• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر پرویزرشید کہتے ہیں ’’عمران خان پہلےبھی ’’لڈو‘‘ کھانے نکلے تھے لیکن ’’چھوارے‘‘ کھا کر واپس آگئے اب بھی ایسا ہی ہوگا‘‘، پرویز صاحب کا بیان سن کر ’’عارضی ہنسی‘‘ سے زیادہ کچھ پریشانی لاحق ہوگئی کیونکہ انتہائی سنجیدہ طبعیت ہونے کے سبب ان کےزیرلب مسکراتے ہوئے مذاق میں بھی گہری بات ہوتی ہےاوراکثر زمینی حقائق بھی اس کی عکاسی کررہے ہوتے ہیں، 14اگست2014کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا نعرہ لگا کر عمران خان اپنے ’’سیاسی ونفسیاتی کزن ‘‘ علامہ طاہر القادری کے ہمراہ لاہور سے نکلے اور اسلام آبادکے مشہور ومعروف ’’آبپارہ چوک‘‘ میں اترے،چند دن پڑائو کے بعد محترم قادری اور عمران خان نے ڈی چوک اور پھر تیس اگست کو وزیراعظم ہائوس ’’فتح‘‘ کرنےکااعلان کردیا،رینجرز،ایف سی اور پولیس نے کارکنوں کوروک لیا خیر ’’قربانی والی‘‘ عید کے بعد محترم قادری صاحب اپنے ’’وطن‘‘ کو عازم ہوئے جبکہ سولہ دسمبر کے المناک حادثے کے بعد عمران خان نے بھی موقع غنیمت جان کرتاریخی دھرنا ختم کردیا ابھی خالی ہاتھ بنی گالا پہنچے ہی تھے کہ خان صاحب کی دوسری شادی کی خواہش کی خبریں ’’حقیقت کا روپ‘‘ بھابی ریحام کی صورت میں دھار گئیں‘‘۔تاہم ’’ناگریز‘‘ وجوہات کی بناء پر ’’بندھن ‘‘چند ماہ میں ٹوٹ گیا،خان صاحب پھر اکیلے ہوگئے،بات ہورہی ہےخان صاحب کےپھر ’’لڈو‘‘ کھانے یا’’چھوارے‘‘ کھانے کی ،ابھی چند روز پہلے خان صاحب کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر ان کی تیسری شادی کی خبروں کا خوب چرچا ہوا لیکن پی ٹی آئی اور خود خان صاحب نے ’’سختی‘‘ سے تردید کردی۔ خان صاحب نے اس دوران پوری ’’اپوزیشن‘‘ کو ایک طرف چھوڑ کر حکومت کے خلاف سات اگست سے سڑکوں پر آنےکا اعلان کردیا، اب پھر وہی اگست ہے اور ساون کی حبس بھری گرمی بھی، لیکن پوری قوم کا سوال ہے کہ اب کی بار ہوگا کیا؟ کیونکہ اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا بڑا اور طویل ترین دھرنا عوام بالخصوص نوجوان طبقے کےلئے ملکی سیاست میں محض ’’انوکھا تجربہ‘‘ ہی ثابت ہوا اور ’’دھاندلی ‘‘ پرجوڈیشل کمیشن کی ’’شفاف ‘‘رپورٹ کے بعد ڈیڑھ سال کی محنت بھی بظاہر ’’بے ثمر‘‘رہی ،پچھلے کچھ ماہ سے پے درپے ملکی اور غیرملکی واقعات نے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور چار وناچار پاکستانی عوام بھی اس کا شکار رہے،اب تک پاناما لیکس سرفہرست ہے، تاہم وزیراعظم کے ’’دل ‘‘ کی بیماری و آپریشن، فرانس، امریکہ اور جرمنی سمیت دنیا کےمقدس ترین شہروں میں دہشت گردی کے دل خراش واقعات ، آزاد کشمیر میں ’’ن ‘‘ کا ’’کلین سوئپ‘‘ ،حکومت اور پیپلزپارٹی کا ’’جمہوریت‘‘ بچانے کے لئے ایک دوسرے سے ’’رجوع‘‘ کرنے سمیت اسلام آباد اور اٹھارہ بڑے شہروں میں ’’اب آجائو‘‘ کے بینرز مسلسل مرکز نگاہ اور موضوع گفت گو رہے،تاہم ان سب واقعات میں کہیں زیادہ اہم اور پاکستانی سیاست کی موجودہ ’’گومگو‘‘ صورتحال میں براہ راست اثر پذیر ترکی کی ناکام ’’بغاوت ‘‘کا واقعہ ہے ۔جس میں’’جمہور‘‘ کی فتح نے پاکستان اور خاص طور پر 48دن بعد لندن سے واپس آنے کے باوجود ’’علالت ‘‘کے باعث گیارہ روز تک اسلام آباد آنے سے قاصر وزیراعظم میں گویا ایک نئی ’’توانائی‘‘ ڈال دی،ایک دن بعد ہی وہ وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے، ان دونوں واقعات میں کیا’’کنکشن‘‘ ہے یہ عوام ’’بخوبی ‘‘سمجھ سکتے ہیں،۔۔۔
بلاشبہ عمران خان موجودہ حکومت کی ’’واحد‘‘ اپوزیشن ہیں ،وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ،یہ اعزاز بھی انہی کا ہے کہ وزیراعظم ،کابینہ اور’’ن ‘‘ کےتمام ارکان پارلیمنٹ کی توجہ اور تنقید کا ’’فوکس‘‘ صرف عمران خان ہیں ،وہ سوشل میڈیا پر ملک بھر میں سب سے زیادہ ’’پسند‘‘ کئے جانے والے رہ نمائوں میں بھی سر فہرست ہیں،،، لیکن اس حقیقت سےانکار نہیں کہ جس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو انہوں نےچیلنج کیا ہے اس کے بڑے ’’پردھان‘‘ ان کے دائیں بائیں، آگے پیچھے اور دور تک ’’صفوں‘‘ میں ’’ایکٹو‘‘ نظر آتے ہیں، خان صاحب جس طرز سیاست پر ہروقت لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں اس کا ’’عملی مظاہرہ ‘‘ان کی خیبرپختونخوا میں قائم حکومت میں واضح نظر آتاہے، جس میرٹ ،شفافیت، ایماندارانہ اور خود احتسابی کا نعرہ وہ شد مد اور باآواز بلند بار بار لگاتےہیں، اس کی ہر سطح پر ’’دھجیاں‘‘ اور خلاف ورزیاں انہیں اپنےہرطرف اورآس پاس ہر روز دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں، نوجوان طبقے کو سامنے لانے اور نیانظام بنانے کا مشن شاید ’’متروک ‘‘ہوچکاہے، بڑے بڑے جلسے اب جلسیوں اور ان میں خواتین کے’’تحفظ ‘‘ کی پامالی کا منظر کئی بار نہیں ہربار دہرایا جاچکاہے،ان کی اپنی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات ’’بزور طاقت‘‘ نہیں ہو سکے، پارٹی کے اندر دھڑے بازی اور ٹوٹ پھوٹ پہلے دھرنے سے قبل قومی اسمبلی کی سطح پر اور اب دوسرے ’’دھرنے‘‘ کی کال سے پہلے صوبائی سطح پر شروع ہوچکی ہے،پہلے’’کامیاب ‘‘ دھرنے کے بعد کنٹونمنٹ بورڈز، بلدیاتی انتخابات ،کے پی سمیت اہم قومی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست اور اب آزادکشمیر میں دگنے ووٹوں سے ہار ،یہ سب ہوچکاہے، لیکن عزم اور استقامت میں لغزش نہیں آئی اور عمران خان پھر حکومت کو چیلنج کرنے نکل کھڑے ہوئے، اس ساری صورت حال پر ان سے ایک حالیہ ملاقات کے دوران بھی بات ہوئی اوران قومی موضوعات ومسائل پران سےکھل کر بات ہوئی ،لیکن کچھ’’انتہائی مضبوط‘‘ لوگ ان کی مجبوری بنے ہوئے ہیں ،خان صاحب کومعلوم ہےکہ عوام شاید کچھ ’’مختلف‘‘ سوچ رہے ہیں، شاید انکی امیدوں کا محور اب بھی عمران خان ہی ہوسکتاہے؟عمران خان ہی ملکی سیاست سے پہلے اپنی صفوں سے ‘‘فصلی بٹیروں’’ کو فارغ کرنے کا حوصلہ کرسکتاہے،وہی روایتی طرز سیاست کے صفحے الٹ کر پاکستان سے سچی محبت کرنے والے سنجیدہ، صاف وشفاف کردار اور کیریئر رکھنے والوں، بالخصوص نوجوانوں کو سیاست کا کھلاڑی بناکر میدان میں اتار سکتاہے،جس سے فتح اسکےقدم چوم سکتی ہے، عوام کی نظر میں عمران خان ان سے سچ بولتاہے اور وہ سوچتے اور جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں کوئی ‘‘نیم اپوزیشن ‘‘بھی نہیں سب حکومت میں رہ کریا مل کر ’’مزے‘‘ لوٹ رہے ہیں،ان کی نظر میں تین سال تک عمران خان اپنا ’’پورا‘‘ زور لگا کرموجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کرنے کی بھرپور کوشش کر چکا، ہر بار اپوزیشن نما جماعتوں نے ’’جمہوریت‘‘ کو بچا لیا، اب وہ توقع کر رہے ہیں کہ اس’’مفاد پرست جمہوریت کی بجائے، عوام پرست جمہوریت‘‘ کیلئے جدوجہد کی جائے،عوام جانتے ہیں آئندہ انتخابات میں دو سال سے کم کا عرصہ باقی ہے، کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب ضروری ہے، شفاف الیکشن کیلئے الیکشن کا شفاف نظام ضروری ہے، بہترین منتخب نمائندے لانے کیلئے پہلے ’’اچھے‘‘ لوگوں کا انتخاب ضروری ہے لیکن سب سے پہلے اپنے ہاں ’’صفائی و ستھرائی‘‘ بھی ضروری ہے، ہاں جہاں تک وفاق اور پنجاب میں حکومت کی ’’بہترین اور کامیاب‘‘ حکمرانی اور طرز شاہانی کا تعلق ہے وہ تو عوام دیکھ ہی رہے ہیں، سندھ ’’والوں‘‘ کا حال تو اور بھی ’’اچھا‘‘ ہے کہ دہشت گردی کے ’’خاتمے‘‘ کے بعد اب سڑکوں کی صفائی پر نکلنے والے ’’معمر کپتان‘‘ کو’’بیچ راہ‘‘ ہی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، خیبر پختونخوا کے ’’والی‘‘ نے بھی صوبے کی حالت تبدیل کرنےکی خبروں کی تردید کرکے ’’پانچ سال کا کام نوے دن‘‘ میں کرنے سے معذرت کرلی ہے اور بلوچستان ’’والے‘‘ تو ہیں ہی خوش نصیب میڈیا کی ان پر نظر پڑتی ہے اور نہ ہی وہاں کے عوام کے مسائل پر لہٰذا وفاق کی ’’حمایت‘‘ سے وہ ’’چین‘‘ کی نیند سو رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اس موقع غنیمت سے فائدہ اٹھائیں ابھی سے اپنی ’’احتجاجی تحریک‘‘ کو ’’انتخابی تحریک‘‘ میں تبدیل کردیں اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی بجائے ان کے پاس خود پہنچ جائیں شاید عوام کو ان کے ’’خوابوں‘‘ کی تعبیر بھی مل جائے اور شاید خان صاحب کا وزیراعظم بننےکا ’’سپنا‘‘ بھی سچ ثابت ہوجائے، لیکن ایک اور کام اس سے بھی پہلے ضروری ہےاور وہ ہے ’’لڈو‘‘ والا کام، یعنی اپنی تنہائی کا ’’مداوا‘‘پہلے کر لیں تاکہ حکومتی وزیروں کی ’’چھوارے‘‘ آپ کو کھلانے کی بات، آپ کی طرف سے بھجوائے گئے ’’چھوارے‘‘ کھا کر پوری ہو جائے۔
تازہ ترین