• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنوں پوری دنیا میں بھارتی انتخابات کا ڈنکا بج رہا ہے۔ چھ روز بعد انتخابی نتائج سے پتہ چلے گا کہ کون سی پارٹی عوامی اعتماد حاصل کر کے ایوان اقتدار میں داخل ہوتی اور کس کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سجتا ہے۔ فی الحال نریندر مودی فیورٹ ہیں مگر کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔
بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہا جاتا ہے۔ کوئی اس کا مطلب پوچھے تو جواب ملتا ہے کہ بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں صرف لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے انتخابات نہیں، ضلعی حکومتوں اور پنچائتوں کے بھی۔ بھارت بلحاظ آبادی ان ممالک میں سب سے بڑا ملک ہے اس لیے سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے کا حقدار۔ جس کا مطلب ہے کہ کل کلاں کو عوامی جمہوریہ چین میں مغربی انداز کی پارلیمانی جمہوریت رائج ہوئی تو یہ اعزاز بھارت سے چھن جائیگا یا پھر اسے آبادی میں مزید اضافہ کرنا پڑیگا۔
سانپ، بندر، بچھو، گائے اور دیگر جنگلی حیات کی پوجا کرنے والے ذات پات کے مارے معاشرے میں جہاں اور بہت سی دیومالائی کہانیاں چل جاتی ہیں وہاں سب سے بڑی جمہوریت کی دیومالائی داستاں بھی قابل قبول بلکہ قابل فخر ہے اور امریکی و یورپی میڈیا بھی اس سے مسحور۔ مگر یہ جمہوریت ہے کس قسم کی؟ اس کا پول گزشتہ دنوں برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے ایک مضمون بعنوان
Indians more colourfull candid- ates, actress, cricter, dynast, crook
میں کھولا۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ بھارت کی پچھلی پارلیمنٹ تو فلاپ تھی جو بہت سے قوانین منظور نہ کرسکی۔ کرپشن میں ملوث حکومتی عہدیداروں کا احتساب کرنے سے قاصر رہی اور مایوس ہو کر لوگوں کو سڑکوں پر آنا پڑا۔ انّا ہزارے اور اس کے سابق ساتھی اروند کیجروال کی عوامی مقبولیت پارلیمنٹ کی ناکامی کا اظہار تھا۔
بھارتی ارکان پارلیمنٹ، ڈیفیکشن کلاز کی وجہ سے پارلیمانی جماعتوں میں محض گائے بھینس کا درجہ رکھتے ہیں آزادانہ سوچ سے محروم اور ضمیر کے مطابق اپنا فرض ادا کرنے سے قطعی لاتعلق۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ، سونیا گاندھی کے نامزد رکن راجیہ سبھا کے طور پر دس سال تک ملک کے وزیراعظم رہے اور لوک سبھا کے ممبر نہ بن سکے مگر کسی نے اعتراض نہ کیا کہ عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں میں سے آخر کسی کو یہ اعلیٰ ترین منصب کیوں نہیں سونپا جاتا اور من موہن سنگھ کسی حلقہ انتخاب سے الیکشن کیوں نہیں لڑتے۔
حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے 90 نے لکھ کر دیا کہ وہ بالکل ان پڑھ انگوٹھا چھاپ ہیں۔ ایک چوتھائی کروڑ پتی ہیں اور ایک بڑی تعداد جرائم پیشہ افراد کی ہے جن پر قتل، زنا بالجبر اور دیگر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔ جے للیتا اور مایا وتی سمیت کروڑ پتی سیاستدانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ وہ حکومتی عہدے سنبھالنے کے بعد چند برسوں میں کروڑ پتی کیسے بنے۔ عدالتی نظام اس قدر فرسودہ، ناکارہ اور مفلوج ہے کہ اعلیٰ عدالتیں 18 سال سے جے للیتا کے خلاف زیرسماعت مقدمات کا فیصلہ نہیں کرسکیں۔
کئی اداکار اور اداکارائیں پارلیمنٹ کا حصہ بنے اوراب بھی مختلف حلقوں کے امیدوار ہیں ہیمامالنی، سمرتی ایرانی، راکھی ساونت، سابق مس انڈیا گل پانگ اوردیگر میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ انتخابی جلسوں میں ہجوم اکٹھا کرنے کے سوا اپنی جماعت اور ملک کے لیے کیا کرسکتے ہیں کیونکہ سابقہ تجربہ یہ ہے کہ اکثر اداکار، اداکارائیں اور کرکٹر رکن پارلیمنٹ بننے کے بعد ایوان سے غیر حاضر رہے اور قانون سازی میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔
موروثی اور خاندانی سیاست کی جڑیں بھارت میں مضبوط ہیں اور باپ کے بعد بیٹا عوامی نمائندگی کا حق دار ٹھہرتا ہے خواہ وہ چٹا ان پڑھ، نیم پاگل اور بدمعاش و بدکردار ہی کیوں نہ ہو۔
ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز کا دعویٰ ہے کہ اس نے متعدد سیاستدانوں کی کرپشن اور سنگین جرائم کی نشاندہی کی مگر سیاسی جماعتوں نے انہیں ٹکٹ دیا اور عوام نے انہیں منتخب کرلیا۔ اے ڈی آر کے بانی کا کہنا ہے کہ لوگ انہیں کرپٹ اور جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں اور بھارت کا جمہوری سسٹم کسی باصلاحیت شخص کو یہ موقع فراہم نہیں کرتا کہ وہ محض اپنے بل بوتے پر ٹاپ پوزیشن حاصل کرلے۔
بھارت میں انتخاب الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہوتے ہیں مگر انتخابی عمل کئی ہفتوں پر محیط ہوتا ہے اور انتخابی نتائج بھی قسط وار آتے ہیں جبکہ برازیل اور انڈونیشیا جیسے زیادہ آبادی والے ممالک میں یہ عمل دو دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ کروڑ پتی، فلمسٹار، کرکٹر اور جرائم پیشہ افراد بھارتی سیاست کو رنگینی عطا کرتے ہیں اور بھارتی عوام اس دیومالائی داستان پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے۔
پاکستان میں بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو بھارت کی مثال دیکر جمہوری اور انتخابی نظام میں ہر طرح کی کرپشن، مجرمانہ سرگرمیوں اور نااہلی و نالائقی کو برداشت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ بدعنوان سیاستدانوںکے احتساب اور مواخذے پر ناک بھوںچڑھاتے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کو حکمرانوں کا پیدائشی حق قرار دیتے ہیں۔ موروثی اور خاندان سیاست کا دفاع وہ اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سونیا گاندھی اورراہول گاندھی کی مثالوں سے کرتے ہیں۔ سیاست و اقتدار کے ایوانوں پر چند جاگیردار، سرمایہ دار، تاجر پیشہ خاندانوں کے قبضے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں حتی کہ سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں، نسلی و لسانی مافیاز، قبضہ گروپوں اور منشیات فروشوں کو جماعتی ٹکٹ ملنے پر بھی وہ داد وتحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔
بھارت میں انّا ہزارے اور اروند کیجروال نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی، عام آدمی کے حقوق کا علم بلند کیا اور میڈیا نے بھی ایکٹرسوں، کرکٹرز، موروثی سیاستدانوں اور جرائم پیشہ ارکان پارلیمنٹ پر مبنی جمہوریت کے نقصانات کو اجاگر کیا مگر یہاں ایسی باتیں کرنے والوں کو جمہوریت کا مخالف اور غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار قرار دیا جاتا ہے حتی کہ ملک لٹتے اور عوام پٹتے، خود سوزی، خودکشی، اجتماعی عصمت دری اور سرکاری وسائل کی کھلے عام لوٹ مار کے واقعات کی بہتات دیکھ کر بھی ہم ضمیر کی کوئی خلش محسوس نہیں کرتے ورنہ اٹھارہ کروڑ عوام پر سناٹا طاری نہ ہوتابے حس و حرکت، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر۔
تازہ ترین