• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم حامد میر پر قاتلانہ حملہ کے بعد ہماری قومی زندگی میں ایک بھونچال سا آگیا ہے اس افسوسناک واقعے میں بمشکل زندہ بچنے والے حامد میر کے ساتھ مکمل یک جہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنے کی بجائے کچھ صحافیوں اور میڈیا پر سنز نے اسے ڈرامہ اور غدّاری قرار دینے کے لئے اوٹ پٹانگ جواز گھڑنے شروع کردئیے ہیں جو زخموں پر نمک چھڑکنے اور قاتلوں کی سرپرستی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک سیدھا سادا آزادیٔ صحافت پر حملہ ہے جسے نجانے کن مصلحتوں کے تحت الجھانے اور مختلف اداروں کو آپس میں لڑانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اس حوالے سے ایسی ایسی ’’بونگیاں‘‘ ماری ہیں کہ عقل اس وجہ سے دنگ ہے کہ ایسے لوگ عوام کو اس قدر بیوقوف سمجھتے ہیں۔ کیا اپنے جسم میں چھ گولیاں کھانے والے حامد میر نے جان بوجھ کر اپنے اوپر حملہ کروایا تھا۔ اسے ڈرامہ محض اس لئے قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ ’’اتفاق‘‘ سے زندہ بچ نکلا ہے... لیکن یقین جانئے اگر وہ مر بھی جاتا تو ایسے ’’ بے رحم لوگ‘‘ اسے بھی ڈرامہ قرار دیتے ۔ کیونکہ ہمارے ملک میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ یہاں حسد اور دشمنی میں ہر حد سے تجاوز کرنا عین موقف کی سچائی سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔ چاہے بعد میں وقت کا فیصلہ اس سے بالکل مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ابھی کل کی بات ہے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک ایسا اتحاد قائم کیا گیا جن میں ’’ بھٹو دشمنی ‘‘ ایک مشترکہ ایجنڈا تھا۔
کیوںکہ بھٹو اپنے سیاسی قد و قامت کے لحاظ سے ایک جن تھا۔ اور اس کے سیاسی مخالفین ’’بونے ‘‘تھے۔ جو اس کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ تمام ’’ بونوں‘‘ کو اکٹھا کرکے اسے گرانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن جب اس اہتمام کے باوجود وہ اسے شکست دینے میں کامیاب نہ ہو سکے تو اس کے خلاف ’’انتخابی دھاندلیوں ‘‘ کے نام پر بدترین تحریک چلا کر اس ملک کو دوبارہ عدم استحکام کا شکار کردیا گیا۔ جب اس نے دو لخت ہونے کے ’’ تاریخی صدمے ‘‘ کے بعد بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوششوں میں کامیابی حاصل کرنا شروع کی تھی اور لگتا تھا کہ وہ عالمی برادری میں ایک مہذب جمہوری ملک کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے قابل ہوجائے گا۔ جنرل ضیا نے جب بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف شب خون مارا تو بھٹو سے حسد اور دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے اس کے مخالفین نے ابتدامیں اسے بھی بھٹو کا ڈرامہ قرار دیا جو وہ فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ مل کر خود ہی اپنے خلاف کررہا تھا۔ قوم کو متفقہ آئین اور ایٹمی پروگرام دینے والے بھٹو پر فتوے لگائے گئے۔ کہ یہ فتوے ہمیشہ سے ہمارے محب وطن دانشوروں کے ترکش میں تیر ِ بے خطا اور محبوب ہتھیار کے طور پر موجود رہتے ہیں۔ اسے اس صدی کے سب سے جھوٹے مقدمے میں موت کی سزا دے دی گئی یاد رہے یہ مقدمہ اتنا بے بنیاد تھا کہ ہماری عدالتوں میں قتل کے اس مقدمے کی نظیر (Presedent)بھی پیش نہیںکی جاتی صرف یہی نہیں سنگدلی کی انتہا یہ تھی کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر بھی ظلم و تعدی اور بیہمانہ تشّددکی انتہا کردی گئی ۔ جہاں حکومت نے انہیں سرِ عام کوڑے مارنے قید و بند اور جرمانے کی سزائیں دینے اور پھانسیوں پر لٹکانے کا سلسلہ شروع کردیا وہیں شاہ کے وفادار ڈنڈا بردار جتھوں نے دن دہاڑے اُن پر تشّدد کرکے اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑنے شروع کردیے ۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا وقت نے بھٹو کو غدّار ثابت کیا یا ایک ایسا محب وطن شہید جس کے نام پر عوام نے ہمیشہ محبتوں اور ووٹوں کی بارش کردی؟ جبکہ آج بھٹو کو شہید کرنے اور غدّار قرار دینے والے تاریخ کی دھند میں یوں گم ہوگئے ہیں کہ بیگانے تو بیگانے اپنے بھی ان کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس زمانے میں ، بھٹو کو میں یوں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔
تیرا بڑا تو جرم یہی تھا
سب مٹی تھے تو سونا تھا
تیرے قد سے سب جلتے تھےتیرا ہر دشمن ’’بونا ‘‘ تھا
اکیسویں صدی میں بھی ہمارے روّیے نہیں بدلے جبکہ پوری دنیا بدل چکی ہے آج بھی حامد میر جنگ اور جیو کے معاملے میںحاسدوں اور مخالفوں کے پاس کوئی معقول دلیل نہیں صرف ’’ بغض ‘‘ ہے۔ جن پر اچانک بیٹھے بٹھائے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی جنگ ِ آزادی لڑنے والا 75سالہ پرانا پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ جنگ اور صحافی حامد میر غدّار ہیں۔ پاکستان کے عوام فوج اور آئی ایس آئی سمیت اپنے تمام دفاعی اداروں کا حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں۔ کیونکہ فوجی جوان وطن کے دفاع اور دہشت گردوں کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ لیکن ان کے نادان مشیروں نے جو خود کو صحافیوں اور دانشوروں کے روپ میں پیش کر رہے ہیں۔
ان اداروں کو ایسی صورتِ حال میں دھکیل دیا ہے جس سے عوام کی نظروں میں انکی ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ آج کے دور میں آزاد عدلیہ کی موجودگی میں ’’غدّاری‘‘ جیسے سنگین الزامات کی دلدل میں کودنا کسی کے لئے بھی عزت افزائی کا سبب نہیں بن سکتا۔ حامد میر، جنگ اور جیو کے نقطۂ نظر سے اختلاف کا حق سب کو ہے لیکن دونوں طرف سے معاملات کو انتہا پر لے جانے سے گریز کرنا چاہئے اور ان عناصر کے مذموم ارادوں کو ناکام بنا دینا چاہئے جو ملک کے مختلف اداروں کو آپس میں گتھم گتھا کر کے ملک کو کمزور کر دینا چاہتے ہیں۔ جو کہ پہلے ہی کئی طرح کے خطرات میں گھر ا ہوا ہے۔
تازہ ترین