• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کے معاملے پر سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر پہنچے تو شاہراہ دستور پر ان سے ملاقات ہو گئی۔ طویل عرصے بعد آمنا سامنا ہونے پر عمران خان انتہائی گرمجوشی سے ملے۔ ہاتھ پکڑ کر کمرہ عدالت کی طرف چل پڑے۔ گزشتہ کالم’’افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر‘‘ پر خاصے نالاں دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ خان صاحب آپ کوئی عام شخص نہیں ہیں بلکہ ایک مقبول عوامی لیڈر ہیں۔ اس لئے آپ جو بات کرتے ہیں وہ انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔لوگ اس کا اثر لیتے ہیں۔اگر آپ جیسا لیڈر کسی بھی شخص یا ادارے پر بغیر کسی ثبوت کے غیر ذمہ داری سے انگلی اٹھائے تو اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔نہ صرف آپ کی ذات بلکہ پوری تحریک انصاف کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔ بطور صحافی میری ذمہ داری ہے کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہوں۔ بے بنیاد الزامات کا جواب دینا میرا پیشہ ورانہ فرض تھا۔ تحریک انصاف کے سربراہ سے گفتگو کے دوران مجھے دو سال قبل عمران خان کے گھر زمان پارک میں ناشتے کی میز پر پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا۔ جب عمران خان کی ہی پارٹی کے ایک رہنما نے چھوٹے اور بڑے عہدے والوں پر تنقید کرنے سے متعلق خلافت راشدہ کے عہد کا مصر کے گورنر کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ اس دور میں مصر کے گورنر نے بے گناہ انسانوں پر ظلم کرنا شروع کردیا اور ان کے آزادی اظہار پر پابندی عائد کردی ۔ایک روز مصری شہری روتا ہوا خلیفہ کے پاس پہنچا اور شکایت کی کہ مصر کے گورنر کا بیٹا اس سے ریس ہار گیا ہے ۔جس پر اس نے آزادی سے جشن مناتے ہوئے مصر کے گورنر کے بیٹے پر تنقید کی۔گورنر کے بیٹے نے اسے نہ صرف قید کیا بلکہ کوڑے بھی لگوائے۔خلیفہ نے نہ صرف مصر کے گورنر کے بیٹے کو کوڑے لگوانے کا حکم دیا بلکہ گورنر کو یہ بھی کہا کہ آزادی رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔کسی پر یہ سمجھ کر تنقید نہیں روکی جا سکتی کہ وہ عہدے میں گورنر یا اس کا بیٹا ہے اور مصر کے گورنر کو مزید یہ بھی کہا کہ انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ہے تم کون ہوتے ہو ان کو غلام بنانے والے یا ان پر پابندی لگانے والے۔مجھے تو یہ واقعہ اچھی طرح سے یاد ہے مگر شاید تحریک انصاف کے سربراہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔عمران خان میری بات سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن میں انتہائی ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ان کی جانب سے گزشتہ دنوں کی جانے والی پریس کانفرنس پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی اکثریت ان سے ناراض ہے مگر جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ کوئی ان پر تنقید یا ان سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرتا لیکن شاہ محمود قریشی محتاط انداز میں ایسا کر بھی لیتے ہیں۔ جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ختم ہونے کے بعد میں اور عمران خان احاطہ عدالت میں محو گفتگو تھے کہ تحریک انصاف کے دیگر رہنما بھی وہاں جمع ہو گئے۔ عمران خان سپریم کورٹ سے واپس اپنے گھر بنی گالہ جانے کے خواہاں تھے مگر شاہ محمود و دیگر کی رائے تھی کہ آج وزیر اعظم اسمبلی کے اجلاس میں آئیں گے۔ اس لئے عمران خان کی شرکت ضروری ہے۔ عمران خان کہنے لگے کہ ان کی اسمبلی اجلاس کے لئے تقریر تیار نہیں ہے۔ اس لئے جمعہ کے روز اجلاس میں شرکت کریں گے۔عارف علویٰ ودیگر رہنماؤں نے شرکت پر اصرار کیا تو عمران خان کہنے لگے کہ چلو ٹھیک ہے جس موضوع پر گزشتہ دنوں ہنگامی پریس کانفرنس کی تھی آج اسی پر دھماکے دار تقریر کروں گا۔جس پر نہ صرف شاہ محمود قریشی نے احتجاج کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ تحریک انصاف کو بار بار ایسی غیر ذمہ داری زیب نہیں دیتی۔ عمران خان کو نہ صرف محتاط رہنا ہو گا بلکہ ایسے کسی بھی کھیل سے بچنا ہو گا جس پر عمران خان گہری سوچ میں چلے گئے۔
تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ان کا آج کا احتجاج جمہوریت کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر عمران جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا رہے تو پھر اس سے فائدہ کسے پہنچا رہے ہیں؟ مسلم لیگ ن اور ان کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے اور میں نے عملی طور پر ایسا کیا بھی ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں مسلم لیگ ن اور پنجاب حکومت کی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں پر نہ صرف میں کڑی تنقید کرتا رہا ہوں بلکہ تمام بڑے ترقیاتی منصوبوں پر میری تحقیقاتی خبریں قارئین کے سامنے ہیں لیکن اس سب کے باوجود گزشتہ 11ماہ میں میاں نوازشریف اور ان کی ٹیم کی کارکردگی قابل تحسین ہے۔ ہر شعبے میں مسلم لیگ ن کی وفاقی و پنجاب حکومت کی جانب سے کی جانے والی بہتری واضح دیکھی جاسکتی ہے۔اسحاق ڈار جیسے زیرک وزیر خزانہ نے صرف چند ماہ میں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے قابل تحسین اقدامات کئے ہیں۔ غلام احمد بلور نے جو ریلوے پر بلور پھیرا تھا خواجہ سعد رفیق کی دن رات محنت کا ثمر اب ریلوے میں دکھائی دے رہا ہے۔ عابد شیر علی گو کم تعلیم یافتہ ہیں مگر لوڈشیدنگ کے خاتمے کا جذبہ رکھتے ہیں نیز ہر شعبے میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی ماضی کی تمام حکومتوں سے بہرحال بہتر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہو یا گیلپ سروے رپورٹ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ماضی کی کسی بھی حکومت کے پہلے گیارہ ماہ کا موازنہ کر لیں۔ میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت اور اس میں واضح فرق دیکھا جاسکے گا مگر اتنی بھرپور کارکردگی کے باوجود یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ میاں نوازشریف اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔ جی ہاں !پارٹی اورحکومت دونوں پر ان کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔مقتدر قوتوں سے اختلاف شدید ہونے اور وزارتوں کے چھن جانے کے خوف سے حکومتی جماعت کے دو وزراء یکے بعد دیگرے اپوزیشن لیڈر سے جاکر ملے اور درخواست کی کہ اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ ان کی وزارتوں پر منڈلاتے خطرات کم ہوجائیں۔یہ اپنی جماعت پر ان کی گرفت کمزور ہونے کی پہلی نشانی ہے۔ حکومت کی بہترین کارکردگی کے باوجود وزیراعظم کی مملکت خدادداد پر گرفت کمزور پڑتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔گزشتہ دنوں وزراعظم ہاؤس کا کنٹرول مکمل طور پر فوج کے سنبھالنے کے حوالے سے ایک کالم نویس کے کالم نے کافی ابہام پیدا کردیا تھا۔جس کی بعض دیگر ذمہ دار حکام نے بھی تصدیق کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا آج سے ٹھیک ایک سال قبل جب 11مئی کو جمہوریت کا ننھا منا پودا جمہوری انتخابات کے بعد تناآور درخت بننے کی طرف گامزن ہوا تھا ۔عمران خان اس دن کی یاد میں حکومتی کارکردگی کو سراہتے اور ایسے حالات میں جمہوریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے لیکن آپ تو جمہوریت کو ہی خطرے میں ڈالنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔
یاد رکھئے کہ اگر جمہوریت کو کوئی بھی نقصان پہنچا تو عوام آج 11مئی کے دن آپ کے کردار کو معاف نہیں کریں گے اور شاید آپ بھول گئے ہیں کہ یہ لوگ بہت وعدہ خلاف ہیں۔ کیا 2002ء میں آپ کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ پورا کیا؟ کیا 30اکتوبر 2012ء کو جو وعدہ کیا گیا تھا وہ وفا ہوا؟آپ اس کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ جمہوری حکومت کو خطرے میں ڈال کر ایک مرتبہ پھر ٹیشو پیپر کی طرح استعمال ہونے سے بہتر ہے کہ خیبر پختونخوا میں بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کریں اور 2018ء میں فخر سے سینہ چوڑا کرکے عوام کے پاس جائیں۔
تازہ ترین