• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آج ایک نیا پاکستان بن گیا ہے کیونکہ یہ کالم اتوار کے جلسے، جلوسوں، دھرنوں اور ہنگاموں سے پہلے لکھا گیا ہے تو اس میں کل جو کچھ ہوا یا نہ ہو سکا اس کی جھلک تو نظر نہیں آئے گی مگر اسی اخبار کے پہلے صفحے پر اس کا پورا احوال موجود ہے۔میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ آج کا پاکستان کیسا ہے۔ آج پورا ایک سال اور ایک دن ہو گیا ہے جب ہم نے 11؍مئی 2013 کو اپنے ووٹ ڈال کر نئی قیادت اور نئی حکومتیں منتخب کی تھیں۔ دور سے کسی تصویر کو دیکھیں تو بہت مکمل نقش نما نظر آتے ہیں۔ دور سے آج کا پاکستان کیسا ہے۔ کچھ اس تصویر کے اچھے اور برے رخ یہ ہیں:
٭میڈیا کے اداروں میں خوفناک جنگ و جدل جاری ہے اور ہر میڈیا والے کسی نہ کسی کی کرسی خالی رکھ کر دعوت چیلنج دے رہے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوا۔٭سیاسی پارٹیاں میڈیا کے خلاف کھل کر لڑائی کیلئے میدان میں اتر آئی ہیں۔٭حکومتی ادارے میڈیا کے خلاف اور میڈیا کچھ اداروں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔٭جہاں مذاکرات ہونے تھے وہاں کئی دن سے کرفیو لگا ہے اور جہاں کرفیو ہونا چاہئے وہاں دھرنے اور کنٹینرز لگے ہیں۔٭ادارے اہم فیصلوں کو ٹال رہے ہیں اور قانون کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے جبکہ سیاسی پارٹیاں سڑکوں پر اس لئے نکل آئی ہیں کہ قانون اپنا راستہ نہیں بنا رہا اور ان کے اٹھائے ہوئے مسائل مہینوں اور سالوں سے سردخانے میں پڑے ہیں۔٭جمہوریت کو بجائے پارلیمنٹ کے ایوانوں کے سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور کچھ لیڈر حضرات تو نئے انتخابات کا بھی مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
٭وزیراعظم کہتے ہیں انہیں تو کوئی مسئلہ نظر ہی نہیں آ رہا، کیسی دھاندلی کون سی دھاندلی، سب اچھا ہے اور اربوں، کھربوں کے منصوبے بن رہے ہیں اور قرضوں کی فراوانی ہے، ڈالروں کی ریل پیل ہے، کام چل رہا ہے، مال بن رہا ہے، ہر ادارہ اپنی جگہ خوش ہے، ہر ایک ہر ایک کے صفحے پر موجود ہے،دنیا خوش باش ہے اور اگر ہم نے کوئی وعدے کیے تھے جو پورے نہیں ہو رہے تو لوگ برداشت کریں۔٭کئی حلقے اپنی نئی بساط بچھانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور بقول کسی چڑیا یا کبوتر یا طوطے کے نئی لسٹیں بن رہی ہیں۔ نئے نام اور ایسے نام جو پہلے کبھی کسی سیاسی یا غیر سیاسی، آئینی یا غیر آئینی حکومتی نظام میں شامل نہیں تھے ان سے بھی سرگوشیوں میں پوچھا جا رہا ہے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں؟٭افراتفری کا یہ عالم ہے کہ ایک خبر کی وجہ سے یا ایک ٹی وی کی تصویر کی وجہ سے پورا ملک تقسیم ہو گیا ہے۔٭اچانک جو پارٹیاں نظام کو چلانے میں مصروف تھیں اب نظام کو گراتی نظر آتی ہیں۔٭عوام اس مارا ماری میں پس کر پریشان ہیں کہ کس کا گریبان پکڑیں، جن کو ووٹ دیئے تھے ان کا یا جنہوں نے الیکشن چرا لیا ان کا…؟٭بڑے بڑے قومی اور علاقائی چیلنج جن کے مقابلے کیلئے ہر ادارے کو اور ہر پاکستانی کو مل کر ایک آواز کے ساتھ تیاری کرنی تھی وہ کالی گھٹائوں کی طرح ملک پر چھا رہے ہیں اور ہم سب آپس کی لڑائیوں سے نہیں نکل سکتے۔
اس صورت حال میں نہ تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے نہ معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ حکومتی نعرے اور دعوے اپنی جگہ، جلسے اور دھرنے اپنی جگہ، اداروں کی لڑائی اپنی جگہ، ہر ایک جب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گا تو ملک کہاں جائے گا…؟ کیا فوجی انقلاب اس کا حل ہے؟ کبھی بھی نہیں۔ کیا سیاستدان ایک دوسرے کا خون کر کے اور گالم گلوچ سے ملک میں امن لے آئیں گے؟ بہت ہی مشکل ہے۔ کیا دھرنے اور سڑکوں پر ہنگامہ آرائی سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا خالی باتوں اور وعدوں سے کام چل جائے گا؟ ناممکن ہے۔ تو پھر یہ آج کا نیا پاکستان کہاں کھڑا ہے اور کدھر جا رہا ہے؟ ملک میں الیکشن ہوئے ایک سال گزر گیا مگر سیاسی پارٹیوں، اداروں، میڈیا اور عوام میں جو ٹھہرائو اور ایک برداشت کی قوت پیدا ہونی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی اعتماد سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہر لیڈر یا ادارہ ایک دوسرے پر الزام اور ذمہ داری ڈال رہا ہے، اپنا کام دیانتداری سے نہیں کر رہا۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل بجائے رکنے کے بہت تیز ہو گیا ہے۔ غیرملکی دوست اور دشمن سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اس ملک کے ساتھ کیا کریں؟ قرضے دینے والے پہلے انتظام کرتے ہیں کہ مال واپس کیسے لیں گے پھر آگے بڑھتے ہیں۔ ہر وہ ملک جس کو امید ہے یا خیال ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ ہو گیا تو میرے لگائے ہوئے اربوں، کھربوں کی وصولی تو ہو ہی جائے گی۔ وہ کھل کر کھیل رہا ہے۔ اگر پاکستان کی وحدت کو دھکّا لگا تو بھی نہ زمین کہیں جائے گی اور نہ لوگ اور نہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے بے بہا خزانے جو ہم بدقسمت لوگ اپنے لئے استعمال نہیں کر سکے تو مال لگانے والے تو اپنا مال وصول کر ہی لیں گے۔ ہاں جو اقتدار میں ہیں وہ جان بچا کر اور لوٹا ہوا مال و متاع لے کر فرار ہو جائیں گے۔ میں جب بھی دبئی جاتا ہوں ایک نئی صورت حال نظر آتی ہے اور ساری عرب اور اسلامی دنیا کے لوٹے ہوئے مال وہاں آ کر جمع کرائے جاتے ہیں، خاص کر جب کسی ملک میں حالات سنگین ہوتے ہیں تو دبئی کے مزے آ جاتے ہیں کیونکہ وہاں اربوں، کھربوں ڈالر لوگ لاتے ہیں اور اپنے ملک کے خرابے سے نکل کر نیا ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان کے تو سیکڑوں ارب ڈالر پہلے ہی دبئی میں ہیں اور مزید لاکھوں روز کے حساب سے آتے ہیں۔ ہنسی آتی ہے جب اسحاق ڈار یہ کہتے ہیں کہ وہ سوئس بینکوں سے 200؍ارب ڈالر پاکستان واپس لائیں گے۔ اچھا بیان ہے مگر ان کے وزیراعظم تو سارے بڑے چوروں اور ڈاکوئوں کو عام معافی دے چکے تو کس کا پیسہ واپس لایا جائے گا ڈار صاحب…؟ کچھ نام بھی اگر بتا دیتے تو شاید لوگ کم قہقہے لگاتے۔ ملکوں کو چلانے کے یہ طریقے نہیں۔ اداروں کو چلانے کے بھی یہ طریقے نہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب نے سڑکوں کا شو تو کر لیا مگر اب کیا۔ اگلا قدم کس نے سوچا ہے۔ عمران خان کی 11؍نکاتی لسٹ بھی آ گئی تو اب کیا سڑکوں پر دمادم مست قلندر ہو گا اور یہ سارا سیاسی دنگل کس کے لئے فائدہ مند ہو گا؟ کیا فوج میں جو جیالے اس صورت حال کو گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ ایسے بکھرے ہوئے اور ٹوٹتے پھوٹتے ملک کو سنبھال لیں۔ ان کے بڑے بڑے سمجھدار جنرل صاحبان بھی آخر غلطیوں پر غلطیاں کر کے ہار گئے اور پھر وہی چور اور ڈاکو جن کو یہ الزام لگا کر نکالا گیا تھا، واپس آ گئے۔تو پھر آج کہیں کسی بند کمرے میں کیا کچھ سمجھدار لوگ سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس نئے پاکستان کا کیا بنے گا اور ہم اسے کہاں لے آئے ہیں اور کہاں لے جا رہے ہیں۔ یہ بڑے ذہن والوں کا کام ہے مگر کیا ملک میں اس طرح کی بے لاگ اور بے لوث سوچ رکھنے والے باقی ہیں؟ لگتا ہے نہیں۔ مجھے یہاں 73؍سال پہلے ایک چار لائنوں کے چھوٹے سے افسانے کی یاد آ گئی جو میرے والد نے اپنی کتاب ’’نئے خاکے‘‘ میں 1941ء میں لکھا تھا عنوان تھا ’’سرمایہ دار‘‘ لکھتے ہیں:
مزدور لیڈر نے سرمایہ دار دوست سے کہا! میرے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو تو اسے بزنس میں لگائوں، اس کارخانے کو خرید لوں، فلاں ہل اسٹیشن پر کوٹھی بنوائوں، فلاں فلاں موٹریں رکھوں، دنیا کا سفر…‘‘ سرمایہ دار نے بات کاٹ کر کہا…’’ٹھیک ہے تم میرے ہم خیال ہو، تم سرمایہ دار ہو۔‘‘ (سرمایہ دار کی جگہ سیاسی لیڈر اور مزدور لیڈر کی جگہ فوجی پڑھیں)
تازہ ترین