• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان اس وقت داخلی انتشار اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ایسے میں اگر کہیں سے اچھی خبر سننے کو ملتی ہے تو یقین کیجئے کہ دل کی دنیا بدل جاتی ہے۔ مایوسی امید میں بدل جاتی ہے اور امید یقین کا پیغام دیتی ہے کیونکہ امید سے ہی دنیا قائم ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کاکامیاب دورہ ایران بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے۔اس دورے سے ایران،پاکستان تعلقات زیادہ مضبوط ہوں گے اور دونوں طرف کچھ غلط فہمیوں کی بنا پر پائی جانے والی باہمی کشیدگی بھی ختم ہو جائیگی۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ ایران سے پاکستان، ایران تعلقات میں توازن پیدا ہو گیا ہے۔ برادر ملک عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ہمارا تعلق پہلے ہی مستحکم ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ چین پاکستان دوستی بے مثال اور لازوال ہوچکی ہے۔ایران سے بھی ہمیشہ سے ہمارے دوستانہ مراسم رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عرب ملک کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے’’تحفے‘‘نے ایران اور پاکستان کے درمیان دوریاں بڑھادی تھیں۔دونوں ممالک میں نہ صرف تلخیوں نے جنم لیا بلکہ ایران نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے واقعہ پر پاکستان حکومت کو دھمکیاں دیں۔ انہی کشیدہ حالات میں وزیراعظم نوازشریف نے ایران کا دورہ کرکے دوراندیشی اور فہم وفراست کا ثبوت دیا۔ وزیراعظم نے اس دورے میں ایرانی صدر حسن روحانی، سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سمیت دیگرایرانی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ایرانی دورے کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کوجاری رکھنے پر اتفاق رائے ہواہے۔یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کے جنم لینے سے پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کوحل کرنے کامنصوبہ ’’کھٹائی‘‘ میں پڑگیا تھا۔ایرانی صدر کے ساتھ پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات میں یہ بھی طے پایاکہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر سیکورٹی انتظامات سخت کئے جائیں گے۔جرائم پیشہ افراد کی غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ کی روک تھام کرکے دونوں ملکوں میں باہمی تجارت بڑھ جائے گی۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ پاک ایران سرحد پر گزشتہ طویل عرصے کے دوران دونوں جانب سے جرائم پیشہ افراد نے اسمگلنگ کابازار گرم کیا ہواہے۔ اسے قانونی شکل دینے سے اور سرحدی علاقے میں سیکورٹی انتظامات بہتر بنانے سے دونوں ہمسایہ ملکوں کا ہی فائدہ ہے۔بلوچستان کے خراب حالات کی وجہ سے بیرونی قوتیں پاک ایران سرحد میں کشیدگی بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان اور ایران کی قیادت نے دانشمندی سے کام لیکر بیرونی طاقتوں کے عزائم کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ پاکستان برادر اسلامی ملک ایران میں تجارت 5ارب ڈالر تک بڑھاناچاہتا ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی بھی پاکستان کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔وہ پاکستان کے ساتھ تاریخی دیرینہ مذہبی،تہذیبی اورثقافتی تعلقات اور رشتوں کومضبوط کرناچاہتے ہیں۔ پاکستان اس وقت توانائی کے سنگین بحران میں مبتلا ہے۔ایران تیل اور گیس کے قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے۔
ہمارے سندھ اور بلوچستان میں گیس کے ذخائر ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اس سلسلہ میں آئندہ کیلئے پلاننگ از حدضروری ہے۔1995ء میں پاکستان،ایران اور بھارت کے درمیان قدرتی گیس کی فراہمی کا معاہدہ طے ہوا تھا۔بعد ازاں امریکی دبائوپر بھارت مختلف حیلوں، بہانوں سے اس منصوبے سے الگ ہو گیا۔ اس معاہدے کے تحت ایران سے قدرتی گیس بندرعباس سے خضدار اور ملتان تک زمینی راستے سے پائپ لائن سے بچھائی جانی تھی اور پھر ملتان سے بھارت تک بذریعہ پائپ لائن سے اسے پہچانا تھا۔ بھارت کی اس منصوبے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے کئی رکاوٹیں ڈالیں کہ پاکستان کسی بھی صورت ایران سے گیس نہ لے سکے۔ پاکستان نے بالآخر تمام ترامریکی مخالفت کے باوجود گزشتہ زرداری حکومت کے دور میں ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کر دیئے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ امریکہ ہمیں مجبور کرتارہا کہ ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ ختم کرکے پاکستان بھارت سے مہنگی بجلی خریدے۔حکومت پاکستان نے ایران کیساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر نئی مفاہمت کرکے امریکہ اور بھارت کے مذموم عزائم ناکام بنادیئے ہیں۔بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والے افسوسناک واقعات میں بھی یہی بیرونی قوتیں ملوث تھیں جن کا ایجنڈا پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا تھا۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جلد ازجلدبدترین لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے ہماری انڈسٹری شدید متاثر ہوئی ہے۔اس تناظر میں پاکستان کی خواہش تھی کہ2014ء تک ایران سے گیس کی فراہمی شروع ہوجائے گی مگر دیر آید درست آید ۔اب ایران سے اس حوالے سے نئی مفاہمت ہونے سے یہ امید پیداہو گئی ہے کہ اب اس منصوبہ پر جلد عملدرآمد ہوجائیگا۔اس عظیم منصوبے سے گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابوپایاجاسکے گابلکہ مستقبل میں ترقی وخوشحالی کے کئی نئے دروازے بھی کھلیں گے۔توانائی کے بحران کے حل کیساتھ وزیراعظم کے ایران کے دورے کی دوسری بڑی کامیابی آپس میں باہمی غلط فہمیوں کا خاتمہ بھی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ایرانی حکام پر پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے تمام برادر اسلامی ممالک سے اسلامی بھائی چارے، دوستی اور تعاون پرمبنی گہرے تعلقات ہیں۔ایران کی طرح سعودی عرب سے بھی پاکستان کے دیرینہ مراسم ہیں۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے سعودی عرب نے ہمیشہ ہر آڑے اور مشکل وقت میں ہماراساتھ دیاہے۔پاکستان نے سعودی عرب کے بارے میں ایران کو اعتمادمیں لیکرمناسب اور معقول اقدام کیا ہے۔اس سے مستقبل میں ایران اور سعودی عرب دونوں ممالک سے پاکستان کی دوستی مزید پروان چڑھے گی۔پاکستان ایک ایساملک ہے جسے عالم اسلام میں ممتاز اور نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ واحد نیو کلیئر پاور کے طور پرپوری اسلامی دنیا پاکستان کومحورومرکز تصور کرتی ہے۔ مسلم دنیا کے درمیان ہم آہنگی اور تعلقات کی مضبوطی کیلئے پاکستان ایک اہم کردار اداکرسکتا ہے۔عالمی منظرنامے میں ہونے والی تبدیلیوں اور جنوبی ایشیاء کے مخصوص حالات کے پیش نظر پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینا چاہئے۔ ایران سے تعلقات میں بہتری یقیناً نیک شگون ہے مگر خارجہ پالیسی کو وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق بناناہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا تو وزیرخارجہ بھی نہیں ہے۔ مشیرخارجہ کے ذریعے خارجہ پالیسی چلائی جارہی ہے۔اس سے پاکستانی حکومت کی سنجیدگی کاپتہ چلتا ہے۔
پاکستان موجودہ حالات میں جن اندرونی اور بیرونی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ایسی صورت حال میں وزیر اعظم نوازشریف کو جمہوریت کے استحکام کیلئے فوری نوعیت کے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اب یہ ’’مغلیہ‘‘ دور نہیں ہے کہ تمام اختیارات ایک فرد واحد کے سپرد ہوں اور تمام حکومتی مشینری اس فرد کے گرد ہی گھومتی رہے۔ وزیر اعظم کو وزارت خارجہ کامنصب اپنے سر سے اتار دینا چاہئے۔ کسی مناسب اور موزوں فرد کو وزیرخارجہ بنایاجاناچاہئے جو ملکی وقومی مفاد میں خارجہ پالیسی کے خدوخال کو ازسرنومرتب کرے۔ پاکستان کے اگر ایران، چین، سعودی عرب اور افغانستان سے تعلقات وسیع اور بہتر ہو جائیں اور دیگر اسلامی ممالک کیساتھ روابط کو خارجہ پالیسی میں بنیادی اہمیت دی جائے۔ افغانستان سے امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد پر امن افغانستان پاکستان کیلئے ضروری ہے۔ افغانستان میں امریکی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے خاتمے کیلئے چین، ایران، سعودی عرب اور پاکستان کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔
جنوبی ایشیا میں ہمارے مشترکہ مفادات کادشمن امریکہ اور بھارت ہے جو نہیں چاہتاکہ پاکستان اپنے دوست ممالک کیساتھ مل کرخطے میں ابھرتی ہوئی قوت بن سکے۔بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کااصل مقصد یہی ہے کہ گوادر پورٹ کامیاب نہ ہوسکے۔امریکہ اور بھارت سمجھتے ہیں کہ اگر گوادر پورٹ کامیاب ہوگئی تو چین کے ساتھ پاکستان بھی مضبوط معیشت کاحامل ملک بن جائیگا۔پاکستان کو ترقی وخوشحالی کے راستے پر ڈالنے کیلئے خارجہ پالیسی کوملکی وقومی مفادکے مطابق بناناہوگا۔اب دیکھنایہ ہے کہ پاکستانی حکومت ملکی مفاد کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے پاتی ہے یانہیں؟
تازہ ترین