• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام تصور یہ ہے کہ بلوچستان بے آب و گیاہ پہاڑوں، خاک اڑاتے صحرائوں، لق و دق میدانوں، سنگلاخ چٹانوں، دشوار گزار دروں، بنجر اراضی اور وحشت ناک ویرانوں کا خطہ ہے جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان نہیں ملتا انسانوں کے لئے خوراک کے وافر مواقعے ہیں نہ مویشیوں کے لئے چراگاہیں۔ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے طویل فاصلوں کا سفر پیدل طے کرتے ہیں یا اونٹوں کو بطور سواری استعمال کرتے ہیں یہ بلوچستان کا ایک رخ ہے لیکن اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے صوبے سے باہر کم ہی لوگ جانتے ہیں وہ رخ یہ ہے کہ بلوچستان پریوں اور شہزادوں کی، مہمان نوازی میں حاتم طائی کو مات دینے والے میزبانوں کی، اپنی آن کے لئے بے دریغ جانیں قربان کرنے والوں کی اور اپنی لے میں مست حدی خوانوں کی سرزمین ہے یہ خوبصورت وادیوں، دلکش نظاروں، سونا اگلتی زمینوں، سحر انگیز تفریح گاہوں، تاحد نظر پھیلی ہوئی گہری جھیلوں، گنگناتی آبشاروں، شفاف اور میٹھے پانی کے چشموں اور طرح طرح کے پھلوں اور پھولوں سے لدے پھندے باغوں کی سرزمین بھی ہے۔ چشم بینا ہو تو کوئی اسے دیکھے اور بادیہ پیما ہو تو اس سرے سے اس سرے تک کوئی اس کی رنگینیوں کا نظارہ تو کرے، قدرت نے جہاں کچھ محرومیاں اس کا مقدر بنائی ہیں وہاں بیش بہا نعمتوں سے نواز بھی ہے اس کے پاس کھربوں ڈالر کا سونا ہے، چاندی ہے، تانبا ہے، لوہا ہے، کوئلہ ہے، تیل ہے، گیس ہے، سنگ مرمر ہے، کرومائٹ، بیرائٹ، گندھک، جپسم، نایاب جڑی بوٹیاں عقل کو حیران کر دینے والے پرند و چرند اور نجانے اور کیا کیا ہے اس کے سربفلک پہاڑ اور وادیاں تاریخی خزانوں کی امین ہیں زرغون کی وادی میں لاکھوں سال پرانی لکڑی دریافت ہوئی ہے جو اب پتھر کی شکل اختیار کر چکی ہے یہاں برصغیر کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کے حیران کن آثار بھی ہیں یہاں ایشیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی طویل ترین سرنگ کوژک ہے جس کی لمبائی 12870 فٹ ہے یہاں دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا جنگل ہے یہاں جبل نور کی طویل و عریض غار ہے جس میں قرآن پاک اور دوسری مذہبی کتابوں کے بوسیدہ مقدس اوراق بے حرمتی سے بچانے اور حفاظت کے لئے رکھے جاتے ہیں بلندیوں پر واقع پہاڑی غاریں ہیں جو کسی زمانے میں خونخوار جنگلی حیات، اللہ کی غیر مرئی مخلوق یا بھیڑ بکریاں چرانے والے خانہ بدوشوں کا مسکن ہوتی تھیں آج کل ان میں سے اکثر علیحدگی پسندوں کے کیمپوں اور اسلحہ کے ذخائر میں تبدیل ہو چکی ہیں جو بھی ناراض ہو کر پہاڑوں پر چلا جائے یہی غاریں انہیں پناہ دیتی ہیں۔ انہیں میں سے تراتانی کی ایک غار میں نواب اکبر بگٹی اپنے تیس جاں نثاروں کے ساتھ قیام پذیر رہے اور بالآخر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی۔ یہاں خاران کے پراسرار گنبد ہیں جن میں بادشاہان وقت یا صاحبان جاہ و منصب کے خفیہ خزانے مدفون تھے انہی گنبدوں میں کئی کئی منزلہ قبریں تھیں جن میں ان کے مردہ جسم محو خواب تھے ان کے آثار اب بھی موجود ہیں کچھ گنبد اب بھی ہیں جو اپنی پیرانہ سالی کا پتہ دے رہےہیں خزانوں کی تلاش میں لوگوں نے زیادہ تر گنبدوں کو تہس نہس کر دیا ہے اور قبروں سے مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نکال کر باہر پھینک دی ہیں۔ یہاں چاغی میں راسکوہ کا پہاڑ بھی ہے جس نے پاکستان کو دنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی قوت بنا دیا۔
بلوچستان ملک کا امیر ترین صوبہ بھی ہے اور غریب ترین بھی۔ قدرتی وسائل اس کی امارت اور زندگی کی محرومیاں اس کی غربت پر دلالت کرتی ہیں ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق جو سینٹ میں پیش کی گئی تھی ملک کے دس پسماندہ ترین اضلاع میں سے 8 کا تعلق بلوچستان سے ہے ان میں نواب اکبر بگٹی کا ضلع ڈیرہ بگٹی بھی شامل ہے جو غربت کے لحاظ سے ملک کے کل 113 اضلاع میں آخری نمبر پر ہے یہ وہ ضلع ہے جہاں سے نکلنے والی قیمتی سوئی گیس سے ملک کے تقریباً ایک تہائی حصے کے گھروں میں چولہے جلتے ہیں یا صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے مگر ڈیرہ بگٹی اور سوئی کا بیشتر علاقہ اس سے محروم ہے اور آج بھی وہاں لوگ سوختی لکڑی پر انحصار کرتے ہیں کوئٹہ اور چند بڑے شہروں کے علاوہ صوبے کے دوسرے علاقوں کا بھی یہی حال ہے ویسے تو صوبے کے سارے 31 اضلاع پسماندگی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر 30 جون 2012ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ڈیرہ بگٹی، کوہلو، چاغی، مشکے، قلعہ سیف اللہ، لورا لائی، موسیٰ خیل اور بارکھان کو اس ’’اعزاز‘‘ کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت قومی آمدنی میں صوبے کا حصہ دوگنا کرکے 9.09 فیصد کر دیا گیا ہے مگر اس سے بلوچستان کی صحت پر زیادہ فرق نہیں پڑا وجہ اس کی یہ ہے کہ اوّل تو وفاق کی جانب سے اس کے ترقیاتی فنڈز بروقت جاری ہی نہیں ہوتے جس سے ترقیاتی منصوبے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں پھر جو رقم دی جاتی ہے اس کا بیشتر حصہ بھی’’ فرشتے‘‘ حسب توفیق اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں ایسے تین سو سے زائد ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کی تحقیقات نیب کے سپرد کی جا چکی ہےیہ بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں پسماندہ اضلاع کے لئے بلوچستان کو ملنے والے 23 ارب روپے کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئے البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے عہد میں کرپشن کی کوئی کہانی منظر عام پر نہیں آئی اور اس سے بھی اچھی خبر یہ ہے کہ وفاق نے صوبے کے ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ جاری کر دیا ہے صرف بیس یا تیس فیصد باقی رہ گیا ہے اس کے بھی جلد جاری ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تعمیر و ترقی کی یہ صورت حال اپنی جگہ مگر جب تک سیاسی مسئلہ حل نہیں ہو گا اس وقت تک لوگوں کے احساس محرومی میں کوئی کمی نہیں ہو گی یہ احساس کم ہونے کے بجائےوقت کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے لاپتہ افراد نئی حکومت کی نیک خواہشات اور کوششوں کے باوجود لاپتہ ہیں مسخ شدہ لاشیں بھی بدستور مل رہی ہیں بلکہ اب تو اجتماعی قبریں بھی دریافت ہو رہی ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ پہاڑوں پر جانے والے 90 فیصد سے زائد نوجوان گریجویٹس ہیں وہ حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں انہیں اپنی ان سیاسی پارٹیوں پر بھی اعتماد نہیں جو پاکستان کے اندر حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے دسمبر 2013ء میں کابینہ کے اس فیصلے کا اعلان کیا تھا کہ ناراض بھائیوں سے بات چیت اور امن و امان کی بحالی کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی اس سلسلے میں ایک چار رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی مگر ابھی تک یہ کانفرنس منعقد ہوئی نہ مستقبل قریب میں اس کے آثار نظر آتے ہیں اس لئے مزاحمتی تحریک کے خاتمے کا بھی فی الحال کوئی امکان نہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ بیل اتنی آسانی سے اور اتنی جلدی مونڈھے چڑھنے والی نہیں ابھی مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔
تازہ ترین