• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر کو ادراک تھا حالانکہ یہ تخیلات اور واہموں کی وادی میں گھومنے والی مخلوق ہے اور عموماً خواہشات کی تابع، تبھی پکارا؎
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
مگر جن کے کاندھی پر ایک ایٹمی ریاست چلانے، اٹھارہ انیس کروڑ مظلوم ومجبور عوام کو امن، روٹی، روزگار، چھت اور عزت فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے تعلیم و صحت کی سہولتیں بہم پہنچانا واجب وہ فقط آرزو پالتے اور دلفریب بیان جاری کرتے ہیں۔
کراچی میں آپریشن چھ سات ماہ سے جاری ہے ابتدائی دو تین ہفتوں کے بعد قطعی بے مقصد، بے ثمر اور بے نتیجہ، سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں ہونے والے آپریشن سے توقعات صرف وہ خوش فہم وابستہ کر سکتا تھا جو کراچی کی زمینی حقیقتوں سے ناواقف، بدامنی کے اسباب اور سرگرم گروہوں کے مقاصد، عزائم او رصلاحیت کے علاوہ طریقہ واردات سے قطعی ناآشنا ہو۔
گزشتہ روز کے اجلاس میں میاں صاحب نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بائیں ہاتھ بٹھایا۔ سول بالادستی کے جنون میں مبتلا حکومت کو وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزراء کی نشست وبرخاست کے حوالے سے بلیو بک یاد نہ رہیں؟ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں یہ سوچنا عبث ہے کہ آرمی چیف کو وزیر اعظم کے ساتھ بٹھا کر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنانے کا مقصد کیا تھا؟ عوام نے مگر یہ ضرور سوچا کہ جو حکمران بھاری مینڈیٹ اور عوامی خواہش کے باوجود کراچی میں رینجرز اور پولیس کے ذریعے امن قائم کرنے سے قاصر ہیں اور فوج کے محتاج وہ بار بار سکیورٹی اداروں سے پنگا کیوں لیتے ہیں، بیرونی اشاروں پر دفاعی اداروں کو تہس نہس کرنے کے خواہش مند سیاسی اور صحافتی مخنچوںکو گود میں بٹھا کر لاڈ پیار کیوں کرتے ہیں ۔ یہ جبلت اور افتاد طبع ہے یا چھیڑ چھاڑ کی پختہ عادت جو تجربے اور حالات کے تقاضوں پر غالب رہتی ہے ۔
قبضہ مافیا، بھتہ گروپ، لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ آویزش کراچی کا مرض نہیں محض علامت ہے ان کے سرپرست اور محافظ وہ روگ ہیں جن کا علاج ہمارے مرکزی اور صوبائی حکمرانوں کے پاس نہیں کیونکہ ہر ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور قبضہ گیر کسی نہ کسی کا لے پالک اور لاڈلہ ہے۔آپریشن میں یہ احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ کسی سٹیک ہولڈر کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے، کراچی شہر اور عوام کو کبھی کسی نے سٹیک ہولڈر سمجھا ہی نہیں ۔
پچھلے سال عام انتخابات سے قبل ایک بریفنگ میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز سے پوچھا گیا کہ وہ کراچی اور کوئٹہ میں فوجی آپریشن پر کیوں تیار نہیں تو جواب صاف اورسیدھا تھا ’’سوات کے تجربے کے بعد ہم یہ غلطی نہیں کرسکتے کہ فوج پولیس، انتظامیہ اور رینجرز کے فرائض سنبھالے اور سول مشینری لمبی تان کر سو جائے ‘‘ موجودہ آرمی چیف بھی صورتحال سے واقف ہیں اور حکومتوں کی مصلحتوں سے بھی۔
2008ء سے برسر اقتدار سید قائم علی شاہ، میاں نواز شریف کی تقریر اور آرمی چیف کی یقین دہانی سے متاثر ہو کر مصلحتوں کی چادر اتار پھینکیں گے؟ برسوں کی بے عملی کو فعالیت اور سرگرمی میں بدل دیں گے ۔ایں خیال است ومحال است وجنوں، کیا فوج پہلے تعاون نہ کر رہی تھی یا آئی ایس آئی نے کہیں رکاوٹ ڈالی؟ اپنی نااہلی، بے عملی اور مصلحت اندیشی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا آسان ہے مگر پسندیدہ نہیں۔
صرف کراچی میں نہیں پورے ملک میں امن وامان کی صورتحال روز بروز بگڑ رہی ہے پنجاب میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ صوبے کے مختلف مقامات پر غریب گھرانوں کی بہو بیٹیوں سے زیادتی کے جتنے واقعات پچھلے چند ماہ میں ہوئے ریکارڈ ہیں ہر طرح کے گینگ سرگرم ہیں اور عوام خوفزدہ، دروغ برگردن راوی پولیس کے سربراہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سرکاری جماعت کے ایم پی اے، ایم این اے کا فون بھی کھڑے ہو کر مودب سنتے ہیں اور میاں صاحب کی جھڑکیوں پر خورسندنظر آتے ہیں۔ میاں شہباز شریف کی توجہ کا مرکز اب اسلام آباد اور لوڈشیڈنگ ہے یا پھر میٹرو بس،۔
سیاست ریاست پر حاوی ہے اور سیاسی مصلحتیں کراچی کے امن سے زیادہ مرغوب، تبھی حالیہ اجلاس میں تحریک انصاف کی مقامی منتخب قیادت کو بلایا نہیں گیا اور ڈاکٹر عشرت العباد اور قائم علی شاہ سے گزارہ چلانے پر اصرار ہے؎ ۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بحران سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے۔ فوج اور حکومت کے بارے میں مان لیا کہ ایک صفحے پر ہیں مگر مشرف غداری کیس، طالبان سے مذاکرات، کراچی میں قیام امن اور جیو گروپ سے حساس ادارے کی ناراضگی کے معاملے میں حکومت کہیں سنجیدہ نظر آتی ہے نہ زود فہم اور دور اندیش، مستقبل بینی اور کشادہ ظرفی و کشادہ نظری کے باب میں ہمارے سیاست دانوں کا ہاتھ ویسے ہی تنگ رہا ہے ۔ ورنہ یہ مسائل پیدا ہی کیوں ہوتے ۔
فوج بار بار یقین دہانی کرا رہی ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے الگ تھلک اور حکومت کی معاون و مددگار ہے مگر جب بھی کوئی سیاست دان دھاندلی کی شکایت کرتا ہے انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر زور دیتا اور عوام کے بنیادی حقوق کی یاد دہانی کراتا ہے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے گویا عوام کو سستا آٹا، روغنی تیل، بجلی، گیس، پٹرول، مٹی کا تیل فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں ،جان ومال عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کا فرض نہیں اور اس کا ذکر کرنا جمہوریت دشمنی ہے پارلیمنٹ اور دوسرے ادارے اپنے فرائض کی بجا آوری میں ناکام رہیں تو سڑکوں پر آواز بلند کرنا خلاف قانون اور غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی ہے۔ حتیٰ کہ وسط مدتی انتخابات بھی جو بھارت اور برطانیہ تک میں ہو جاتے ہیں ۔
فوج کو سیاسی اور حکومتی معاملات میں دخل اندازی کا موقع منتخب حکمران خود فراہم کرتے ہیں جب فوجی سربراہ کو احساس ہو کہ اپنی اہلیت، صلاحیت کے بجائے حکمران اس کا کندھا استعمال کر رہے ہیں تو وہ بھلا ان کی سیڑھی کیوں بنے۔1977میں بھٹو اور 1999میں شریف برادران نے یہ تجربہ کرکے خوب بھگتا اب معلوم نہیں کیا ارادے ہیں؟
1999میں فوجی قیادت شریف حکومت اور اس کے وزیروں مشیروں کے اس قدر بدگماں تھی نہ حالات کی سنگینی اتنی زیادہ کہ ہر کوئی بے بسی کی تصویر نظر آئے ۔احتجاجی تحریکیں سیاست دان منظم نہیں کرتے عوام کے دل ودماغ میں مایوسی اور بے چینی کے سبب جنم لیتی اور حکمرانوں کی بے تدبیری، استحصالی طبقات کہ بےجا سرپرستی اور عوامی مسائل سے سنگدلانہ چشم پوشی کے طفیل پروان چڑھتی ہیں ان دنوں حالات سازگار ہیں۔
حکومت عزم صمیم، نقائص سے پاک منصوبہ بندی، درست ترجیحات اور سیاسی مصلحتوں سے گریز کی بنا پر کراچی کا امن بحال کر سکتی ہے ۔ سیاسی عناصر کی ناراضی اور جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی وابستگی کا لحاظ کئے بغیر ۔مگر یہ کام کرنا ہوتا تو چھ سات ماہ قبل ہو جاتا یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں ۔
تازہ ترین