• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رحم کر، ظالم ! کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
بنفس بیمار وفا، دورچراغ کشتہ ہے
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی، سود چراغ کشتہ ہے
مرزا غالب کے مندرجہ بالا اشعار آجکل ملک کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حالات کی روشنی میں حسب حال ہی لگتے ہیں ملک کی دو بڑی پارٹیوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے 11مئی کو اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے لوگوں کی طاقت کو نہ صرف بے مقصد ضائع کیا بلکہ وقت اور پیسہ بھی ضائع کیا لیکن کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ ضائع نہیں ہوتا موقع لگتے ہی منافع کے ساتھ واپس آجاتا ہے منافع اور باریوں کی سیاست تو ہمارے ملک میں رائج ہے اور اسی چیز کو توڑنے کے لیے لوگ تحریک انصاف، عوامی تحریک اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف دیکھتے ہیں یہ وہ سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں شامل لیڈران تو مالدار ہیں لیکن عام عہدیدار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پارٹیوں نے عوامی سطح پر خود کو نہ صرف پہنچایا ہے بلکہ وہاں سے بھرپور حمایت بھی حاصل کی ہے 11مئی کے جلسے میں سوائے اس کے کہ لوگوں کا خون گرم کیا گیا اور موجودہ حکومت کے خلاف عوام کے عدم اطمینان کا کامیاب اظہار کیا گیا اور کچھ حاصل نہیں ہوا عوام حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں اور اپنی تمام تر مشکلات، مصیبتوں، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اقربا پروری کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ہی سمجھتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے پیپلز پارٹی کواقتدار سے اس لیے محروم کیا تھا کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی تھی اور موجودہ حکمرانوں نے اپنی سیاسی جدوجہد میں لوگوں کوسبز باغ دکھائے تھے لیکن جب آنکھ کھلی تووہ سب خواب نکلے اور لوگ پہلے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہوگئے ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی میٹنگ کی صدارت کی ہے جس میں سابق صدر بھی شامل تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیٰ ترین سطح پرامن وامان کی صورتحال کودرست کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی رینجرز کی کوششوں سے جرائم میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ بھتہ خوری کافی حد تک کنڑول میں ہے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے مگر مجموعی صورتحال ابتر ہے ہرچیز عارضی اور ناپید لگتی ہے پچھلے دنوں کراچی میں جنرل حمید گل صاحب سے ملاقات ہوئی اور حالات حاضرہ پر ون ٹوون گفتگو ہوئی جنرل صاحب ان تمام چیزوں کا حل شرعی نظام کے نفاذ میں بتاتے ہیں اور قرارداد مقاصد کے حوالے سے انہوں نے کافی دیر تک گفتگو کی ان کو ہمارے موجودہ عدالتی نظام پر بھی تحفظات ہیں اور وہ شرعی عدالتی نظام کے حامی ہیں۔
انہوں نے بہت سی مثالیں دیکر ثابت کیا کہ اگر شرعی عدالتی نظام نافذ ہوجائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ان کے صاحبزادے عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی وہ بھی انہی خطوط پر نوجوانوں کے لیے کام کررہے ہیں اور خاصے پرامید ہیں مقصد توعوام کی فلاح ہے وہ کسی سے بھی آئے 11مئی کے جلسوں میں بڑی تعداد میں عوام کی شمولیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ لوگ موجودہ حکومت اور سسٹم سے ہرگز مطمئن نہیں ہیں کراچی میں قتل کی وارداتوں کے پیچھے لینڈ مافیا زمینوں پر قبضے کرنے اور قبضے چھڑوانے والے لوگوں کے باہمی جھگڑوں کابھی دخل ہے کچھ پیشہ ورقبضہ گروپوں نے اپنے اوپر سیاسی پارٹیوں کے لیبل لگائے ہوئے ہیں اور خود کوفل ٹائم سیاسی ورکر ظاہر کرکے نہ صرف زمینوں پر قبضے کرتے ہیں بلکہ قبضے چھڑواتے بھی ہیں ان کے ساتھ دونوں طرح کا ٹھیکہ ہوجاتا ہے اور پھر اس کام کے دوران جانوں کازیاں ہوجاتا ہے کچھ وکلا کے قتل میں بھی زمینوں سے متعلق مقدمات میں وکلا کی پیروی کی باتیں سننے میں آئی ہیں کچھ لینڈ مافیا کے لوگوں کوان کی پیروی پسند نہیں آئی اور انہیں راستے سے ہٹادیا گیا بہرحال یہ سنی سنائی بات ہے۔
اس بات کی کوئی معقول شہادت موجود نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں ہم اپنے بہت سے وکیل ساتھیوں کی رفاقت سے محروم ہوگئے اور وہ داعی اجل ہوگئے بات11مئی کے جلسوں سے شروع ہوئی تھی اور بیچ میں دوسرے موضوعات زیرقلم آگئے میں نے اپنے گزشتہ کالم میں تفصیلی طور پر بیان کیا تھا کہ لوگ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ہم نے مغربی جمہوریت اور مغربی طریقہ انصاف اورعدالتی نظام کوآزمالیا ہے اگرچہ یہ نظام روزمرہ کے معمولات چلا رہا ہے اور ملک بین الاقوامی سطح پر قوموں کی صف میں شامل ہے مگر ہماری آبادی، ہمارے معاشی حالات ہماری مذہبی روایات اور ہمارے عوام کا مذہب کی طرف بڑھتا ہوا رحجان ہمیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ہم کوئی نیا نظام اپنے لیے وضع کریں جوکہ بین الاقوامی طور پر قابل قبول ہو اور ہمارےعوام بھی اسے قبول کریں اور قابل عمل ہو خیالی نظام نہ ہو جس میں تمام ترکام فرشتوں کے سپرد کرنے کی دفعات شامل ہوں کام تو انسانوں نے ہی کرنا ہے انسان خطا کا پتلا ہے مگر اس پتلے کوقابو کرکے چلنے والا نظام رائج ہوناچاہیے علامہ طاہرالقادری نے اپنے جلسے میں ایک نیا نظام دینے کی بات کی ہے خاص طور پر نیا عدالتی نظام جس کے تحت ملک میں35سپریم کورٹ ہوں گی اور ڈسٹرکٹ لیول پر ہائیکورٹ ہونگے نظام برا نہیں ہے امریکہ میں یہ نظام رائج ہے ہراسٹیٹ کا اپنا سپریم کورٹ ہوتا ہے اپنی بار کونسل ہوتی ہے لائسنس بھی ایک اسٹیٹ کادوسری اسٹیٹ میں استعمال نہیں ہوسکتا وہاں کاعدالتی نظام ہمارے عدالتی نظام کے مقابلے میں کافی بہتر ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ماحول اور اپنی روایات کومدنظر رکھتے ہوئے کافی اچھا اپنا عدالتی نظام بناسکتے ہیں جس میں انگریزی قانون کی بہت سی غیر ضروری چیزوں کوختم کرکے اصل مسئلے کی طرف توجہ دیکر سمری انداز میں جوکہ ہمارا روایتی جرگہ کا انداز ہے چھوٹے کیسوں کی سماعت سینئر سول جج لیول پر کرواسکتے ہیں مثلاً ابھی ہم نے فیملی کیسوں میں یعنی خلع کے کیسوں میں سمری پروسیجر استعمال کیا ہے اور کافی کامیابی ہوئی ہے اسی طرح دوسرے قابل راضی نامہ فوجداری کیسوں کوبھی نمٹایاجاسکتا ہے اگر انصاف کا نظام مستعد ہوجائے توکافی حد تک عوام کی بے چینی دور ہوجائیگی اور اس طرح حکومت بھی مستحکم ہوسکتی ہے فی الحال توحالات ایسے ہیں کہ حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آرہی بے چینی، بے روزگاری ، اقرباپروری اور نااہلی کادوردورہ ہے آخر میں غالب کے اشعار قارئین کی نظر کرتا ہوں
دونوں جہاں دے کر وہ سمجھے، یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہرمقام پہ دوچار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
تازہ ترین