• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لاہور کے آٹھ صحافی جب پی آئی اے کی مہمان نوازی کے زخم کھانے کے بعد کراچی ائیر پورٹ پر اُترے ٗ تو ہمارے استقبال کے لیے آئے ہوئے نوجوان ہمیں نام سے پہچانتے تھے نہ چہروں سے۔ میں نے دل میں سوچا یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔اتنے میں پی آئی ڈی کا ایک نوجوان افسر ہماری طرف تیزتیز قدموں سے آیا اور ہماری شناخت کے فرائض سرانجام دیے۔ ہم ایک نیم شکستہ کوچ کے ذریعے ایک معروف ہوٹل پہنچے جس کا نام اب تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ وہی ہوٹل ہے جہاں سے فرانسیسی انجینئر اغوا کیے گئے تھے جو پاکستان کو دیے جانے والی جدید آبدوزوں پر کام کر رہے تھے۔ کراچی کے موجودہ شب و روز اپنے دامن میں اَن گنت خوفناک اور پُراسرار کہانیاں سمیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے کھانے کی میز پر سوچا تھا کہ ہمارے کمروں میں اِس منصوبے کے بارے میں لٹریچر پہنچا دیا جائے گا جو چین اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے والے اقتصادی کاریڈار کا پہلا عظیم الشان منصوبہ ہے اور اِس کاریڈار کی تعمیر پر چین تیس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا معاہدہ کر چکا ہے ٗ مگر جب ہم اپنے اپنے کمروں میں پہنچے ٗ تو کسی قسم کا لٹریچر موجود نہیں تھا ٗ البتہ آٹھویں منزل سے کراچی بے حد خوبصورت نظر آ رہا تھا جیسے آسمان کے ستارے زمین پر اُتر آئے ہوں۔ناشتے کی میز پر اہلِ صحافت جمع ہوئے ٗ تو مضامین کا انبار لگتا گیا۔ سول ملٹری تعلقات ٗ فوج اور میڈیا کی آویزش ٗ حلقہ 118کے ہوشربا نتائج ٗ عمران خاں کی طرف سے گیارہ مئی کو دھرنا دینے کا اعلان ٗ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے اقدامات کے بارے میں امریکی وزارتِ دفاع کی خطرناک رپورٹ ٗ لوڈ شیڈنگ سے عوام کی بڑھتی ہوئی بلبلاہٹ اور کراچی میں خون کی ہولی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ۔ دورانِ گفتگو اندر کی باتیں باہر آنے لگیں اور انکشافات پر انکشافات ہوتے گئے۔ ہم توقع کر رہے تھے کہ پورٹ قاسم کی طرف روانگی سے پہلے ہمیں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ پر تفصیل سے بریفنگ دی جائے گی جس کا سنگِ بنیاد وزیراعظم نواز شریف رکھنے والے تھے ، مگر اِس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آئے اور ہم چشمِ تصور میں اِس عظیم الشان منصوبے کے خدوخال دیکھتے رہے۔ سندھ پی آئی ڈی کے ڈائریکٹر جنرل ملنے تشریف لائے اور اپنے حسن اخلاق سے ہمیں خاصا متاثرکر گئے۔ ڈھائی بجے کے لگ بھگ ہم قاسم پورٹ روانہ ہو گئے۔ کوچ میں ڈیزل کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ زوال جب آتا ہے ٗ تو ہر شعبے میں آتا ہے۔ اِس وقت تک خبریں آ رہی تھی کہ لوڈشیڈنگ کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں اور عوام بھپرتے جا رہے ہیں۔ ہم جس راستے پر رواں دواں تھے ٗ یہاں سے میںپہلے دوبار گزر چکا تھا۔ آخری بار اسٹیل مل دیکھنے آیا تھا جب اِس کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم تھے۔ اُن کی سربراہی میں یہ فولادی کارخانہ نفع میں چل رہا تھا اور اُس کے اثاثے بیس ارب سے زائد تھے۔ اِس بنیاد پر سپریم کورٹ نے اِس کی نج کاری کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا ٗ لیکن اِس کے بعد اسٹیل مل ایک فعال اور دیانت دار قیادت سے محروم ہو گئی اور سالانہ اربوں کے خسارے میں چلا گیا۔ اِس کے معاملات آج بھی دگرگوں ہیں اور حکومت کی ناتواں قوتِ فیصلہ اِس کا بحران گہرا کرتی جا رہی ہے۔ہم پورٹ قاسم پہنچ گئے جہاں مہمانوں کے لیے خوبصورت خیمے لگے ہوئے تھے۔ بھیگی ہواؤں نے فضا میں ایک نشے کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ سفید وردیوں میں ملبوس نیوی کے کمانڈو بہت اچھے لگ رہے تھے۔ اسپیشل برانچ کے اہلکاراپنی دھونس جما رہے تھے۔ اتنے میں پہلے ہیلی کاپٹر کی گرگراہٹ سنائی دی اور چند ساعتوں میں وزیراعظم اپنے رفقاء کے ہمرا نمودار ہو گئے۔ آج کی سہ پہر 660 میگاواٹ پاور پلانٹ کا افتتاح ہو رہا تھا اور پراجیکٹ کے لیے چین اور قطر کی کمپنیوں نے پاکستان سے معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب این اے زبیری نے دستخط کیے تھے ٗ مگر وہ تقریب میں اِس لیے شرکت نہیں کر سکے کیونکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اُنہیں رینٹل پاور پراجیکٹ اسکینڈل میں نیب نے گرفتار کر لیا تھا۔ اُن کی جگہ وفاقی سیکرٹری بجلی و پانی نے استقبالیہ خطبہ پڑھا جو بہت عجیب سا لگا۔ چین اور قطر سے آئے ہوئے مہمانوں نے بڑی فراخ دلی سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی ترقی خیال کیا اور ہر نوع کے تعاون کا یقین دلایا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اِس خطے میں عظیم اقتصادی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیںجن سے پوری بنی نوع انسانی کو فائدہ پہنچے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے گاہے انگریزی اور گاہے اردو میں اعتماد کی سرشاریوں میں تقریر کی اور وعدہ کیا کہ چار پانچ برسوں میں نیشنل گوچی کے اندر چار سے پانچ ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہو جائے گا اور آئندہ 21ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا ہو گی ٗ تو ہم برآمد بھی کر سکیں گے۔ جب اُنہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ہمیں خالی خزانہ ملا تھا ٗ تو وزیر اعلیٰ سندھ جناب قائم علی شاہ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے۔وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شب و روز محنت کر رہے ہیں اور مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اُن کی شبانہ روز کوششوں سے منصوبوں کا ایک جال بچھایا جا رہا ہے جو اندھیروں کو اُجالوں سے مزئین کر دیں گے اور پاکستان کو ایک بڑی معاشی اور سماجی طاقت بنا دیں گے۔
وہ خیمہ جس میں غیر ملکی مہمان اور حکومت کے اعلیٰ حکام آپس میں محوِ گفتگو تھے ٗ وہاں بڑا ہجوم تھا۔ ہمارے وہ ساتھی جو ابھی تک رپورٹنگ کرتے ہیں ٗ راستہ بنا کر اندر چلے گئے اور باقی دوستوں نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ کچھ دیر بعد وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید نمودار ہوئے اور وہ تمام ساتھیوں کو اپنے ہمراہ وزیراعظم کے پاس لے گئے۔ اُنہیں قریب سے دیکھا ٗ تو اُن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ٗ مگر اِسی چمک دمک میں تشویش کے آثار بھی تھے۔ وہ غالباً ایک سیاسی قائد کے طور پر اپنے آس پاس کوئی خطرہ اُمڈتا ہوا محسوس کر رہے تھے۔ کچھ دوستوں کو احساس ہوا کہ وہ نوے کی دہائی کے آخر م میں چلے گئے ہیں اور اُنہیں پرانے دوستوں سے مشاورت کی ضرورت ہو گی۔ اِس خیمے کے اندر جناب فواد حسن فواد بھی نظر آئے جو ٹی وی اینکرز میں گھل مل رہے تھے۔ عابد شیر علی کی جداگانہ شخصیت مرکزِ نگاہ بنی ہوئی تھی کہ اُن کی دھاڑ سے صوبے سہمے ہوئے ہیں۔ قرب و جوار میں میاں سیف الرحمن ایک جواں سال قطری شہزادے کی معیت میں دکھائی دیے۔ یہ وہی میاں سیف الرحمن ہیں جو ایک زمانے میں احتساب بیورو کے چیئرمین تھے اور اُنہوں نے جناب آصف علی زرداری کے خفیہ خزانے تلاش کرنے میں غیر معمولی محنت اور ندرت کا مظاہرہ کیا تھا اور روزنامہ جنگ کا ناطقہ بند کرنے میں ناقابلِ تصور حربے استعمال کیے تھے۔ اُنہوں نے گزشتہ پندرہ برسوں میں بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور قطر کے حکمران خاندان سے اپنے تعلقات پیدا کر لیے ہیں جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں کام آ رہے ہیں۔
ایک عہد بیت چکا ہے اور ایک عہد بخیہ گری کے مرحلے میں ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے پورٹ قاسم کی تاریخی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد اگلی صبح ناشتے کی میز پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جو اہم فیصلے کیے ہیں وہ اُن کی عملی فراست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اب اُنہیں عوام کے مسائل کو اوّلین ترجیح دینا ٗوزارتوں کی کارکردگی کو مثالی بنانا اور پارلیمان کو امن کی طاقت کے سامنے سرنگوں کرنا ہو گا۔
تازہ ترین