• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ضیاء الحق کا آخری زمانہ تھا ، جب آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہم جیسے طلباء کی ایک کھیپ نے صحافت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا کیونکہ صحافت کے ساتھ ہم بوجوہ رومانویت محسوس کرنے لگے تھے ۔ ہم نے دیکھا تھا کہ جمہوری تحریک میں صحافی نہ صرف سیاسی اور جمہوری کارکنوں کے ساتھ ہوتے تھے بلکہ کبھی کبھی وہ ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہوتے تھے ۔ ضیاء الحق کا دور اس خطے کی تاریخ میں ہر حوالے سے بدترین دور تھا ، جس میں حسن ، جمالیات ، سچائی ، انسانیت ، انسان ذات ، محبت اور عدل و انصاف کے ساتھ دشمنی ہی ترقی اور بقاء کا واحد معیار تھی ۔ میرے ایک درویش صفت استاد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے کا سب سے بڑا بحران یہی ہے کہ ضیاء الحق کی اتنی مذمت نہیں کی گئی ، جتنی ہونی چاہئے تھی ۔ اسی دور میں اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی ، جسے تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ تحریک اس امر کا ثبوت تھی کہ وادی سندھ کی تہذیب میں قائم رہنے کی صلاحیت ابھی تک موجود ہے لیکن ضیاء الحق کا دور اس صلاحیت پر کاری ضرب تھا ۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں ہی ہمیں سخت گرمیوں اور دھوپ میں اپنے صحافی بھائیوں کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے ہوئے یہ پتہ چلا کہ آزادی صحافت ، جمہوریت و انسانی حقوق کی بحالی اور معاشرے کے کمزور طبقات اور گروہوں کے لیے جدوجہد دراصل ایک ہی ’’ کاز ‘‘ ہے ۔ اسی زمانے میں ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ صحافی بن کر اس ’’ کاز ‘‘ کے لیے زندگی بھر بہتر طریقے سے کام کیا جا سکتا ہے ۔
آج بھی مجھے کچھ ’’ بزرگ ‘‘ صحافیوں کی یہ دلیل سن کر سخت صدمہ ہوا ہے کہ صحافت نہ کبھی آزاد تھی ، نہ ہو گی اور نہ ہونی چاہئے ۔ سینئر صحافی اور جیو کے اینکر پرسن حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں آزادی صحافت کے خلاف جو باتیں کی جارہی ہیں، انہیں سن کر خلیل جبران کی وہ نظم یاد آرہی ہے، جس کا عنوان ہے’’افسوس ہوتا ہے‘‘ خلیل جبران کہتے ہیں کہ ’’افسوس ہوتا ہے اس دنیا میں۔۔ انصاف کا اس طرح قتل ہوا ہے۔۔ مردے دیکھیں تو ہنس دیں۔۔ بدروحیں دیکھ کر بین کریں۔۔۔۔۔۔۔ کس قدر بے انصافی ہے۔۔ جسم کا قاتل پھانسی چڑھ جاتا ہے۔۔ اور روح کا قاتل نظر نہیں آتا۔‘‘ ایک انتہائی سینئر کالم نگار کا اگلے روز ’’خفیہ ایجنسیاں، میڈیا اور عدالتیں‘‘ کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوا ہے، جس میں انہوںنے یہ ثابت کیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں ’’سی آئی اے‘‘ اور ’’ایم آئی سکس‘‘ سمیت تمام ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو قومی مفاد کے نام پر سب اختیارات حاصل ہیں۔ فاضل کالم نگار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ سب اختیارات کی کوئی حد بھی ہے یا نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا کبھی کبھی ان خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کرتا ہے لیکن ان کے سامنے کبھی نہیں آتا۔ انہوںنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ میڈیا کو خفیہ ایجنسیوں کے تابع ہونا چاہیے۔ انہوںنے کسی ویب سائٹ سے ایک بلاگ اٹھاکر اس کا اردو میں ترجمہ کردیا اور تین مقاصد حاصل کرلیے۔ ایک مقصد تو یہ تھا کہ ان کا ایک کالم بن گیا، دوسرا مقصد یہ تھا کہ انہوںنے اپنی علمیت کی دھاک بٹھا دی اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ انہوںنے اپنے آپ کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بھی ثابت کردیا۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کی اس دلیل سے ان کے شاہ کی کوئی نیک نامی نہیں ہورہی ہے۔ صرف یہی بات حقیقت نہیں ہے، جو انہوںنے اپنے کالم میں کی ہے بلکہ حقائق کچھ اور بھی ہیں۔ ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ سامراجی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف اپنے بلکہ دنیا بھر کی میڈیا پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور فاضل کالم نگار کو شاید یہ پتہ نہیں ہے کہ اس حقیقت کے باوجود آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت کی بھی ایک طویل جدوجہد ہے۔ سامراجی ممالک کی یہ خفیہ ایجنسیاں اپنے ہی ملکوں میں آزادیٔ اظہار پر ایسی قدغن نہیں لگاتی ہیں، جس کے لیے فاضل کالم نگار نے اپنے کالم میں وکالت کی ہے۔ حامدمیر پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو جواز بناکر آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی روحوں پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔ جیو اور جنگ گروپ سمیت پاکستان کے کسی بھی صحافتی ادارے کا پاکستان کی قومی سلامتی کے ذمہ دار کسی بھی ادارے سے ٹکراؤ نہیں ہے۔ مذکورہ فاضل کالم نگار صحافیوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں جمہوریت کی بحالی اور آزادیٔ صحافت کی تحریکوں میں نہ صرف دور رکھا جاتا تھا بلکہ ان تحریکوں کے حامی لوگوں نے انہیں کبھی اپنا دوست تصور نہیں کیا۔ ان لوگوں نے بلاوجہ آزادیٔ صحافت کے خلاف ایسی بحث چھیڑ دی ہے کہ صحافت ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں ایک واقعہ کو بنیاد بناکر اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کا موقع مل گیا ہے ورنہ ماضی میں وہ کسی جواز کے بغیر آمریت، استبداد اور استحصال کے حق میں اپنا قلم استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا ٹریک ریکارڈ سب کے سامنے ہے۔ ان لوگوں نے اس وقت جو موقف اختیار کیا ہے، اس پر کوئی حیرت نہیں۔ حیرت ان لوگوں پر ہے، جو جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کے بڑے علم بردار تھے۔ وہ لوگ اچانک قومی مفاد کے ’’برچھے‘‘ لے کر سامنے آگئے ہیں۔ اس پر قدیم روم کے معروف جرنیل، ریاست کار اور ادیب جولئیس سیزر کا موت کے وقت بے بسی والا ایک سوال یاد آتا ہے۔ جب وہ سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے تھیٹر میں داخل ہوا اور اپنی نشست پر بیٹھا تو ’’نجات دہندگان‘‘ نے اس پر حملہ کردیا۔ اس کا منہ بولا بیٹا مارکس بروٹس برچھا لے کر اس کی جانب بڑھا تو سیزر نے یونانی زبان میںکہا ’’Kai su teknon?‘‘ (میرے بیٹے، تم بھی؟) قومی مفاد کے برچھے لے کر سامنے آنے والے جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے نام نہاد علم برداروں سے پوری قوم آج یہی سوال کررہی ہے کہ ’’تم بھی؟‘‘ میرے استاد صحیح کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا بحران یہی ہے کہ ضیاء الحق کی مذمت نہیں کی گئی۔
تازہ ترین