• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بنے تو ان کے مدمقابل آصف علی زرداری، عمران خان، ڈاکٹرطاہرالقادری ،سراج الحق اور چودھری شجاعت حسین ہیں، نوابزادہ نصر اللہ خان نہیں ورنہ اپوزیشن کے اتحاد اور کامیاب احتجاجی تحریک کے لئے جس قدر حالات اب موزوں ہیں 1977ء کے سوا کبھی نہ تھے۔
نوابزادہ صاحب ،بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کی طرح مقبول عوامی سیاستدان کبھی نہ تھے۔ فن خطابت ، جولانیٔ طبع ،جوڑ توڑ کی مہارت اور احتجاجی تحریک اٹھانے پر قدرت نوابزادہ صاحب کی انفرادیت تھی وہ آگ اور پانی کے ملاپ کا ہنر جانتے تھے۔ دائیں بائیں، مذہبی سیکولر کو ایک ساتھ ملا کر مشترکہ جدوجہد پر آمادہ کرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور سارے مقبول سیاستدان نوابزادہ صاحب کو قائد مان کر اپنے کارکنوں سے بابائے جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگواتے۔
نوابزادہ صاحب کا دسترخوان وسیع تھا، انداز بیاں دلکش، ظرف کشادہ اور مزاج معافی تلافی پر ہمہ وقت آمادہ، ہراتحاد کے حق میں ان کے پاس دلائل کا انبار ہوتا، دوسروں کو قائل کرنے کی صلاحیت اور اختلافی معاملات منٹوں میں طے کرنے کی اہلیت سونے پر سہاگہ۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاء الحق کا اقتدار طویل ہونے لگا، فوجی حکومت اور پی این اے کا رومانس ماند پڑگیا اور مارشل لائی پابندیوں کی وجہ سے بےکار و بے روزگار سیاستدانوں کی بوریت بڑھ گئی تو نوبزادہ صاحب نے نئے اتحاد کی ٹھانی اور بالآخر مفتی محمود، بیگم نصرت بھٹو اور ائر مارشل اصغر خان کو ایک ساتھ بٹھانے میں کامیاب ہوگئے۔ ایم آر ڈی کی تشکیل کے لئے پہلا اجلاس 70 کلفٹن پر ہوا تاکہ پیپلز پارٹی کی نظر بند خواتین رہنما بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو شریک ہوسکیں۔
اجلاس کا آغازبدمزگی سے ہوا، بیگم صاحبہ نے قومی اتحاد کو مارشل لاء کے نفاذ اور ائر مارشل صاحب کو بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار قرار دے کر معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا، جواباً ائر مارشل صاحب کے دست راست میاں محمود علی قصوری نے پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ فاشزم کا ذکر کیا جو بالآخر تاریخی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک اور مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بنی۔ اس سے پہلے کہ محفل درہم برہم ہوتی نوابزادہ صاحب نصرت بھٹو اور میاں قصوری کو باری باری ایک طرف لے گئے ،کھسر پھسر کی اور دونوں چپ ہو کر بیٹھ گئے، ایم آر ڈی کے نام سے نیا احتجاج وجود میں آگیا۔
2000ء میں یہی کمال انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے دکھایا۔ میاں نواز شریف ،بیگم کلثوم نوازاور بینظیر بھٹو میں سے کسی کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے یاد رہے نہ جی ڈی اے کا یک نکاتی ایجنڈا جو فوجی مداخلت کے مطالبے پر مبنی تھا۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن شیر و شکر ہوگئے۔
بینظیر بھٹو نے دوسرے دور حکومت میں نوابزادہ صاحب کو کشمیر کمیٹی کی صدارت دے کر مصروف رکھا تاکہ کوئی مخالف اتحاد وجود میں نہ آئے مگر سردار فاروق لغاری نے گھر کے بھیدی کے طور پر لنکا ڈھادی، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی بے عمل، بے فیض اور بے ثمر حکومت نوابزادہ صاحب کی عدم موجودگی کی وجہ سے مدت پوری کرگئی۔ کریڈٹ جنرل کیانی،جسٹس افتخار چودھری اور میاں نواز شریف نے لیا۔
2013ء کے انتخابات میں تمام تر عوامی مقبولیت اور متحرک و پرجوش نوجوان کی کمک اور چودھری نثار علی خان کے بقول ایک مخصوص ادارے کی آشیرباد کے باوجود تحریک انصاف انتخابات کے میدان میں ا س لئے کھیت رہی کہ سولو فلائٹ کے شوق نے اسے کسی دوسری منظم ،تجربہ کار اور دھاندلی کی تاریخ، تکنیک اور روک تھام کے ہنر سے آشنا سیاسی و مذہبی قوت کو اپنا دست و بازو بنانے سے باز رکھا۔ اتحادی سیاست سے میاں صاحب بھی دور رہے مگر عمران خان کا الزام ہے کہ انتخابی نتائج تبدیل کرنے والے عناصر ان کے اتحادی ہی تھے واللہ اعلم بالصواب۔
اس وقت غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری، لاقانونیت، بدامنی، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کی ظالمانہ ،سنگدلانہ پالیسیوں نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے۔ کسی کو میرٹ پر روز گار ملتا ہے نہ جان و مال کا تحفظ، عصمتیں سرعام لٹ رہی ہیں اور خود کشی و خود سوزی کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ ریاست کے خلاف سرگرم عناصر کی گمشدگی کا نوٹس میڈیا بھی لیتا ہے اور عدلیہ بھی، قومی تحفظ اور دفاع کے ادارے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں مگر غیر قانونی پولیس مقابلوں پر کسی کی رگ انسانیت پھڑکتی ہے نہ انسانی حقوق کامروڑ اٹھتا ہے، پولیس ہی مدعی، گواہ، جج اور سزائے موت پر عملدرآمد کی اتھارٹی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے اور لیڈروں کی تقریروں سے یہ موضوعات خارج ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بقول ’’پانچ فیصد‘‘ اشرافیہ متحد ہے۔ خونخوار مافیاز کا غیر مقدس اتحاد وجود میں آچکا ہے مگر موجودہ دھاندلی زدہ عوام دشمن سیاسی، انتخابی اور معاشی ڈھانچے کی مخالف قوتیں منتشر ہیں اور ایک دوسرے سے خوفزدہ، ورنہ 2013ء کے بدترین تجربے کے بعد بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری الگ الگ، اپنی اپنی ڈفلی کیوں بجا رہے ہوتے اور جماعت اسلامی طاہر القادری کی وجہ سے عمران خان سے بدظن کیوں نظر آتی۔ جماعت کو طاہر القادری کے ایجنڈے کی کس شق سے اختلاف ہے۔
13 مئی کی ریلیوں میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ٹھوس عوامی ایجنڈا پیش کیا مگر کینیڈا کی شہریت ،عوامی تحریک کا محدود دائرہ کار اور پیری مریدی کلچر ہر طبقہ ،عمر اورصنف کے ووٹروں اور سپورٹروں کو راغب اور متحرک کرنے میں رکاوٹ ہے۔ میڈیا مینجمنٹ انتہائی ناقص، تنظیمی صلاحیتیں بے پناہ مگر جماعت اسلامی کی طرح عام آدمی کےلئے سدراہ۔
عمران خان کی مقبولیت اب محتاج بیاں نہیں ،اکتوبر 2011ء کے بعد ایسٹیبلشمنٹ سے جو فاصلہ مخالفین کے پروپیگنڈے سے خائف ہو کر عمران خان نے پیدا کیا تھا وہ کم ہوا ہے مگر اختلاف کرنے والوں کو جوڑے رکھنے، دوسری سیاسی و مذہبی قوتوں کو ساتھ ملا کر اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے اور طاہر القادری کی تنظیمی صلاحیتوں کے علاوہ تحریرو تقریر کے ذریعے عوامی جذبات کے اظہار پر قدرت سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت مفقود، تاہم ڈی چوک میں عمران خان نے دوسری جماعتوں سے رابطوں کی بات کرکے ایک قدم آگے بڑھایا ہے، اس معاملے میں مخدوم جاوید ہاشمی اور خورشید محمود قصوری بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں مگر آغاز پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے نہیں کہیں اور سے کرنا ہوگا۔
چودھری برادران کا وسیع دستر خواں، ڈاکٹر طاہر القادری اور سراج الحق کی تنظیمی صلاحیتیں ،عوامی ایجنڈا اور نظریاتی پختگی اور عمران خان کی عوامی مقبولیت مل کر ایک مضبوط، فعال اور عوام میں مقبول سیاسی اتحاد کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اور احتجاجی تحریک کے دوران فوجی مداخلت کا راستہ روکنے میں کامیاب ۔
نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم زندہ ہوتے تو وہ حقے کی نے اور رومی ٹوپی کے پھندنے کو حرکت میں لاتے، پاندان کھولتے، اقبالؒ ،غالب ،ظفر علی خان، مصحفی یا فیض کا کوئی مصرعہ گنگاتے اور دنوں نہیں تو ہفتوں میں اتحادی سیاست کا کوئی نیا شاہکار تخلیق کردکھاتے مگر قدرت میاں صاحب پر مہربان ہے، کوئی نوابزادہ نصر اللہ خان نہیں جو ا پوزیشن کے سیاستدانوں پر مشتمل ریوڑ کو اتحاد کے باڑے میں ا کٹھا کرسکے۔ انہیں اتحاد کے فضائل اور باہمی دھینگا مشتی کے نقصانات کا احساس دلا سکے۔ سیاسی اور شخصی انائوں کا کوہ ہمالیہ سر کرکے ان سیاستدانوں کو ایک میز پر لا بٹھانا آسان کام نہیں مگر دنیا بہ امید قائم۔
تازہ ترین