• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اتوار 11 مئی کو پورے ملک میں عوامی احتجاج کی کال دی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی 11 مئی کو ہی مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف لوگوں سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کی ہے ۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ، جنہیں ان کے حامی شیخ الاسلام کے ساتھ ساتھ قائد انقلاب بھی قرار دیتے ہیں ، سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کے لئے ایک بار پھر پاکستان میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح عمران خان بھی احتجاج کی سیاست میں کود پڑے ہیں اور وہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو ایک سال بعد چیلنج کرنا چاہتے ہیں تاہم دونوں رہنماؤں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کریں گے ۔
علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ریاست بچانے کیلئے لوگوں کو جو ایجنڈا دیا ہے اس کے مطابق خاندانی بادشاہت، دہشت گردی، اداروں سے ٹکراؤ اور انہیں کمزور کرنے کی سازش، کرپشن، نجکاری، بدترین لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ یہ دراصل ایجنڈا نہیں بلکہ ماضی میں جمہوری حکومتوں کو ختم کرنے کیلئے فوجی حکمرانوں کی چارج شیٹ کا خلاصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنے ایجنڈے پر کس طرح عمل کریں گے،کیا وہ انقلاب لے آئیں گے؟ اگرچہ پاکستان عوامی تحریک کے اشتہارات میں انہیں قائد انقلاب کا لقب دیا جا رہا ہے تاہم پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے جمہوری حکومت کا انقلاب کے ذریعہ تختہ الٹنے کی کوئی واضح بات نہیں کی گئی ہے اور یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک جمہوری اور انتخابی طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پاکستان عوامی تحریک کی آئندہ انتخابات کیلئے تیاری ہے کیونکہ انتخابات کو ابھی چار سال باقی ہیں ۔ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے دہشت گردی، کرپشن، بدترین لوڈشیڈنگ اور جان لیوا مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے بھی کوئی واضح پروگرام نہیں دیا گیا ہے۔ جہاں تک خاندانی بادشاہت کا سوال ہے، لوگ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جو فیصلہ کن حیثیت ہے اسے کیا نام دیا جائے گا؟ اداروں سےٹکراؤ اور انہیں کمزور کرنے کی سازش ہمیں تو کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ پرویز مشرف کے زمانے میں حکومت اور عدلیہ کے مابین جو ٹکراؤ تھا وہ آج کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں آزاد عدلیہ نے ایک وزیر اعظم کو برطرف کردیا تھا لیکن کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا،عدالت کا ہر حکم مانا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دو ادوار میں فوج اور حکومت اور حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی تھی ، وہ بھی آج کہیں نظر نہیں آتی۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حساس ایشو پر بھی فوج کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوا اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوج اگر انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کرتی ہے تو بھی موجودہ حکومت کی طرف سے فوج کے ساتھ ٹکراؤ کا کوئی بھی امکان نظر نہیں آتا ۔ بعض حلقے میڈیا کے ساتھ فوج کو ٹکرانے کے لئے جو سازشیں کر رہے ہیں ، ان سازشوں میں پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کون لوگ ملوث ہیں۔ اس طرح پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کا کوئی ٹھوس جواز نہیں بنتا ہے ۔
دوسری طرف عمران خان بھی احتجاج کا اپنا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو انہیں 11 مئی 2014ء کے بجائے 11 مئی 2013ء کو ہی احتجاج شروع کردینا چاہئے تھا۔ انہیں خیبر پختونخوا میں حکومت بھی نہیں بنانی چاہئے تھی کیونکہ ان کے بقول انتخابات شفاف انداز میں منعقد نہیں ہوئے اور ان کے تصور کے مطابق ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کوئی بھی حکومت جائز تصور نہیں ہو گی۔ انہیں ایک سال بعد یہ خیال کیوں آ رہا ہے کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے تھے اور اب وسط مدتی انتخابات کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان سے معاملات سنبھل نہیں رہے ہیں اور وہ اپنی حکومت کی ناکامی کی خفت سے بچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی بھی ان سے بغاوت کر چکے ہیں ۔ خیبرپختونخوا کی حکومت دہشت کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا ہے کہ جب اس صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بے گناہ انسان نہ مارے جاتے ہوں ۔ امن وامان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی خیبر پختونخوا کی حکومت کو یہ کام کرنے سے نہیں روک رہا ہے۔ جب تک عمران خان کو حکومت نہیں ملی تھی ، تب تک وہ بھی ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی طرح کرپشن ، دہشت گردی ، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے بڑے بڑے نعرے لگاتے تھے ۔ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے ، جہاں کرپشن پر صوبائی کابینہ کے ارکان کو نکالا گیا۔ دہشت گردی سب سے زیادہ وہیں ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں بھی صوبائی حکومت ناکام ہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم میں صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کے وسیع تر اختیارات ملنے کے باوجود خیبرپختونخوا کی حکومت نے بجلی کی پیداوار کا کوئی خاطر خوا منصوبہ شروع نہیں کیا ہے۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی طرح عمران خان بھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ موروثی سیاست کا خاتمہ کر دیں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی پارٹی پر گرفت زیادہ سخت ہوتی جا رہی ہے اور ان کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہو لیکن یہ انتخابات پرویز مشرف کے ریفرنڈم سے تو بہتر ہوں گے جس کے لئے عمران خان مہم چلاتے رہے اور انقلابی لیڈر بن کر پرویز مشرف کے ریفرنڈم جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔ یہ بھی بات مان لیتے ہیں کہ عمران خان کسی غیر مرئی قوت کے اشارے پر جمہوری حکومت کو غیرمستحکم نہیں کر رہے لیکن انہوں نے اب تک اس بات کا جواب نہیں دیا کہ عظیم سماجی رہنما عبدالستار ایدھی اپنی زندگی کو خطرے کے پیش نظر پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے تھے ۔ پاکستان سے باہر جانے سے پہلے ان کی وہ پریس کانفرنس آج تک پاکستان کے عوام نہیں بھول سکے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور کچھ دیگر لوگ ان کے پاس آئے تھے اور انہیں کہا تھا کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک میں حصہ نہیں لیا تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا اور اسی خوف سے وہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کو اللہ پاک بہت لمبی زندگی عطا فرمائے۔ ان کی موجودگی میں عمران خان اس بات کی تردید نہیں کر سکتے۔ دراصل عمران خان کی سونامی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب کے پس پردہ بعض غیر مرئی قوتوں کا یہ احساس ہے کہ جنوبی کوریا میں سیاسی قوتوں نے طویل عرصے تک ایک دوسرے سے محاذ آرائی نہیں کی اور سیاسی استحکام کو برقرار رکھا، جس کی وجہ سے فوج کی سیاست میں مداخلت کرنے کا جواز ختم ہو گیا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو جنوبی کوریا کے بجائے مصر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
تازہ ترین