• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو اس وقت بجلی کے بد ترین بحران کا سامنا ہے۔ گرمی کی حدت میں اضافے کے باعث بجلی کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔شارٹ فال 3800 میگا واٹ سے تجاوز کر چکا ہے۔صورتحال یہ ہے کئی شہروں میں روزانہ دس سے بارہ گھنٹے جبکہ دیہاتوں میں چودہ سے سولہ گھنٹے بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے ۔ برسوں سے جاری اس بحران نے ہماری سماجی اور معاشی سر گرمیوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں صنعتوں کا دائرہ مسلسل سکڑ رہا ہے اور کاروباری سر گرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی حکومت بر سر اقتدار آئی تو تاثر تھا کہ معاشی صورتحال کو استحکام نصیب ہو گا۔ اگرچہ حالیہ دور میں معیشت کی ڈوبتی نبضیں کسی قدر بحال ہوئی ہیں ۔تاہم عمومی صورتحال جوں کی توں ہے ۔ بجلی کا بحران بھی ہنوز جاری ہے۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ مسلم لیگ ن کے منشور اور انتخابی مہم کا اہم حصہ تھا اور عوام الناس بجا طور پر اس بحران کے خاتمے کے لیے حکومت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ان امیدوں کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم یہ مسئلہ اسقدر سادہ نہیں ہے۔ یہ خوفناک بحران کئی دہائیوں کی کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے۔جس کا خاتمہ چند دنوں یا مہینوں میں ہر گز ممکن نہیں ۔
دنیا بھر میں ممالک sustainable developmentکی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ان ممالک میں قومی منصوبے باقاعدہ منصوبہ بندی اور مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تشکیل پاتے ہیں۔ ایک حکومت کسی قومی منصوبے کی بنیاد رکھتی ہے تو آنے والی حکومت یا حکومتیں اسے آگے بڑھاتی اور پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں ۔ مگر ہمارے ہاں سیاست میں ایسی مثبت روایات پنپ نہ سکیں۔ پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں شاذ ہی کوئی قابل ذکر منصوبہ دکھائی دے گا جس نے باہمی اتفاق رائے سے تشکیل سے تکمیل تک کے مراحل طے کیے ہوں۔ ایٹمی پروگرام وہ واحد منصوبہ ہے جسے ہر دور حکومت میں کسی نہ کسی طور آگے بڑھایا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں۔ مقام افسوس کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہمیں بجلی کاسنگین بحران در پیش ہے۔ اس کی وجہ کسی بھی طور وسائل اور اہلیت کی کمی نہیں بلکہ یہ مناسب منصوبہ بندی اور سیاسی اتفاق رائے کے فقدان کا شاخسانہ ہے۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی گردانا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پانی کا معاملہ بے حد اہم ہے۔ مگر ہم کئی دہائیوں سے آبی ذخائر اور ڈیم بنانے میں نا کام ہیں۔سیاسی عدم اتفاق رائے کے باعث کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ شروع نہیں ہو سکا ۔ ملکی مفاد کی خاطر اس معاملے پر اتفاق کرلیا جاتا تو آج صورتحال قطعا مختلف ہوتی۔ ہمسایہ ملک بھارت مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ڈیم پر ڈیم تعمیر کیے جا رہا ہے اور ہم اس قومی معاملے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھائے ہوئے ہیں۔ بجلی کے حالیہ بحران کے پیچھے بھی ہمارا یہی طرز عمل کا رفرما ہے۔
موجودہ حکومت اس بحران سے نمٹنے کے لیے بظاہر متحرک دکھائی دیتی ہے اور بجلی کے بہت سے پیداواری منصوبوں کی بنیاد رکھ چکی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ 5 سال بعد جب ان کاعرصہ اقتدار مکمل ہو گا تو بجلی کے بحران کا خاتمہ ہو چکا ہو گا۔ وفاقی حکومت کا یہ عزم اور تحرک قابل تحسین سہی ، مگر اسے عوام کو فوری ریلیف پہنچانے کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔توانائی کے پیداواری منصوبوں کی ضرورت مسلم، تاہم اس معاملے کے دیگر پہلو بھی ہیں۔ بجلی چوری کا خاتمہ ، لائن لاسزمیں کمی، واجبات کی بروقت وصولی ، بجلی کی بچت جیسے اقدامات کو یقینی بنا کر بجلی کی بندش کا دورانیہ کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ مبذول کرنا ہو گی۔
ہمارے ہاں عام طور پر سرکار کے واجبات کی ادائیگی کو بیگار تصور کیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آ ج تک ٹیکس کی ادائیگی کا رحجان تقویت نہیں پکڑ سکا۔ خاص طور پرکاروبای طبقہ کروڑوں روپے کما کر بھی چند ہزار یا لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے معاملہ میں بھی بہت سے ادارے اور افراد یہی چلن اپنائے ہوئے ہیں۔ جسکی وجہ سے وزارت بجلی اور متعلقہ اداروں کے لئے بجلی کی مسلسل فراہمی ممکن نہیں ہوتی۔ بیشترحکومتی اداروں کے ذمہ کئی برس کا بل واجب الادا ہے۔ اسی تناظر میں چند روز قبل وزارت بجلی نے وزیراعظم سیکرٹریٹ ، ایوان صدر اور سپریم کورٹ سمیت دیگر اہم اداروں کی بجلی کے کنکشن منقطع کر دئیے۔ غالبا تمام صوبے بھی عدم ادائیگی کے مرتکب ہیں۔ اس معاملہ میں صوبہ سندھ سر فہرست ہے ۔ یہی معاملہ بہت سے کاروباری اداروں اور عام شہریوں کا بھی ہے۔ وزارت بجلی کے کسی قابل جواز ایکشن پر یہ صوبے، ادارے اور افراد احتجاج کرتے تو دکھائی دیتے ہیں مگر بلز کی ادائیگی سے گریز کی راہ اپنائے رہتے ہیں۔ میڈیا پر بہت شدومد سے اس احتجاج کی کوریج کی جاتی ہے مگر بسا اوقات تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی زحمت نہیں کی جاتی کہ آیا متعلقہ وزارت یا محکمے کا ان کے خلاف ایکشن بل کی عدم ادائیگی کے جواز پر تو نہیں۔
بجلی چوری اور لائن لاسز بھی اس معاملے کے اہم پہلو ہیں۔ یہاں بھی منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ہمارے ہاں ٹرانسمیشن نظام برسوں پراناہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ متعلقہ وزارت اور ادارے مستقبل کی ضروریات کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے اور وقتاً فوقتاً ناقص لائنزکو تبدیل کر دیا جاتا۔ مگر صرف نظرکیاگیا۔اب یہ لائن لاسزاسقدربڑھ گئے ہیں کہ بیک وقت بہت سے وقت اور سرمائے کے متقاضی ہیں۔ مگر بہر حال اس معاملے پر توجہ دے کر صورتحال میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بجلی چوری کا معاملہ بھی بجلی کی بندش کی ایک اہم وجہ ہے۔پورے ملک میں یہ رجحان تقویت پکڑ چکا ہے۔ وزارت بجلی کے مطابق سندھ اورخیبر پختونخواہ کے بعض فیڈرزسے ادائیگی کی شرح فقط 10 فیصد ہے۔ یعنی90فی صد لوگ یا تو بل ادا ہی نہیں کرتے یا بجلی چوری میں ملوث ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں اگر حکومتی ادارے بجلی چوری کی روک تھام میں ناکام ہیں تو اسے متعلقہ ادارے کی نا اہلی ہی کہاجا سکتا ہے۔ وزیر بجلی کا کہنا ہے کہ وہ فیڈرز بند کر دئیے جائیں گے جہاں عدم ادائیگی یا بجلی چوری کی زیادہ شکایت سامنے آتی ہے۔ مگر یہ کوئی قابل جواز حل نہیں ۔اگر ایک علاقے میں 90فی صد افراد بجلی چوری میں ملوث ہیں تو سزا بھی انہی کوملنی چاہیے۔ وہ دس فی صد مہذب شہری جو ذمہ داری سے بر وقت بلز کی ادائیگی کر رہے ہیں، علاقے کے فیڈرز بند کر کے انہیں سزا دینا زیادتی کے مترادف ہے۔ وزارت بجلی واپڈا ملازمین کو مفت فراہم کیے جانے والے بجلی کے یونٹس کے خاتمے پر بھی غور کر رہی ہے۔ نقطہ نظر یہ ہے کہ مفت یونٹس ملنے پریہ ملازمین گیس کے ذریعے انجام دئیے جانے والے گھریلو امور کی انجام دہی بھی بجلی کے ذریعے کرتے ہیں، جس سے بجلی ضائع ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے منصوبوں کی تکمیل میں بہت وقت پڑا ہے ۔دانشمندی اسی میں ہے کہ حکومت مختلف اقدامات کے ذریعے موجودہ صورتحال میں بہتری لا کر اس بحران کی سنگینی میں کمی لائے۔
عوام الناس کو بھی سمجھنا ہو گا کہ اس سنگین بحران کا حل جلائو گھیرائو میں ہر گز نہیں۔ منفی طریقہ احتجاج معاملات میں سدھار کے بجائے مزید بگاڑ کا باعث ہو گا۔ اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی بے حد اہم ہے۔حکومت اور وزارت بجلی کی گرفت بجا مگر ڈیفالٹر صوبوں ، اداروں اور افرادکی گرفت کرنا اور انہیں بل کی ادائیگی کی طرف مائل کرنا بھی میڈیا کا فرض ہے۔مزید برآں عوام الناس کو بجلی کی بچت کی جانب راغب کرنا بھی میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے۔اگر ہر گھر روزانہ چند یونٹس کی بچت کر لے تو کروڑوں یونٹس بچائے جا سکتے ہیں ۔ بجلی کا بحران اس قدر خوفناک صورتحال اختیار کرچکا ہے کہ اسے ہم سب کو ملکر معاملہ فہمی، دانشمندی اور مناسب تدابیر کے ذریعے ہی حل کرنا ہو گا۔
تازہ ترین