• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامد میر کو 6گولیاں لگیں تین نکال لی گئیں اور تین تاحال جسم کے اندر ہیں ۔ وہیل چیئر پر انکوائری کمیشن کو بیان کسی مشکل صورت حال سے باہر ہونے کی نوید ہے۔مصر کے معروف بلاگر باسم صابری کو صدر حسنی مبارک کے خلاف التحریر چوک کے دھرنوں میں شمولیت اور بے باک بلاگ لکھنے پر شہرت ملی۔ وہ مرسی سمیت ہرحکومت کے نقاد تھے ان کا کالم دنیا بھر میں عربی اور انگریزی میں پڑھا جاتا تھا۔28 اپریل بروز منگل اپنے اپارٹمنٹ سے گرکر موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق وہ شوگر کی وجہ سے کوما میں چلے گئے تھے اور بیہوشی کی حالت میں اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی سے گر گئے۔خاندان نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ عوام سے آنے والی آوازیں کہہ رہی ہیں فوجی انقلاب اپنے نقادوں کا پیچھا کر رہا ہے۔ پہلے اخوان المسلمین پھر النور پارٹی کے چیف تیمرود اور اب بلاگر باسم۔ پبلک کا ایک تشنہ سوال؟ کیا یہ سب اتفاقی موت مرے ۔باسم جنرل السیسی کے مدمقابل واحد امیدوار حامدین صبہائی کی الیکشن مہم کے مستعد ممبر تھے اور ان کے حق میں تواتر سے کالم لکھتے تھے۔حامدین کے علاوہ محمد البرادی ،امریکی وزیر خارجہ اور بان کی مون نے ان کی موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ بجلی کی چوری کا پاکستان میں بھی چرچا ہے۔ پارلیمنٹ سمیت کئی سرکاری ادارے، کابینہ کے ممبران اور ایلیٹ کلاس ملوث ہے۔ پاکستان کے وزراء ،وزرائے اعظم، صدور جہاں پائوں رکھ دیں وہاں کا بجلی کا بل سرکاری کھاتے میں چلا جاتا ہے۔مصری کابینہ کے ترجمان الکاوش کے مطابق مصر میں بجلی چوری کے 62815 کیس رجسٹرڈ ہیں جن میں ایلیٹ ملوث ہیں ۔ عوامی رائے کے مطابق یہ بہت معمولی تعداد ہے ۔قاہرہ سکندریہ شرم الشیخ سمیت مصر کے چھوٹے بڑے شہروں میں بازاری تجّار نے کھمبوں کے ساتھ محکمہ برقیات کے ملازمین کے ساتھ مل کر غیر قانونی تاریں لگا رکھی ہیں جنہیں پاکستان میں کنڈا کنکشن کہتے ہیں ۔ اس مماثلت کے تو آپ سب گواہ ہیں مزید تبصرے کی ضرورت نہیں۔ فیلڈ مارشل ابو الفتاح السیسی اور جنرل ضیاء میں کافی مماثلت ہے اس سے قبل بھی دعا کر چکا ہوں اللہ نہ کرے بھٹو اور مرسی کے انجام میں مماثلت ہو۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی پہلی سول حکومت کو جنرل ضیاء نے اقتدار سے علیحدہ کیا۔السیسی نے مصری تاریخ کی پہلی سول حکومت کاتختہ الٹا۔ اگرچہ جنرل ضیاء کی حکومت میں صحافیوں ،وکلاء اور دیگر مخالفین پر کوڑے برسائے گئے،احتجاج کرنے والوں کو پابند سلاسل کیا مگر السیسی لاشیں گرانے اور خون بہانے میں سبقت لے گئے۔ میں یہاں وضاحت کرتا چلوں جس شدت کی جنرل السیسی کو عوامی مخالفت کا سامنا ہے جنرل ضیاء کو نہ تھا ورنہ شاید وہ بھی خون کے دریا پار کر جاتے۔ میری ہمیشہ سے دلیل رہی ہے اور یہ زمینی حقیقت بھی ہے فوج جب بھی حکومت کا تختہ الٹتی ہے تو پھر اس کے پاس واپسی کے انتخاب کا راستہ نہیں ہوتا۔یہ بات ہر سول حکمران کو سمجھ لینی چاہئے جنرل ضیاء کو آرمی چیف بھٹو نے بنایا تھا اور السیسی کو صدر مُرسی نے۔ دونوں نے اپنے اپنے محسنوں کا تختہ الٹا۔دونوں پابند صوم وصلوٰۃ ہیں، دونوں کا تشخص مذہبی ہے۔ جنرل کے تختہ الٹنے سے قبل عوام صدر مرسی کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور حسنی مبارک کے بعد التحریر چوک کی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں تھیں ۔ میں تسلیم کرتا ہوں صدر مرسی کو تمام ملکی اداروں اور غیر ملکی طاقت کے ٹیلوں نے مہلت نہیں دی تھی ۔ عورتوں پر سر بازار جنسی حملے،ٹرینوں میں غیرمسلم خواتین کے بال کاٹنے اور ریپ،بہت کچھ اخوان کے نام پر ایجنسیاں اور دیگر لوگ کرتے تھے ۔پولیس، عدالتیں فوج تعاون کے بجائے سدّراہ تھیں۔ امریکہ نے صدرانور سادات دور سے ملنے والی امداد پائپ لائن میں روک رکھی تھی بعض عرب اور مسلم ممالک نے امداد کے بجائے پچھلے قرضوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر رکھا تھا ۔غیر تسلی بخش امن و امان کی وجہ سے سیاحوں کی آمد رک گئی تھی جو مصر کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔خود اخوان کے عسکری ونگ نچلا بیٹھنے کو تیار نہ تھے۔ یہ بھی رائے تھی مُرسی محض دکھاوے کے دانت تھے اصل حکمران الاخوان کے سربراہ الشاطر تھے جو سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے صدارت کے اہل نہ تھے مگر عوام کو ان تاویلات سے کوئی غرض نہیں ہوتی، الجھی گتھیوں کو سلجھانا حکمرانوں کا کام ہوتا ہے۔ بھٹو کے خلاف بھی عوام سڑکوں پر تھے اور السیسی کی طرح ضیاء کو بھی عوام نے خوش آمدید کہا تھا۔ان سب تاویلات اور مماثلتوں کی وجہ مصر اور پاکستان کا مشترک سیاسی منظر نامہ ،مذہب ،جغرافیائی حدود امریکی کردار اور حقیقی لیڈر کی عدم دستیابی ہے۔فاٹا والے نیٹو افواج کے بہانے مسلح اور منظم ہیں اور حملے پاکستان پر کرتے ہیں ۔صحرائے سینا والے اسرائیل کے نام پر مسلّح اور منظم ہیں اور حملے مصر پر کرتے ہیں۔ مصری عدالتیں پاکستان سے سبقت لے گئیں۔ پاکستان میں 4بار مارشل لاء لگا کبھی کسی عدالت نے ایسا فیصلہ نہیں دیا ،مشرقی پاکستان جیسا سانحہ بھی فوج کے دور میں ہوا مگر کسی عدالت نے جج سعید جنہیں مصری عوام قصاب کہتے ہیں جیسے فیصلے نہیں دیئے۔ ایک پیشی پر صرف 55ملزمان کی موجودگی میں بغیر کسی شہادت کے 629 ملزمان کو سزائے موت ،اسی دن اپنے ہی فیصلے پر نظرثانی ،37ملزمان جن میں اخوان کے سربراہ بھی شامل ہیں کی سزائے موت کی تصدیق اور 692ملزمان کی سزائے موت کی 15 سے 20 سال سزائے قید میں تبدیلی۔ جج سعید نے ہی مزید 622ملزمان کو سزائے موت سنائی۔ سابق صدر مرسی جن مقدمات میں زیر حراست ہیں ان سب کی سزا بھی سزائے موت ہے ۔مصری عدالتوں کی سزائوں کا ساری دنیامیں مذاق اڑایا گیا ۔گو پاکستان میں عدالتی نظام مثالی نہیں مگر مصر سے اس کی کوئی مماثلت نہیں ۔صدر ایوب خان کے علاوہ ہمارے کسی جنرل کا وردی کے بغیر الیکشن لڑنے کا کوئی ٹریک ریکارڈ نہیں۔ صدر ایوب کی دھاندلی پر آج بھی تبصرے رواں ہیں۔ جنرل السیسی بغیر وردی الیکشن لڑرہے ہیں مگر ہارنے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑا۔ تیسرا صدارتی امیدوار منصور ایلیٹ کلب کا صدر تھا اسے ایلیٹ کلب پر دبائو ڈال کر الگ کروا دیا ، اب وہ السیسی کا حمایتی ہے۔ حامدین صبہائی تنہا مدمقابل ہے۔ میڈیا سارا دن ان کے ہارنے کی پیش گوئیاں کرتا رہتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق روزانہ السیسی کے حق میں2,23000ای میل ملتی ہیں جبکہ حامدین کو2,0000۔حامدین کونائب صدر کے عہدہ کی پیشکش کی جا چکی ہے تاکہ الیکشن عمل سے جان چھڑائی جا سکے۔ 26/27مئی صدر کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی تاریخ ہے اور 30مئی سے قبل کسی قسم کی الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں مگر حامدین نے 2مئی کو پریس کانفرنس میں اپنے منشور اور لائحہ عمل کا اعلان کر دیا ہے جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس لے لیا ہے۔ممکن ہے اس خلاف ورزی پر حامدین کے کاغذات نامزدگی ہی مسترد ہو جائیں اور جنرل السیسی بلامقابلہ صدر قرار دے دیئے جائیں۔ پاکستان کی نسبت مصری معاشرہ بہت کھلا ہے ،تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم دی جاتی ہے ۔جنسیات پر مبنی ہر طرح کی فلمیں بنانے کی اجازت ہے۔ کلب، رقص گاہیں، شراب خانے عام ہیں ،عرف عام ہے، نیل کنارے قاہرہ کی راتیں جاگتی ہیں ۔لوگوں کو حیرت ہوئی جب مصری وزیر اعظم ابراہیم مہلب نے،حلاوت ِروح، نامی فلم پر جنسیات پر مبنی ہونے کی وجہ سے پابندی لگادی۔ آرٹ فلم اور کلچر پر یہ مصری حکومت کی پہلی مداخلت ہے ۔ یہ اشارہ بھی ہو سکتا ہے جنرل السیسی صدر منتخب ہو کر جنرل ضیاء کی طرح کچھ اسلامی اقدامات کریں اور اپنے پیچھے کچھ ایسے سیاسی وارث چھوڑ جائیں جن سے قوم سر ٹکراتی رہے اور ہاتھ ملتی رہے ۔
تازہ ترین