• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بنیا اپنے بیٹے کے ساتھ جنگل سے گزر رہا تھا کہ ڈاکو پڑ گئے۔ بنیئے نے نقدی اور زیورات حوالے کرنے سے انکار کیا تو ڈاکو زور زبردستی پر اُتر آئے سب کچھ چھین کر بیٹے سے کہا کہ وہ باپ کی کمر پر سو جوتے رسید کرے اور اسے انکار کا مزہ چکھائے۔
بیٹا مرتا کیا نہ کرتا۔ روتے دھوتے جوتے برسانے لگا۔ باپ نے محسوس کیا کہ بیٹے نے گنتی میں غلطی کی اور سو سے زیادہ جوتے مارے۔ فراغت اور ڈاکوئوں کی رخصتی کے بعد باپ نے بیٹے سے پوچھا ’’برخوردار! تم نے مجھ سے کس بات کا بدلہ لیا، جوتے مارے ڈیڑھ سو، گنے ایک سو وجہ؟‘‘
بیٹا بولا ’’ابا میں نے جاہل ڈاکوئوں کو حساب کتاب کی مار دی، گنتی میں خوب ہیر پھیر کی یوں کم از کم چالیس پچاس جوتے صاف گول کر گیا، مجھے داد دو‘‘ باپ بولا ’’یہ بھی خوب کہی، میری کمر دوہری ہو گئی اور تم ڈاکوئوں کو حساب کتاب کی مار دیتے رہے۔‘‘
30؍ اکتوبر 2011کی طرح 11؍ مئی کو بھی حکومت کے ترجمان اپوزیشن کو حساب کتاب کی مار دیتے رہے، پچاس ہزار کو پانچ ہزار بتا کر خوش ہوئے کہ ہم نے حساب کتاب میں گڑ بڑ کر لی مگر جنہوں نے ڈی چوک، لیاقت باغ اور مال روڈ لاہور کے اجتماعات کو بچشم خود دیکھا یاٹی وی سکرین پر نظریں جمائے رکھیں وہ گنتی کے ہیر پھیر پر کیا کہیں گے؟ شائد یہی کہ ووٹروں، ووٹوں کے حوالے سے حکومتی ترجمانوں کے بیانات اور ترقی و خوشحالی کے ضمن میں دعوے اور وعدے بھی اسی طرح جھوٹ کا پلندہ اور غلط بیانی کے طورمار ہیں انتخابی دھاندلی پر عوامی جوتے ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں پڑے مگر رانا ثناء اللہ نے گنے صرف چند ہزار۔
11؍ مئی کے انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کا شور کسی ایک جماعت نے نہیں مچایا۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں جمعیت علماء اسلام نے یہی شکائت تسلسل سے کی۔ ذمہ داری سب نے نگران حکومتوں، الیکشن کمیشن اور آر اوز پر ڈالی۔ ایک سال تک عذر داریوں کو معرض التواء میں ڈال کر اور تھمب ویری فکیشن کے عمرانی مطالبہ کو رد کر کے حکومت نے خود دھاندلی کے تاثر کو پختہ کیا۔ جن حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی وہاں بیس بیس، تیس تیس ہزار ووٹوں کی عدم شناخت نے بھی اس الزام کو حقیقت میں بدلا۔ مگر حکومت کا رویہ وہی مرغ کی ایک ٹانگ والا رہا۔
فارسی میں کہتے ہیں ’’آں را کہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک‘‘ (جس کا دامن صاف ہے وہ محاسبے سے خوف کیوں کھائے) حکومت اگر چالیس(جس کا وعدہ نثار علی خاں نے کیا) نہ سہی چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کے ذریعے نتائج کو درست ثابت کر دیتی تو عمران خان کے دھاندلی غبارے سے ہوا نکل جاتی اور عوام کی نظروں میں اپوزیشن کی ساکھ مجروح ہوتی مگر وہ مسلسل گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہی اور اس الزام کو غلط ثابت کرنے میں ناکام۔
گزشتہ روز سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین ابراہیم نے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر غیر جانبدارانہ انتخابی عمل اور شفافیت کے دعوئوں کی لٹیا ہی ڈبو دی کہ انہوں نے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی مسلسل مداخلت سے تنگ آ کر استعفیٰ دے دیا۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی فخرو بھائی نے البتہ تردید کی مگر یوں لگتا ہے کہ ’’اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں‘‘ آخر سابق چیف جسٹس کو انتخابی عمل اور الیکشن کمیشن کے معاملات سے کیوں اور کیا دلچسپی تھی؟ کسی نہ کسی دن فخرو بھائی بتا ہی دیں گے۔
اگر وہ نہ بھی بتائیں تو سب جانتے ہیں کہ الیکشن کی دکان پر فخرو بھائی محض شو پیس تھے۔ مختلف سٹیک ہولڈرز کی آنکھ میں دھول کے لئے ان کی دیانتدار شخصیت اور اچھی ساکھ بُری طرح استعمال ہوئی۔ ایک دیانتدار مگر کمزور اور جذباتی فخرو بھائی اس کردار اور جرأت کا مظاہرہ نہ کر سکے جو 1977ء کی تاریخی انتخابی دھاندلی کے بعد جسٹس (ر) سجاد احمد جان نے جس کا مظاہرہ کیا بھٹو صاحب کی حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے بدترین دھاندلی پر مرحوم نے کہا ’’ہم نے تو دکان سجا دی تھی۔ اس پر ڈاکہ پڑ جائے تو ہمارا کیا قصور؟‘‘
نادرا سے طارق ملک کے جبری استعفیٰ اور پیمرا سے چوہدری رشید کی برطرفی کے علاوہ اہم قومی اداروں کے سربراہوں کے تقرر میں مسلسل تاجر اور من پسند افراد کی تلاش سے یہ تاثر روز بروز پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے لوگ ’’جیو‘‘ کے معاملے میں حکومت کی دو عملی کو بھی اسی سلسلے کی کڑی سمجھنے لگے ہیں اور خواجہ آصف اور پرویز رشید کی قلا بازیوں پر حیران و پریشان ہیں۔
ڈی چوک میں تحریک انصاف، راولپنڈی، لاہور اور دیگر مقامات پر عوامی تحریک اور لاہور ہی میں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں بات کم و بیش ایک ہی کہی گئی انداز مختلف تھا۔ پیغام واضح ہے کہ مقروض معیشت مزید افراط زر اور مہنگائی کی متحمل نہیں جو نوٹ چھاپ کر لوڈ شیڈنگ میں کمی کے ذریعے پیدا کی جا رہی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی بے جا تشہیر اور نمائشی اقدامات سے حکومت مقبول ہو رہی ہے نہ جمہوریت مضبوط۔ عوامی دبائو اور سیاسی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی یہ روش قطعی دانش مندانہ نہیں۔
عوام کا مطالبہ موجودہ فرسودہ، کرپٹ اور عوام دشمن سیاسی، انتخابی اور معاشی سسٹم میں سنجیدہ نوعیت کی مثبت اصلاحات ہیں اور انتخابی دھاندلی کے امکانات کا خاتمہ۔ یہ دلیل بودی ہے کہ مسلسل انتخابات سے خرابایں خود بخود دور ہوتی جائیں گی۔ بھارت میں اڑسٹھ سال سے انتخابی عمل جاری ہے مگر ان پڑھ، جرائم پیشہ اور لوٹ مار سے کروڑ پتی بننے والے افراد بار بار امیدوار بنتے اور کامیاب ہوتے ہیں اور اصلاح احوال کی کی صورت نظر نہیں آتی۔
اس وقت جو سیاسی و مذہبی جماعتیں انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیں، دھاندلی کے الزامات کا ازالہ اور کسی عوام دوست سسٹم کی ترویج چاہتی ہیں اور حکومت کو اصلاح احوال کا موقع فراہم کر رہی ہیں اُن کو مایوسی کی طرف دھکیل کر حکومت مخالف قوتوں کو سٹریٹ پاور کے استعمال پر مجبور کرے گی۔ تنگ آمد بجنگ آمد بالآخر مطالبہ مڈٹرم الیکشن کا ہو گا اور فیصلے سڑکوں پر، جس سے شائد ریاستی ادارے بھی زیادہ دیر تک لا تعلق نہ رہ سکیں۔
آج حکومت مخالف قوتیں متحد نہیں مگر ان کے اتحاد میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی نہیں۔ جنہیں اتحاد بنانے اور احتجاجی سیاست کامیاب کرانے کا تجربہ ہے انہیں حکومت دیوار سے لگا کر موجودہ بے فیض، بے ثمر، وسائل خور اور انتخاب چور سسٹم کے بارے میں عوامی جذبات کے ادراک پر مجبور کر رہی ہے۔ میڈیا کی تقسیم اور عوام کی اکتاہٹ خطرناک ہے تاہم حکومل کے لال بجھکڑ بنیئے کے بیٹے کی طرح گنتی میں ہیر پھیر اور اپوزیشن کے علاوہ عوام کو حساب کتاب کی مار دینے میں مشغول ہیں مگر اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔
تازہ ترین