• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہاڑیوں کا زیر وبم اور سرسبز لچک دار شاخوں والی جھاڑیاں اور نرم پتوں والے بوٹے ، ان وادیاں کو جنت کا ایک ٹکڑا بنادیتے ہیں، بالکل جیسے یونانی پہاڑ جو دیوتائوں کا طرب انگیز مسکن تھے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس خطے کو مقدس مان کر دست برد سے بچایا جاتا۔ اس کی مقدس خوبصورتی کو پامال کرنے کی کسی بھی کوشش کو انتہائی ناپاک حرکت تصور کیا جاتا۔ لیکن یہاں حسن کا قدردان کون ہے؟نہ یہاں یونانی گورنر پیریسلس (Pericles) ہے اور نہ ہی ایتھنا دیوی کے معبد، پارتھی نن کا معمار۔ شو مئی قسمت، ہمارے حکمران اور فیصلہ ساز ایسے افراد جو مطالعہ کتب سے حتمی اجتناب کے اصول پر اختیار کردہ سفر ِ زیست طے کررہے ہیں اور جو ثقافت اور ذوق ِ لطیف سے نابلد، اور پھر دعویٰ کہ ہم مغلوں کے جانشیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغلوں کا جمالیاتی ذوق ہمیں چھو کر بھی نہیں گزرا۔
ذوق ِ لطیف اورخوبصورتی سے کنارہ کشی کا ہی شاخسانہ ہے کہ سالٹ رینج اور اس کے ذیلی علاقے ، جیسا کہ کہون جہاں چوا سیدن شاہ واقع ہے ، اور ونہار،جو کہ کلر کہار سے پرے سطح مرتفع ہے، پر تباہ کن قوتوں کی یلغار جاری ہے ۔ یہ خطرہ صرف امکانی نہیں، حقیقی ہے ۔ اس کے تباہ کن اثرات پہلے بھی دیکھے ہیں، اب مزید تباہی کا سامان بھی کیا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار سوچ جب اس سالٹ رینج کی طرف دیکھتی ہے تو اسے اس کی خوبصورتی اور آفاقی اہمیت کی بجائے صرف چونے کا پتھر اور چکنی مٹی دکھائی دیتی ہے ۔ پھر اسے زیر ِ زمین پانی بھی چاہئے تا کہ اس قدرتی حسن کو سیمنٹ میں تبدیل کرکے فروخت کرکے اپنے دام کھر ے کرے ۔ ماضی میں عقیدت مندوں نے کٹاس میں لارڈ شیوا کامندر تعمیر کیا تھا، ہمارے سرمایہ دار یہاں سیمنٹ سازی کی یادگاریں تعمیر کریں گے ۔یہی ان کا دھرم ، یہی ان کی دولت ہے ۔
جنرل مشرف اور شوکت عزیز ، اور سابق وزیر ِاعلیٰ پنجاب ، چوہدری پرویز الہٰی کا تعاون بھی کچھ کم نہ تھا،نے کٹاس اور خیرپور کے درمیان تنگ جگہ پر سیمنٹ کے تین میگا پلانٹس لگانے کی منظوری دی۔ یہ پلانٹس یومیہ اٹھارہ سے پچیس ہزار ٹن سیمنٹ پیدا کرتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اس عقربی پیداوار کے لئے کتنی چکنی مٹی، چونے کا پتھر اور پانی درکارہوتا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں وہ پہاڑیاں تباہی و بربادی کا شکار ہوگئی ہیں جو ابتدائے آفرینش سے حسن ِ بے پروا کا نادر نمونہ تھیں۔ جب ان سے چونے کا پتھر نکالا جاچکا ہوتا ہے یہ ویرانی کا ایسا منظر پیش کرتی ہیں جیسے ایٹمی حملے کے بعد کوئی شہر۔وہ مقام مکمل طور پر بنجر ہوجاتا ہے، کسی انسان، جانور یا پرندے کے کام کا نہیں رہتا۔ تاہم ، جیسا کہ کہون وادی کی بربادی میںجنرل مشرف اور ان کے مفاد پرست وزیر ِا عظم کے دور میں کچھ کسر باقی تھی، تو پنجاب کے عظیم خادم ِ اعلیٰ نے بوچھال کلاں کے نزدیک ونہار میں وسیع خطہ ایک اور سیمنٹ کے پلانٹ کے لئے مختص کردیا ہے۔ یہ پلانٹ کراچی کی کمپنی لگائے گی جو پہلے ہی سیمنٹ سازی میں ایک بڑا نام رکھتی ہے ۔
جہاں تک سیمنٹ کا تعلق ہے تو اس کی تیاری میں چاہے فطرت کی کتنی ہی تباہی کیوں نہ ہو، اس کی ضرورت اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ آپ اس کے بغیر ڈیم، فلائی اوور ، پل اور دیگرعمارتیں تعمیر نہیں کرسکتے ۔ تاہم جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے، وہ ایک مختلف کہانی ہے ۔ ہم سیمنٹ سازی میں خودکفیل ہیں۔ اس وقت ہم اتنا سیمنٹ تیارکررہے ہیں جو پاک چین معاشی راہداری، یا اس جیسے کئی اور منصوبوںکے لئے بھی کافی ہوگا۔ بات یہ ہے کہ ہم مزید سیمنٹ صرف برآمد کرنے کےلئے تیار کررہے ہیں۔ گویا ہم اپنے لینڈ اسکیپ کو مکمل طور پر تباہ کرکے انڈیا اور افغانستان کے ہاتھ فروخت کررہے ہیں۔اور چونکہ اس تجارت میںبھاری نفع موجودہے ، اور پھر موٹر وے نے سالٹ رینج تک رسائی آسان بنا دی ہے،چنانچہ ان چونے کے پتھر کی پہاڑیوں کو دیکھ کر کراچی، لاہور اور حتیٰ کہ لندن میں بیٹھے ہوئے سیٹھوں کے منہ میں پانی آ جاتا ہے ۔ یہ سیٹھ اہم روابط رکھتے ہیں، ان کی لابنگ بھی بہت موثر ہے اور دوسری طرف ہمارے جمالیاتی ذوق سے عاری حکمران انہیں مزید سیمنٹ پلانٹس لگانے کی منظوری دے دیتے ہیں، چاہے پاکستان کو ان پلانٹس ضرورت نہ بھی ہو۔
کراچی کی جس کمپنی کی طرف میں نے اشارہ کیا ، وہ سیمنٹ ساز ی میں نمبر ون ہے ۔ اس کے مالکان کے لئے سالٹ رینج کی خوبصورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ اگر یہاں کے مقامی کسان زمین اپنی مرضی سے فروخت کرنے کے لئے تیار ہوجاتے تو بھی ایک بات تھی لیکن بوچھال کلاں کے رہائشی اپنی زمین کا ایک انچ بھی فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ زمین نسل در نسل ان کے پاس ہے ۔ دوسری طرف خادم ِ اعلیٰ کی حکومت کا کچھ اور ہی خیال ہے ۔ اس کی طرف سے مقامی آبادی پر دبائو ڈالا جارہا ہے۔یہ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے تحت ان سے زبردستی زمین لے سکتی ہے ۔ ظاہر ہےکہ ریاست کی طاقت کے سامنے کسان کیا کرسکتے ہیں؟ کراچی کے سیٹھوں کو اس زمین کے ساتھ کیا جذباتی وابستگی ہوسکتی ہے ، وہ تو ترقی کے نام پر اپنی جیبیں بھریں گے ، اور پھر دہرائے دیتا ہوں، یہ خوبصورت پہاڑیاں سیاہ سیمنٹ میں تبدیل ہوکر ہمسایہ ممالک کو فائدہ پہنچائیں گی۔ کیا اس سےبھی زیادہ کوئی ستم ظریفی ہوسکتی ہے ؟
اس دوران ہمیں پیہم یقین دلایا جائے گا کہ اس منصوبے کے ماحولیات پر اثرات کا جائزہ لے لیا گیا ہے، اوررپورٹ کہتی ہے کہ اس کاماحول پر کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔ ملک میں بہت سے مقدس فراڈ ہوتے ہیں، بہت سی باتوں کا یقین دلایا جاتا ہے، ہاتھ کی صفائی دکھائی جاتی ہے، آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے، لیکن تحفظ ِ ماحولیات ایجنسی کے ایسے جائزوں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دکھاوا ہو۔ خادم ِ اعلیٰ لاہور کے قلب میںا سٹیم رولر چلا کر سب کچھ برابر کرسکتے ہیں لیکن ماحولیاتی ایجنسی والے کہیں گے کہ کچھ نہیں بگڑا ہے ۔ نہر کے کنارے پر اگے ہوئے تناور درختوں میں سے نصف کے قریب کو کاٹ کر گرایا جاچکا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ کٹنے والے ایک ایک درخت کے بدلے سو نئے درخت لگائیں گے ، اور ستم یہ ہے کہ عدالت نے بھی ان کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا ہے ۔ مزید یہ کہ چاہے کوئی کتنا ہی چکمے باز منصوبہ کیوں نہ ہو، اس کے لئے مقامی حمایتی تلاش کرنا مشکل نہیں۔ برطانیہ نے انڈیا کو فتح کرنے کے لئے مقامی حمایتی ہی تلاش کئے تھے ، یہ تو صرف ایک سیمنٹ پلانٹ ہے ۔ پرویز مشرف کے وقت میں ایسے مقامی حمایتی اُس وقت کے ضلعی ناظم تھے ۔ اس وقت کراچی کی اُس کمپنی نے ملک محمد اسلم ، جو کہ صوبائی وزیر تنویر اسلم کے والد ہیں، کی صورت میں ایسا حامی تلاش کیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اس سیمنٹ پلانٹ کے خلاف کھڑے ہوتے لیکن عارضی مفاد کی خاطر انسان کچھ بھی کرگزرتا ہے ۔ وہ بوچھال کلاں کے لوگوں کے خلاف، سیٹھوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس مسلے پر دوعوامی سماعتوں کا اہتمام کیا گیا، اور ملک اسلم نے باہر سے لا کر ایسے افراد کو ان میں بٹھا دیا جن کا تعلق بوچھال گائوں سے نہیں تھا۔ اس سے وہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ گائوں کے لوگوں کو اس منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بوچھال گائوں اس منصوبے سے براہ ِراست متاثر ہوتا ہے ۔ اس کی زمین کو زبردستی حاصل کیا جائے گا، اس کے باشندوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینا پڑے گا، لیکن کوئی ان کی بات نہیں سن رہا ۔ وزیر موصوف اور اُن کے والد مختلف کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیمنٹ پلانٹس کے حق میں دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے ۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے لئے جدید ترین مشینری استعمال کی جائے گی جس سے آلودگی نہیں پھیلے گی۔ دلمیا ل ( جو کہ سابق گورنر پنجاب، لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر کاآبائی گائوں ہے)، تترال، وحولہ اور خیر پور( جو کٹاس پلانٹ کے قریب ہیں)کے باشندوں سے پوچھیں کہ کیا آلودگی ہوتی ہے یا نہیں؟دوسری دلیل کہ یہ پلانٹ روزگار کے مواقع مہیا کریں گے ، سراسر غلط بیانی ہے ۔ ان پلانٹس پر کام کرنے کے لئے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس چند ایک چوکیداریا مالی ہی مقامی آبادی سے بھرتی کئے جائیں گے ۔ سیٹھوں کی جیب میں دولت منتقل اور مقامی آبادی سینے کے امراض میں مبتلا ہوجائے گی۔ اور یہ جنت نظیر وادی ہمیشہ کے لئے برباد ہوجائے گی۔
تازہ ترین