتے ہیں جتنی ان کی شعوری سطح بلند تر ہوتی ہےجس طرح افراد و اقوام کا شعوری سفر جامد نہیں ہے اسی طرح کائنات کے اجتماعی شعوری سفر اور اس کی رفتار کاجائزہ بھی لیاجاسکتا ہے۔ اگرچہ افراد و اقوام میں ترقی ٔراست کے ساتھ ساتھ معکوس بھی ہوتی رہی ہے لیکن الحمد للہ انسانیت کا اجتماعی شعوری سفر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے پیہم آگے ہی بڑھا ہے۔ آج اگر ہمیں موجودہ انسانی شعوری و تہذیبی ترقی کے پیچھے میسوپوٹیما سے لے کر یونان، کنعانی، مصری، چینی یا مہذب تہذیبیں دکھائی دیتی ہیں۔ میگنا کارٹا، انقلابِ فرانس یا 1776 کی مہمیز نظرآتی ہے تو انفرادی طور پر سقراط، افلاطون، ارسطو سے لے کر عظیم بدھا تک اور مابعد شرق و غرب کے صاحبان دانش کی طویل کڑی ہے جس طرح ہر موسیٰ ؑ کے بالمقابل کوئی نہ کوئی فرعون رہا ہے اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے شعور ِ انسانی کی رفتار کو کم کرنے یا روکنے کے لئے شعور دشمن جبری چٹانیں بھی ہر دور میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب شعور آتا ہے تو اپنے ساتھ دلیل یا استدلال کی طاقت لاتا ہے اس کے بالمقابل جب جہالت کا جبر آتا ہے تو اپنے ساتھ دھونس کی طاقت لاتا ہے۔شعور و استدلال سے حریت ِ فکر آتی ہے۔ کھلے و منطقی مباحثے چھڑتے ہیں۔ سماج میں آگہی بڑھتی ہے جمہوریت آزادیوں اور انسانی حقوق کے لئے راستے کھلتے ہیں۔ برداشت اور رواداری جیسی اعلیٰ انسانی خصوصیات پروان چڑھتی ہیں ۔جیو اور جینے دو کی سوچ سربلند ہوتی ہے جہالت کے اندھیرے کافور ہوتے ہیں۔ جبر کی شعور دشمن قوتیں بھلا اس روشنی کو کیسے برداشت کرسکتی ہیں۔ چمگادڑ بھلا بلبل کیسے بن سکتے ہیں کیونکہ ان کو تو صرف اندھیرے راس آتے ہیں سو جبر کی یہ قوتیں دلیل کے بالمقابل دھونس کو ہی نہیں لاتیں بلکہ کھلے مباحثوں کے بالمقابل خفیہ سازشیں کرتی ہیں ،دھمکیاں دیتی ہیں۔ انسانی حقوق اور آزادیوں پر شب خون مارنا چاہتی ہیں جمہوریت کو خوفزدہ کرتی ہیں آئین اور قانون کا گلا دبا دینا چاہتی ہیں۔ اپنے زہریلے اور خونخوار پنجوں پر کبھی حب الوطنی کے دستانے چڑھاتی ہیں اور کبھی نظریے یا عقیدے کا ایشو کھڑاکردیتی ہیں۔
اس کرۂ ارض پر جب بھی اور جہاں بھی مثبت تبدیلی کے لئے جمہوری و شعوری جدوجہد ہوئی ہے تواس کی بنیاد حریت ِ فکر اور آزادی ٔ اظہار پر اٹھی ہے جبکہ سٹیٹس کو کی قدامت پسند روایتی طاقتوں نے ہمیشہ جہاں جبر و دھونس سے کام لیا ہے وہیں مکروہ نوعیت کی الزام تراشی سے بھی کبھی اجتناب نہیں کیا۔ وطن دشمن اور غدار کہنا تو اولین ہتھیار ہے۔ قومی دردمندی کے تو گویا پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔
آیئے اسوہ حسنہ کاجائزہ لیں۔ پیغمبر اسلام ﷺنے جب مکہ کی گلیوں میں شعوری تبدیلی کے لئے خدائی و انسانی وحدت کی صدا بلند کی تو اہل جبر نے اسے روکنے کے لئے تمام مکروہ ہتھکنڈے استعمال کئے حالانکہ وحدت کی یہ آواز لوگوں کو زبردستی عقیدہ تبدیل کروانے کے لئے نہیں تھی۔ انہوں نے کبھی لوگوں کو جبری مسلمان بنانا نہیں چاہا ۔اجارہ دار طبقے سے ان کاصرف ایک مطالبہ تھا اور وہ آزادی ٔ اظہار کا مطالبہ تھا جس طرح تم لوگ اپنی بات سوسائٹی میں کہتے ہو مجھے بھی یہ حق آزادی ٔ رائے ملنا چاہئے تاکہ میں اپنا پیغام کھلے بندوںپہنچا سکوں۔ اگراہل مکہ آپؐ کا یہ بنیادی حق تسلیم کرلیتےتو نہ ہجرت کی نوبت آتی نہ جنگیںہوتیں کیونکہ مابعد جونہی مقتدر قوتوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ؐ کا یہ مطالبہ تسلیم کرلیا آپؐ نے دب کر جیو اور جینے دو کامعاہدہ کرلیا۔ بہت سی نامناسب و ناروا شرائط کاکڑوا گھونٹ بھی حق آزادی ٔ اظہار کی خاطر پی لیا۔
ہم نے صلح حدیبیہ سے اورانسانیت کی پوری داستان و تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ جن جن معاشروں میں انسانوں کو حق آزادی رائے حاصل ہے ان معاشروں کے خلاف کسی کو بھی کسی بھی بہانے یا حیلہ جوئی سے ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اگرکوئی گروہ ایسی اوچھی حرکت کرتاہے تو UN کے تحت اقوام عالم کو اس کے خلاف ایکا کرنا چاہئے۔ ہم ایسے تمام گروہوں کو چاہے ان کا تعلق کسی بھی عقیدے یا مذہب سےہوانسانیت کی اجتماعی شعوری و فکری ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔ ہر قوم کے اجتماعی شعور و دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر انہیں روکے۔ وطن عزیز میں سربلندہوتی ہوئی جمہوریت اور تمام جمہوری ادارے اپنے اداروں سے خائف ہونے کی بجائے انہیں اپنی طاقت سمجھیں۔ انسانی شعور، حریت ِ فکر اور آزادی اظہار پر یقین رکھنے والا وطن عزیز کامیڈیا اپنے اداروں سے سہما ہوا نہ ہو بلکہ جبر و دہشت کے بالمقابل انہیں اپنی طاقت خیال کرے اسے اپنے محافظ کی محبت بھری نظروں سے دیکھے اور اندر ہی اندر ایک نادیدہ خوف یاشک محسوس کر رہے ہوں۔ اگر یہ افسوسناک صورتحال قائم رہی توقومی اداروں میں باہم کبھی اعتماد کا رشتہ قائم نہ ہوسکے گا۔ اگر اس حوالے سے ہر دو اطراف کچھ شکایات پائی جاتی ہیں تویقیناً وہ بے بنیاد نہ ہوں گی۔ انسان دشمن کا اپنے اوپر پھینکا گیا پتھر برداشت کرلیتاہے لیکن کسی اپنے کا نفرت سے پھینکا گیا پھول بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ہر دو طرفین کو اس پر سوچنا چاہئے جہاں میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اداروں کا بھی احترام کرے وہیں ان اداروں کو بھی یہ خیال کرنا چاہئے کہ میڈیا کی وہ آزادی جو اسے آئین اور قانون نے دی ہے UN کے اس چارٹر نے دی ہے جس پر بحیثیت ریاست پاکستان نے پوری دنیا کے سامنے دستخط کر رکھے ہیں۔ اس کا احترام بہرصورت ہونا چاہئے۔
اگر وہ اس میں آپ کی خیال کردہ حدود سے آگے بھی بڑھ جائے تو اس کا مطلب جبر یا آکسیجن کی بندش نہیں ہے جو بڑائی کا دعویدار ہے اسے صبر اور حوصلے میں بھی بڑا ہونا چاہئے۔ یقیناً وطن عزیز کے تمام ادارے قابل احترام ہیں اور ان تمام اداروں کی ماں کا رتبہ جس ادارے کو حاصل ہے وہ قومی امنگوں کا ترجمان ادارہ ’’منتخب پارلیمینٹ‘‘ ہے۔ اگر اس مملکت خداداد کی وارث اس ملک میں بسنے والی اٹھارہ کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستانی قوم ہے تو اس قوم کا نمائندہ و مظہر و ترجمان ادارہ پارلیمینٹ ہے۔ دیگر تمام ادارے آئین سے بنتے ہیں تو آئین کو بنانے والی پارلیمینٹ ہے لہٰذا اگر تنقید سے بالاتر کوئی مقدس ادارہ قرار پاسکتا تھا تو وہ صرف پارلیمینٹ تھی۔ اگر آزاد میڈیا کا پوری دنیا میں یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ پارلیمینٹ پر اور اس کی پالیسیوں پر اور اس کے منتخب ترین نمائندوں پر بے رحم تنقید کرسکتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو بھی اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔ میڈیا اور قوم کو تو شکایت ان سے ہے جنہوں نے ہمارے پیارے قومی سکیورٹی گارڈز کی گردنیں کاٹیں اور پھر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا۔ ہمارے 90ہزار قیدی انڈیا کی قید میں رہے سب سلامتی کے ساتھ اپنے پیاروں کےپاس واپس آئے کسی ایک کو بھی خراش تک نہ آئی اور دوسری طرف جو ہمارے جوانوں کے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہیں ہم آخر کس خوشی میں ان کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کھیل رہے ہیں؟ خدا انہیں ہدایت دے اور ہمارے محافظوں کا فرض ہے کہ انہیں ہدایت کا سبق پڑھائیں۔
تازہ ترین