• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھر کے اگلے حصے میں چھوٹا ساباغیچہ ہے‘ اس کا رقبہ زیادہ سے زیادہ دو مرلے ہو سکتا ہے یا اس سے بھی کم‘ ٹی وی لائونج کی کھڑکی اسی باغیچے میں کھلتی ہے ‘اس باغیچے میں کھڑکی کے قریب ایک پودا خودبخود اُگ آیا تھا‘ یہ نیم کا پودا نہیں تھا لیکن اس سے ملتا جلتا ‘ اسی فیملی کا معلوم ہوتا ہے‘ اس کی دیکھ بھال کی گئی او ربڑھنے دیا گیا تاکہ وہ بارش اور دھوپ کو کھڑکی سے دور رکھنے میں مددگارہو‘ چند مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتےتناور درخت بن گیا‘ کافی بڑی کھڑکی کو اس نے پوری طرح ڈھانپ لیا تھا۔ اب یہ ایک مکمل سایہ دار درخت بن چکا تھا۔ اگلی برسات سے ذرا پہلے اس درخت کو کسی بیماری نے آ لیا‘ اس کے پتے عجیب طرح سے زرد ہو کر اند رکو مڑ گئے اور ٹہنیاں بہت ہی بدنما نظر آنے لگیں‘ یہ کوئی کارآمد یا پھل دار درخت نہیں تھا کہ اسے قائم رکھ کر دوسرے پودوں کیلئے خطرہ بننے دیا جاتا‘ چنانچہ مالی نے اس کے تنے کو کاٹ کر پھینک دیا۔ خیال تھا کہ اس کی جگہ کوئی پھل دار پودا لگایا جائے گا لیکن برسات کے ختم ہونے تک کاٹے ہوئے تنے کی جگہ پھر ایک ٹہنی نمودار ہو گئی‘ اپریل میں بہار کی آمد تک اس نے کافی قد نکال لیا۔ اگلے برس پھر اسے پہلے والی بیماری نے آن لیا‘ اب کی بار اسے زمین کے اندر زیادہ گہرائی میں کاٹ دیا گیا کہ پھر نہ اُگ سکے لیکن برسات کے ختم ہونے تک یہ پھر سے اُگ آیا‘پچھلے سال سے اب تک اس کی چھتری نے پوری کھڑکی کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اب کے سال بیماری سے محفوظ ہونے کی وجہ سے اس کی چھتری اتنی بڑھی ہے کہ پچھلے ہفتے بارش او رتیز آندھی سے اس کا تنا ایک طرف کو جھک گیا ہے۔ مالی سے پوچھا کہ یہ پودا کاٹے جانے کے باوجود پھر سے کیوں نکل آتا ہے؟ تو اس نے کہا‘ جب تک اس جگہ زمین کو پانچ چھ فٹ قطر میں گہرا کھود کر اس کی جڑوں کو نکال نہ دیا جائے یا اس کے نیچے کاٹے گئے تنے پر فرنس آئل ڈال کر جلا نہ دیا جائے تب تک اکثر درختوں کی جڑ پھر سے پھوٹ نکلتی ہے اور پودا درخت بننے لگتا ہے، اگر اس کو جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکیں گے تو یہ کہیں نہ کہیں سے سر نکالتا ہی رہے گا۔ ناپسندیدہ پودے‘ قابل نفرت چھپکلیاں‘ کاکروچ‘ مچھر‘ جرائم پیشہ لوگ اور خونخوار دہشت گرد‘ جب تک بہت دور ان کی جڑوں تک کو کھود نہیں نکالا جائے گا ان پر کبھی قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ رمضان المبارک میں جونہی یکے بعد دیگرے امجد صابری کی شہادت اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے اویس شاہ کا اغوا ءکا واقعہ پیش آیا تو راقم نے اپنے بھائی خالد اور ہارون الرشید سے عرض کیا کہ ان جرائم میں امن کمیٹی او رخدمت والے الگ الگ ملوث ہیں مگر انہوں نے مان کے نہیں دیا‘ اب جبکہ یہ کالم لکھا جا رہا ہے تو ایک کی خبر ہر طرف دکھائی او رسنائی دینے لگی ہے‘ دوسرے کی خبر بھی ہفتے دس دنوں میں سب کے سامنے آجائے گی‘ اس لئے کہ جرم کے بعد سینہ کوبی کا انداز وہی پرانا‘ سارا بھید تو ان کی آہ و بکا اور آنکھ مچولی آپ ہی کھول د یتی ہے۔ اویس شاہ کو اغواء کے بعد دس دن تک کراچی میں چار مختلف مقامات پر رکھا گیا‘ اس کے بعد وہاں سے نکال کر اندرون سندھ لے جایا گیا‘ پھر غالباً براستہ بلوچستان ڈیرہ اسماعیل خان‘ وہاں سے لنڈی کوتل۔ جب لنڈی کوتل سے افغانستان منتقل کیا جا رہا تھا تو خفیہ والوں کی اطلاع پر بروقت آپریشن کر کے انہیں بازیاب کروا لیا گیا۔ امجد صابری کے قاتل کے کوائف سامنے آ چکے ہیں اور قومی اخبارات میں ان کی تفاصیل چھاپی جا رہی ہیں۔اویس شاہ کو بھی یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی طرح ایک دہشت گرد گروپ کے ہاتھ چند کروڑ میں بیچا جا چکا تھا اور وہ خریدار کے کارندے ہی تھے جو ’’پشتو‘‘ بولتے تھے اور نوجوان اویس شاہ ان کی کوئی بات جاننے اور سمجھنے سے قاصر تھا۔ بھکر میں ہمارے دوست شاہانی کو ہلاک کر نے کیلئے خودکش بمبار صرف پانچ لاکھ روپے میں حاصل کیا گیا تھا‘ بمبار کو یہی بتایا گیا ہوگا کہ وہ شہادت کے اہم مشن پر بھیجا جا رہا ہے لیکن بھیجنے والے ’’مجاہد‘‘ لیڈر نے اسے کرایے کے قاتل کے طور پر فروخت کیا تھا‘ بے نظیر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے بھی اسی طرح حاصل کئے گئے تھے۔ بے نظیر کے قاتل اور اویس شاہ کے خریدار کیا ایک ہی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے؟اگر ایسا ہے تو پھر اس تعلق کو کیوں ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ رینجرز کراچی میں فوج کے زیرکمان آپریشن کر رہی ہے۔ یہ بات ان کے علم میں ہے کہ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بلدیہ ٹائون کی فیکٹری کے قتل عام کس نے کئے اور کون پروا کررہا ہے؟ دست قاتل تو پانچ ہزار روپے سے دو لاکھ میں خریدا جا رہا ہے اور کہیں پر یہ قاتل محض دھمکی اور بلیک میلنگ سے حاصل ہو جاتے ہیں لیکن ان کو خریدنے اور حاصل کرنے والوں کی اصلیت اور شناخت کیوں ظاہر نہیں کی جا تی۔ کتنے اصل قاتل اور سہولت کار ہیں جن کو عدالت کے کٹہرے تک لایا گیا ہے؟ امن کمیٹیوں اور خدمت کے نام پر قتل‘ بھتہ خوری اور دیگر جرائم کا سینڈیکیٹ چلانے والوں کا نام لینے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح شرماتے ہیں جیسے پرانے زمانے کی سکھ دلہنیں شوہر یا سسر کانام زبان پر لانے سے شرمایا کرتی تھیں۔ براہ راست فوج کی کمان میں کام کرنے والے اداروں کی یہ حالت ہے تو پھر پولیس‘ عدلیہ اور سیاسی حکومت سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟ یوں تو آج کے حالات میں جرم اور دہشت گردی کی شاخوں کو کاٹنا اور تنوں کو چیرنا بھی بڑا دل گردے کاکام ہے لیکن ان کی جڑوں کو کھود نکالے اور تلف کئے بغیر ملک بھر میں پھیلی دہشت گردی اور بگڑی ہوئی امن و امان کی صورتحال کو کبھی بھی ٹھیک نہیں کیا جا سکے گا۔ پچھلے پچیس برس میں کراچی کے اندر جرائم اور غارت گری کو روکنے کیلئے تین آپریشن کئے جا چکے ہیں۔ تنے کاٹنے اور شاخیں ’’چھانگنے‘‘ والوںنے ان کی اصل یعنی جڑ سے کوئی علاقہ نہیں رکھا جس کا نتیجہ ہے کہ ہر آپریشن کے بعد یہ پہلے سے زیادہ توانا اور خطرناک بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ آنے والی حکومتوں نے قاتلوں اور مجرموں کی تلفی پر ان کی سرپرست سیاسی جماعتوں کو ’’خون بہا‘‘ ادا کیا اور جرائم میں وقفے کی مدت کا تاوان ادا کیا گیا اورآپریشن کرنے والے افسروں اور جوانوں کو انہی خونی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر وہی نوبت آ سکتی ہے کہ برے اور خونی واقعات کی تاریخ خود کو دہرانے چلی آئے، اگر آج بھی مجرم کے سرپرستوں کا نام لینے‘ کالعدم تنظیموں کا ذکر کرنے کا حوصلہ نہیں تو پھر ان سیاسی جماعتوں اور بااثر افراد کی سرکوبی کس طرح کریں گے جو ان خون آشام درندوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ امجد صابری کو قتل کرنے کیلئے کرائے کا قاتل تو دو لاکھ میں مل جائے گا لیکن قاتلوں کے سرپرستوں تک رسائی نہ کرائے پر حاصل کئے قاتل کو ہے نہ جرم ختم کرنے والے اداروں کی۔اس لئے کہ دو لاکھ میں حاصل کیا گیا قاتل بھی اپنے معاوضے سے محروم بتایا جاتا ہے؟
تازہ ترین