• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2اپریل کی سہ پہر لاہور ریلوے اسٹیشن سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان اپنے شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کی 35ویں برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے گڑھی خدا بخش کے لئے پر جوش نعروں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا کردار نہیں جس کے چاہنے والوں کے لئے ایک مخصوص نام رکھا گیا ہو جیسے بھٹو کے شیدائیوں کو جیالا کہا جاتا ہے۔
بھٹو صاحب اپنے عوام کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے تختہ دار تک چلے گئے وہی عوام آج 35سال گزرنے کے باوجود انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ملک کے کونے کونے سے دور دراز کے ایک قصبے کی طرف روانہ ہو رہے تھے یعنی وہ اپنے محبوب سے تجدید عہد کے لئے ’’کوئے یار چلے‘‘ یعنی بھٹو شہید کے ساتھ اُن کے جیالوں کا عشق آج بھی تازہ ہے۔
میری نسل کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو سے براہِ راست متعارف ہیں نہ ہم نے بھٹو صاحب کی جدوجہد دیکھی لہٰذا ہم ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کے جھرونکوں سے دیکھتے ہیں اور شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، سیاسی کارکنوں کے ذریعے انہیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت شہید بھٹو وہ کرشماتی کردار ہے جسے سمجھنا بہت آسان بھی ہے اور شاید ناممکن بھی۔ یہ وہ شاندار کردار ہے جس نے ایسی سیاسی وراثت کی بنیاد رکھی کہ آج بھی پاکستان کی سیاست کا محور یہ کردار ہے۔ بھٹو کے فلسفے کو ماننے والے تو اُس کی پیروی پر فخر کرتے ہیں مگر بھٹو کے مخالف بھی کسی نہ کسی طرح بھٹو ہی کی تقلید کرتے سیاست میں کسی طور زندہ ہیں۔ یہ ہے وہ مقام جو شاید کوئی اور پاکستان کی تاریخ میں حاصل نہ کر سکا۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد عوام کو کوئی ایسا رہنما میسر نہ آیا جو اُن کی رہنمائی کرتا ۔روایتی سیاست دانوں کی حکومتیں اور آمریت کے طویل ادوار نے پاکستان کے عوام کو شدید مایوس کیا اسی دوران ایک آواز اُٹھی اور پاکستان کے محروم طبقات اسے اپنی آواز سمجھنے لگے۔ ہر دہقان، محنت کش، طالب علم، وکیل، دانشور، نیز پسا اور کچلا ہوا طبقہ اس آواز کو اپنے دل کی آواز سمجھنے لگا اور یہ آواز تھی شہید بھٹو کہتے تھے کہ ’’بھٹو ایک نہیں دو ہیں ایک اس بت میں، اس خون میں، اس جسم میں دوسرا تم میں سے ہر ایک بھٹو ہے‘‘ اس لئے عوام کہنے لگے ’’میں بھٹو ہوں‘‘۔
بھٹو صاحب عوام الناس کو نیا ولولہ عطا کرتے ہوئے کہتے کہ خدا کا ایسا کوئی قانون نہیں کہ صرف عوام ہی مفلس ہوں ۔غربت، بھوک اور بیماری ہمارا مقدر نہیں دوسروں کے سامنے ذلیل مت بنو۔ تم انسان ہو تمہارے بھی برابر کے حقوق ہیں جمہوریت کی مانگ کرو جہاں غریب ترین اور امیر ترین اشخاص کیلئے ووٹ میں برابر کا حق ہے۔ صرف جمہوریت ہی غریب عوام کے حقوق کا تحفظ کر سکتی ہے‘‘۔ اس طرح بھٹو صاحب نے عوام کو سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا آپ نے اشرافیہ ،جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے مقابلے میں غریب عوام کسانوں اور محنت کشوں کو زبان دی سیاسی شعور دیا اور اُن کو اُن کے حق کے لئے جدوجہد کرنے کے اسلوب سکھائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام الناس کی جدوجہد کیلئے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد عوام کو اُس کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق دلوانا تھا۔ آزادی جمہوریت اور مساوات اس کے بنیادی اُصول ٹھہرے۔ بابا بلھے شاہ کے فلسفے کو ’’گلُی ،جُلی تے کُلی‘‘ کے تحت روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا ۔یہی بنیادی ضروریات تھیں جو پاکستان کے مفلوک الحال عوام کے پاس نہیں تھیں۔ روٹی ،کپڑا اور مکان تینوں چیزیں پیپلز پارٹی کا ہدف اور غریب عوام کا نعرہ بن گئیں کہ ’’مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان ‘‘۔
اس کے بعد بھٹو عوام کی محبت میں ’’کوئے یار‘‘ کو نکل پڑے اور گلی گلی ، کوچہ کوچہ عوام تک پہنچے اور انہیں بیدار کرنے کیلئے جدوجہد کرنے لگے۔ اس کے بعد بھٹو صرف ایک وجود نہ رہا بلکہ ایک سوچ، فلسفہ، نظریہ اور تحریک بن گیا اور 1970ء کے انتخابات میں وہ پسے اور کچلے ہوئے لوگ جنہیں لوہار، ترکھان، موچی وغیرہ میں تقسیم کیا گیا اور سیاسی فیصلوں سے دور رکھا گیا وہ نہ صرف ووٹ کا حق لینے میں کامیاب ہوئے بلکہ اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچے اور پاکستان میں انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے خوفزدہ ہو کر طالع آزمائوں نے پاکستان کو دولخت کر دیا اور سیاسی قوتوں کو موقع نہ دیا کہ وہ مل کر پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کر سکیں۔ ٹوٹے ہوئے پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالا اور تنکا تنکا جوڑ کر ترقی کا سفر شروع کیا۔ بھارت سے 93ہزار قیدی اور 5ہزار مربع میل کا علاقہ واپس لیا۔ وہ سرزمین جو بے آئین تھی اُسے متفقہ آئین دیا جس میں لوگوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا گیا۔ آج بھی یہ آئین ملک کے استحکام اور سا لمیت کی بنیاد ہے پاکستان کی کمزور دفاعی حالت کے پیش نظر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تاکہ کم از کم دفاعی پوزیشن بہتر ہو جس کی وجہ سے یہ خطہ آج تک جنگ سے محفوظ ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی اور تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اس کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان اتحاد اور دوستی کے رشتے کی بنیاد رکھی۔
چند جاگیرداروں کی نسلوں سے قبضہ کی گئی زمین کو غریب مزارعوں میں تقسیم کیا۔ ملک کی بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا اور محنت کشوں کو اُن کے حقوق دیئے۔ کم از کم مزدوری کا تعین کیا اور اُنہیں اُن کی ملازمتوں کا تحفظ دیا۔ بڑے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر غریب کے لئے مفت تعلیم کا آغاز کیا جس سے لاکھوں افراد کو جہالت سے نکال کر زیور علم سے آراستہ کرنے کا انتظام ہوا۔ عوام کے لئے شناختی کارڈ کا اجراء ہوا جس سے اُنہیں ریاست کا شہری ہونے کی شناخت ملی۔ پاسپورٹ جو پہلے چند مخصوص اور مراعات یافتہ طبقوں کا حق تھا عام آدمی کو اس کا حقدار بنایا جس کی بدولت غریب لوگ دوسرے ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے اور جہاں اُنہیں روزگار میسر آیا وہیں ملک کو زرمبادلہ فراہم ہوا۔ جو آج بھی ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی کی بدولت گائوں کے کمی (محنت کش) کا بیٹا محنت کی بنیاد پر معاشی طور پر مستحکم ہوا اور اُس کا گھر جاگیردار کی حویلی سے اُونچا نظر آنے لگا۔ یہی باتیں ان ظالم قوتوں کو تکلیف دے رہیں تھی۔ کیا بھٹو کے یہ جرائم اُسے سزا دینے کیلئے کافی نہ تھے؟
3اور4اپریل کی درمیانی شب میں گڑھی خدا بخش پہنچا۔ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا لیکن دور افتادہ گائوں سے ملحقہ قبرستان کسی میلے کا سماں پیش کر رہا تھا۔ ایسی رونقیں تو صوفیاء کے عرس کے موقع پر ہی نظر آتی ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ جو بھٹو کو ختم کر کے سمجھ رہے تھے کہ بھٹو کا نام ختم ہو گیا وہ کس بری طرح ناکام ہو گئے وہ جو بھٹو کو مار کر اُن کے ورثا کے بغیر اُنہیں دفن کر کے سمجھ رہے تھے کہ اب یہاں کوئی نہیں،کوئی نہیں آئے گا ۔ اُن کے ارادوں کو کیسی شکست فاش ہوئی۔ پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ یہاں موجود تھے اور ترانوں کی آواز گونج رہی تھی کہ ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘ یہی تو حقیقت ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا اور بھٹو صاحب کے دشمن بھی آج انہیں شہید کہتے ہیں تو دراصل وہ بھٹو کے زندہ ہونے کا ہی اعلان کرتے ہیں۔
تازہ ترین