• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا ایک دوست جو تجربے اور عُمر کے حساب سے ہم سے بڑا تھا ،وہ ہمیشہ ہمارے گرد نصیحت آمیز گفتگو کا دائرہ بنائے رکھتا ،اس کا فلسفہ زندگی اور عجیب و غریب منطق پر مبنی ہدایات سننے لائق ہوتی تھیں جس کی وجہ سے ہم سب اسے ’’ اُستاد جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ایک دن اُستاد جی نے نیا فلسفہ جھاڑا ،بولے جُھوٹ مت بولو بلکہ اس کے بدلے بات سُنا لیا کرو ،ہم نے کہا کہ اُستاد جی بات سُنانا بھی تو ایک طرح سے جُھوٹ بولناہی ہوتا ہے ،اُستاد جی نے جواب میں مثال دیتے ہوئے کہا کہ جُھوٹ اور بات سُنانے میں بڑا فرق ہے ،مثال کے طور پر تم ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہو، وہاںتمہارا کوئی دوست تمہیں ملنے آئے اور تم اس پر رعب جھاڑنے کے لئے کہو کہ یہ مکان میرا اپنا ہے تو یہ جُھوٹ ہوا ،وہ دوست آپ کی گلی سے باہر نکلے گا تو کوئی بھی اسے بتا سکتا ہے کہ تم اس مکان میں کرائے دار ہو اور تمہارا جُھوٹ پکڑا جائے گا ، دراصل آپ کو اپنے دوست پررعب جھاڑنا مقصود ہے تو اسی ’’ جُھوٹ‘‘ کو بات سنانے میں تبدیل کرکے اس طرح کہیں ، ویسے تو میں اس مکان میں کرائے دارہوں لیکن مالک مکان نے مجھے اپنا بیٹا بنایا ہوا ہے دس سال ہوگئے مالک مکان نے مجھ سے آ ٓج تک کرایہ نہیں لیا ، بلکہ چند دن پہلے مجھے اس نے موٹر سائیکل بھی تحفے میں دی ہے اس طرح آپ کا دوست آپ کے رعب میں آجائے گا اور اگر اسے کوئی دوسرا شخص یہ کہے کہ تم کرائے دار ہو تو وہ کہے گا میںیہ بات پہلے سے ہی جانتا ہوں ۔ہمارے اُستاد جی کی بات میں وزن ہوتا تھا یا نہیں لیکن فلسفہ سُن کر سب لاجواب ضرور ہو جاتے ۔ پیارے استاد جی کی باتوں کا ذکر چھڑا تو یاد آیا کہ چند دن پہلے آزادکشمیر کی قانون سازاسمبلی کی 41نشستوںکے لئے انتخابات ہوئے ،جن میں 26سیاسی جماعتوںنے حصہ لیا،سب جماعتوں کی اپیل پر پاکستان آرمی کی زیر نگرانی ہونے والے ان انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 32نشستیں حاصل کرکے کلین سوئپ کر دیا ،کشمیر کے دس اضلاع میں ہونے والے ان انتخابات کے لئے 5427پولنگ مراکز اور 8046پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے ۔کل 26,74,584 بالغ افراد نے رائے دہی کے تحت اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ۔پاکستان کے صوبوں میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی 12نشستوں کے لئے ووٹرز کی کل تعداد 4,38,884تھی۔اس مقابلے میں 423 امیدوار آمنے سامنے تھے ۔324کشمیر کی 29نشستوں کے لئے جبکہ 99افراد پاکستان میں موجود کشمیری پناہ گزینوں کی 12نشستوں کے لئے مد مقابل تھے ۔مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، مسلم کانفرنس اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کچھ آزاد امیدواروں نے دن رات انتخابات جیتنے کے لئے سر توڑ کوششیں کیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے امیدوار کے ہارنے پر دھاندلی کا واویلا کرتی ہے ، یہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے 2013کے قومی الیکشن کی کئی نشستوں پر تحریک انصاف آج بھی کہہ رہی ہے کہ وہاں دھاندلی ہوئی تھی اس حوالے سے الیکشن کمیشن اور پاکستانی عدالتوں میں ان حلقوں کے کیس بھی زیر سماعت ہیں ۔آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے موجودہ الیکشن کے نتائج کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے بیرسٹر سلطان نے مسترد کر دیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے میاں نواز شریف کو اس جیت پر باقاعدہ مبارک باد دی ہے ۔اگر تحریک انصاف کسی بھی دوسری جماعت کے امیدوار کی جیت پر دھاندلی کا شور کرتی ہے تو آزادکشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جیت پر میاں نواز شریف کو مبارک باد کیوں دی گئی ؟یہ وہ سوال ہے جو آج کل کشمیری اور پاکستانی عوام کے ذہنوں پر سوار ہے اور سب اس کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کوئی نیا کھیل کھیلنے جا رہی ہے ،کچھ تعداد اس کے بر عکس سوچ رہی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اب سمجھداری کا مظاہرہ کرنا شروع ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے اپنی ہار سے سبق سیکھنے کا عہد کیا ہے اور وہ لمبی چھلانگ لگانے کے لئے تھوڑا پیچھے ہٹ گئے ہیں ، ایک حلقہ یاراں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ عمران خان نے میاں نواز شریف کو مبارک باد اس لئے دی ہے کہ وہ ثابت کر سکیں کہ جہاں الیکشن ٹھیک تھا وہاں کے نتائج ہم نے مان لئے، ہم انصاف پسند اور منصف ہیں، لیکن میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کی کافی تعداد متنازع ہے اس لئے تحریک انصاف 7اگست کو سڑکوں پر ہوگی ۔عمران خان پاکستانی عوام اور تحریک انصاف کے کارکنان کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ سڑکوں پر ہم پاکستان کے سسٹم کو ٹھیک کرنے ، کرپشن کو ختم اور غریب عوام کو سہولتیں دینے نکلیں گے ۔بہر حال یہ پالیسی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک طرف آزادکشمیر میں میاں محمد نواز شریف کو مبارک باد دی جا رہی ہے اور دوسری طرف میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔اگر پاکستان میں2013کا الیکشن غیر منصفانہ تھا تو کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا الیکشن منصفانہ کیسے ہوگیا ؟اگر 7اگست کو سڑکوں پر آنا ہے تو میاں نواز شریف کوآزاد کشمیر کے الیکشن کی کامیابی کی مبارک باد دینے کی کیا ضرورت پیش آ گئی ؟ہماری سمجھ میں تو یہ آ رہا ہے کہ ہمارے اُستاد جی کے فرمان اور فلسفہ کے مطابق’’ جُھوٹ ‘‘ نہیں بولا جا رہا بلکہ نئی منطق کے مطابق ’’بات سُنائی ‘‘ جا رہی ہے ۔کیونکہ اس طرح عوام الناس پر انصاف پسند ہونے کا رعب بھی پڑے گا اور پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ کشمیری کمیونٹی کو بھی سڑکوں پر لانے میں آسانی پیدا ہو گی۔ دیکھتے ہیں کہ اب 7اگست کوسڑکوں پر کیا ہوتا ہے ،وزیر اعظم پاکستان اور ان کی کابینہ تحریک انصاف کی سڑکوں اور دھرنوں والی آندھی کا مقابلہ کرتے ہیں یا کہ ہمارے ’’ اُستاد جی ‘‘ والا کلیہ استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو منطق بھری کوئی نئی ’’بات سُناتے ‘‘ ہیں ۔
تازہ ترین