• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’کارکردگی‘‘کی بنیاد پر کلین سوئپ کر کے دوبارہ حکومت بنانے اور مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرانے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بری طرح ہار گئے اور طنزو تشنیع کے جوابی حملوں کے ساتھ سنجیدہ سیاست سے بھی کا م لینے والے کلین سوئپ کر گئے۔ یہ کہانی ہے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم وزیراعظم نواز شریف کی کردار کشی سے شروع کی اور کردار کشی پر بند کی۔ ایک نے نواز شریف کو نریندر مودی کا یار، پاکستان کا غدار قرار دیا اور کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کی ریاستی دہشت گردی کو نواز شریف کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ دوسری نے پاناما لیکس کی غیر ثابت شدہ کرپشن کو خوب اچھالا اور الیکشن سے ایک روز پہلے 7اگست سے نواز شریف کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا مقصد یہ تھا کہ نوازحکومت تو بس جانے ہی والی ہے۔ کوئی اس کی پارٹی کو ووٹ دے کر اسے ضائع نہ کرے۔ مسلم لیگ ن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ کشمیری عوام آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی’’بدعنوان اور بدمعاش‘‘ حکومت سے ووٹ کی پرچی کے ذریعے بدلہ لیں گے اور شملہ معاہدے کے ذریعے کشمیر کو اندرا گاندھی کے ہاتھوں بیچنے والوں کا محاسبہ کریں گے، ماضی میں آزاد کشمیر کی سب سے بڑی جماعت مسلم کانفرنس بھی تحریک انصاف سے ساجھے داری نبھانے کے لئے نواز شریف کے لتےّلیتی رہی۔ انتخابات تو اب ختم ہوگئے۔ نتیجہ بھی آگیا اور دھاندلی کے الزامات بھی جو ہارنے والے ہر الیکشن کے بعد اپنی خفت مٹانے اور اپنے ووٹروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے لگایا ہی کرتے ہیں۔ تجزیہ کار اب حساب لگا رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا حشر نشر کیوں ہوا اور اس کے ساتھ ہی تحریک آزادی کی علمبردار جماعت مسلم کانفرنس کی لٹیا بھی کیوں ڈوبی۔ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے ووٹروں کے دل جیتنے کے لئے انتہائی منفی مہم چلائی جبکہ مسلم ’’لیگ ن نے مخالفین کو تلخ و ترش جواب دینے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی اور انہیں حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کے اعلانات بھی کئے۔ پیپلزپارٹی کو تو اس کی 5 سالہ ’’کارکردگی‘‘مار گئی جس کی بنیاد پر اسے جیتنے کی خوش فہمی تھی، اس کے لیڈرنعرے لگا رہے تھے کہ انہوں نے آزاد کشمیر کو ’’ماڈل ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ بنا دیا ہے مگر لوگوں کو زمین پر ماڈل اسٹیٹ کا ماڈل‘بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ البتہ ہر طرف کرپشن میرٹ کی پامالی اور جیالہ نوازی کی داستانیں ضرور زبان زد خاص و عام تھیں۔انتخابی مہم میں ایسے نوجوان لیڈر سے زوردار تقریریں پڑھوائیگئیں جس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ آزاد کشمیر ہے کیا ؟ اس نے نواز شریف کی ذات پر ایسے ایسے حملے کئے جو ان کے والد محترم کرتے تو بھی کوئی پسند نہ کرتا۔ چہ جائیکہ ایک نوجوان کی زبان سے باپ کی عمر کے آدمی کو للکارنا برداشت ہوتا۔ کسی لیڈر یا اس کی پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید تو سیاست میں روا ہے مگر ذاتیات کو نشانہ بنانا ہر معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ خاص طورپر آزاد کشمیر کے عوام جو شرح خواندگی اور سیاسی شعور کے اعتبار سے پاکستان کے ہر صوبے پر تفوق رکھتے ہیں ا لزام تراشی ا ور زبان درازی کی سیاست کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کے سربراہ بھی شاید آزاد کشمیر اور اس کے عوام کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے اس لئے وہ بھی اول و آخر نواز شریف کو ہی رگڑا دیتے رہے پاکستان کی ان دو بڑی جماعتوں کے لیڈروں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر تو کیا مگر صرف نواز شریف کی پالیسیوں میں کیڑے نکالنے کی حد تک۔ آزاد کشمیر کے عوامی مسائل پر بہت کم بولے، اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کو ان پر برتری حاصل رہی ۔ آزاد کشمیر ذات برادری کی سیاست کا گڑھ ہے اور مسلم لیگ ن کے قافلہ سالار سردار سکندر حیات اس سیاست میں جیتنے والے گھوڑوں کی سب سے زیادہ پہچان رکھتے ہیں۔ ان سب کو انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور ریس جیت لی۔ ہوا کا رخ دیکھ کر آخری چند ماہ میں کئی وزراء بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑ گئے۔محترمہ فریال تالپور کو جو آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کی انچارج تھیں اسی سے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ پیپلزپارٹی کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس بھی انتخابی ٹکٹ کے سوال پر اپنے کئی بااعتماد لیڈروں اور کارکنوں سے محروم ہوگئی۔ ان کی اکثریت نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ویسے بھی مسلم لیگ ن بنیادی طور پر مسلم کانفرنس ہی کا لشکر ہے جسے سردار عتیق کی کمان سے اختلاف کے باعث سردار قیوم کے بعد پارٹی کے سب سےبڑے لیڈر سردار سکندر حیات ا پنے کیمپ میں لے گئے تھے ا ور مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی تھی بعد میں کچھ دوسری پارٹیوں کے سپاہی بھی اس میں شامل ہو گئے اس طرح نواز شریف کی پارٹی اسمبلی میںدو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پیپلزپارٹی کے کئی برج الٹ گئے ہیں ا ور صرف تین سیٹیں اس کے ہا تھ لگی ہیں اس لئے مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں ا س نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے اور دھاندلی کا جو الزام عمران خان نے نہیں لگایا جن سے اس کی زیادہ توقع تھی، بلاول بھٹو زرداری اور چوہدری عبدالمجید نے لگا کر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مقامی لیڈروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواروں میں کروڑوں روپے تقسیم کئے جن سے انہوں نے ووٹ خریدے۔ سوال یہ ہے کہ پارٹی نے ا سی وقت الیکشن کمیشن سے شکایت کیوں نہ کی جب یہ خرید و فروخت ہو رہی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پولنگ کے دن تک پارٹی کا یہی دعویٰ تھا کہ وہ کلین سوئپ کرے گی۔ اب جبکہ وہ ہار گئی ہے تو اسے دھا ندلی یاد آگئی ہے جو پس از مرگ واویلے کے سوا کچھ نہیں۔ ا س کے برخلاف عمران خان نے نواز شریف کو مبارکباد دے کر حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر بعد میں سجدہ سہو نہ کر لیا گیا تو اس سے ا ٓزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے وقار میں اضافہ ہو گا۔
تازہ ترین