• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘‘ (عالمی یوم آزادی صحافت) کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کے خیالات ہمیں متوجہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے’’ان دنوں بعض میڈیا گروپس بغیر سوچےسمجھے ایک میڈیا گروپ کو’’قومی سلامتی‘‘ اور’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر بند کرنے کی حمایت کررہے ہیں۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کل کسی اور میڈیا گروپ کے مطالبہ پر ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوسکتا ہے ا ور اس وقت ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔’’حب الوطنی‘‘ اور’’قومی سلامتی‘‘ کی حدود کا تعین کرنا کسی فرد واحد یا کسی ادارے کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔’’قومی سلامتی‘‘ کی حدود کا تعین کرنے کے لئے ملکی سطح پر مباحثے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ کسی خاص ٹی وی چینل نے کسی فرد یا ادارے کو نشانہ تنقید یا تنقیص بنایا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس صحافتی ادارے پر’’قومی سلامتی‘‘ اور’’حب الوطنی‘‘ کے حوالے سے الزامات عائد کئے جائیں۔ یاد رہے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک مخصوص گروپ نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دیا تھا جبکہ بعض میڈیا گروپس کی طرف سے آزادی صحافت کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا تھا اور میڈیا کی طرف سے کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد نہ کرنے کی مذمت بھی کی تھی۔ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی کہا ہے کہ صحافتی اداروں کو’’ کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ پر عمل کرنا چاہیے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی حقیقی یا فرضی الزامات کے تحت کسی میڈیا ہائوس پر پابندی لگانے کی حامی نہیں ہے۔ بعض اداروں پر غلط یا صحیح الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی حدود کراس کرتے ہوئے سیاسی لوگوں کو مبینہ طورپر اغواء کرکے غائب کردیا اور بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کو ہلاک کیا۔ مالا کنڈ جیل سے 35 افراد کی ’’گمشدگی‘‘ اور بعض صحافیوں پر’’حملے‘‘ اس کی مثالیں ہیں۔ سپریم کورٹ، سینٹ آف پاکستان اور غائب کئے جانے والے افراد کے حوالے سے قائم شدہ کمیشن نے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ حساس اداروں کے فرائض منصبی اور ان کے حدود کار کو’’ریگولیٹ‘‘ کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ اصغر خان کیس میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بعض ریاستی ادارے سیاسی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے اور بعض سیاسی پارٹیوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ان حالات میں حساس اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ میڈیا پر پابندیوں کا مطالبہ نہ کریں۔ غیر قانونی قرار دئیے جانے والے عسکریت پسند گروپ آناً فاناً نمودار ہوگئے ہیں اور انہوں نے رات کی تاریکی میں’’حب الوطنی‘‘ اور’’قومی سلامتی‘‘ کے نام پر حساس اداروں کی حمایت میں پوسٹر چسپاں کرنے شروع کردئیے ہیں، اس وقت صحافت کی آزادی اور’’قومی سلامتی‘‘ کی حدود کا تعین کرنے کے لئے ملکی سطح پر بحث و مباحثہ کی اشد ضرورت ہے۔
حامد میر پر حملے کے بعد جنگ گروپ کے ٹی وی چینل ’’جیو‘‘ کی مخالفت میں بعض ادارے اور افراد دیوانگی کی حد تک شدت پسندی کے اسیر ہوچکے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل اینکر پرسن حامدمیر پر حملے کے بعد’’جیو‘‘ کی اسکرین پر ایک ادارے کے سربراہ کا نام اور تصویر گھنٹوں دکھائی جاتی رہی ۔ خبر کا یہ انداز سنگین غلطی اور شدت پسندوں جیسے طرز عمل کا اظہار تھا ۔گروپ کے سینئر ارکان اور خود انتظامیہ نے ا س سنگین غلطی اور شدت پسندی کو بہت جلد محسوس ہی نہیں اس کا پوری طرح اعتراف کرنے میں کسی ذہنی بخل یا تحفظات سے کام نہیں لیا۔ نجم سیٹھی اور ڈاکٹر عامر لیاقت صاحبان نے ایک سے زائد بار اپنے پروگراموں میں قاتلانہ حملے کی اس خبر کے ’’انداز‘‘ پر کھل کر معذرت کی، معافی مانگی ،ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب نے تو’’جیو‘‘ مخالف چینلوں میں سے ایک کے پروگرام میں شرکت کے موقع پر بھی ادارے کے ا س سہو کو تسلیم کیا۔ پھر جنگ گروپ کے خلاف سرخ آندھیوں کے جھکڑوں میں کمی کیوں نہیں آرہی؟ مخالفین نے زبان و بیان میں کسی ذمہ داری کے بجائے اپنے دماغوں میں ہرزہ سرائیوں کے انبار کیوں جمع کئے ہوئے ہیں؟’’جیو‘‘ کی مخالفت میں اس کےجن معاصر ٹی وی چینلوں نے ’’حب الوطنی‘‘ اور’’قومی مفاد‘‘ کے کندھوں پر سوار ہو کر توازن کے پیمانے توڑنے کی منڈی لگائی ہوئی ہے، انہیں اس حربے سے کس منزل کا نشان ملے گا؟عاصمہ جہانگیر ،نجم سیٹھی ، ا متیاز عالم، حسن نثار اور نصرت جاوید جیسے لوگوں پر تو حب الوطنی خود نثار ہونے پر تیار ہے۔ تم نے اپنے حسد کی منڈیروں پر جس حسد کے چراغ جلائے ہوئے ہیں وہی تمہیں جلا کر راکھ کر دیں گے۔ کیا تم سب کو خلل دماغ کا مرض لاحق ہوگیا ہے؟ کیا تمہیں اس بات سے آگاہی نہیں ،تم چاہو نہ چاہو،
٭....عاصمہ جہانگیر ،پاکستانی عورت کی چادر ہے!
٭....نجم سیٹھی تو خود پاکستان ہے، پیارے یاسر پیرزادہ سلامت رہو، تم نے ایسا ہی لکھا تھا اور ہم ایسا ہی یقین رکھتے ہیں۔
٭....امتیاز عالم، یہ ہمارے نزدیک اس خطے کے انسانوں کی زندگیاں بچانے کے مقدس ترین سفر کا مسافر ہے، پاکستان تواس کا وہ دیوتا ہے جس نے اسے برصغیر کی اس دھرتی پہ’’امن کی آشا‘‘کا گیت سنانے پر مامور کردیا ہے۔
٭....اور حسن نثار، ارے تم لوگوں کو خبر نہیں، اس نے پچھلے دس پندرہ برسوں میں پاکستان کے مسلمانوں ہی کو نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فکری آسیب کی کائیوں سے نجات دلانے کی کوشش کی جس نے ان کی زندگیاں بے حرکت ،بے برکت اور متعفن کررکھی تھیں۔ خوف خدا کرو، اللہ کے بندو، اس سے ’’حب الوطنی‘‘ پوچھتے ہو جو اپنی زمین کے عشق میں ابھی تک’’لائل پور‘‘ کو ’’فیصل آباد‘‘ اور منٹگمری‘‘ کو ’’ساہیوال‘‘ کہنے کی مشق پر پورا نہیں اتر سکا۔ اس پہ پاکستان کی اترتی ہوئی سرشاریوں کی نغمہ سرائیوں میں تمہاری آئندہ نسلیں جواں ہوگی۔ ایسے فرزندان وطن کو وطن کے عنوان سے سوالیہ علامت بناتے ہو، آہ! تمہاری بدبختی کا کوئی کنارہ ہے بھی یا نہیں؟
٭....اور وہ نصرت جاوید، پاکستان کے گلی کوچوں کی یادوں نے جسے ’’ناسٹیلجیا ‘‘(صدائے بازگشت) کا مریض بنا رکھا ہے، جس کی ہر سانس میں تم پاکستان کی خوشبو سونگھ سکتے ہو، جسے محض دیکھ کر تمہیں پورا پاکستان خود پہ وارد ہوتا محسوس ہو، اس پہ حرف زنی نے تو تم لوگوں کو’’ بدصورتی کی وراثت‘‘ہی دی ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی جنگ گروپ کی مخاصمت میں یہی راستہ اپنایا ہے جسے شاید انہوں نے خود منتخب نہیں کیا، ایسی صورت میں المیہ مزید گہرا ہوجاتا اور قومی سیاست میں عمران خان کا مستقبل ان کی ناپختگی اور مبہم انانیت کا شکار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد ڈی چوک کے دھرنے میں گروپ پر ہی نہیں اس کے ذمہ داران پر بھی ذاتی حملے کئے، ناشائستہ بیانئے سے کام لیا۔ کامران خان نے اپنے 12مئی کے پروگرام میں گروپ خاص طور پر جیو ٹی وی کے کردار کے تناظر میں ان کے قریب ترین ماضی کے خیالات کی جھلکیاں دکھائیں ۔یہ جھلکیاں دیکھ کر اور آج ڈی چوک اسلام آباد میں ان کی جنگ گروپ اور اس کے ارباب اختیار کے خلاف ذاتی حملوں اور دشنام طرازی پر مبنی لب و لہجے نے پاکستانی عوام کو ذہنی خلجان اور عمران کی شخصیت پر عدم اعتماد سے دو چار کردیا ہے۔
عمران خان قومی سیاسی لیڈر نہیں بن سکے، وہ پہلے بھی محض ایک معروف کھلاڑی تھے، اب تک اس مقام سے آگے نہیں بڑھ سکے! قومی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں اور قومی سیاسی فکر کے علمبردار سینیٹر فرحت اللہ بابر جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ خاکسار کی ذاتی رائے میں جنگ گروپ کے بعض افراد نے گزرے پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت، بالخصوص صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بے پناہ صحافتی زیادتیاں کیں، کسی بھی کمیشن کے سامنے آزادی رائے کے نام پر ان افراد کی ان صحافیانہ زیادیتوں پر باقاعدہ بحث و مباحثہ کیا جاسکتا ہے، لیکن؟
لیکن یہ کہ ،جب اصول کی بات آئی، سینیٹر فرحت اللہ بابر آزادی صحافت کے اصول کو مد نظر رکھتےہیں کہ قوموں کی تعمیر اجتماعی قربانیوں کے سائے تلے ہوتی ہے، انفرادی سازشوں اور سیاپوں کے جنم کے ایندھن سے وہ راکھ ہوجاتی ہیں۔ خان صاحب! سیاست میں زندہ رہنے کے راستے پر جائیں، جس راہ کا انہوں نے انتخاب کیا ہے وہ سیاست کے اختتام کی طرف جاتا ہے۔
تازہ ترین