• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرعونوں یعنی مصر کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ اخناطون بت پرستی ختم کرنا چاہتا تھا اس مقصد کیلئے اس نے ایک نیا شہر اخناطون آباد کیا، وہ توحید کا قائل ہو گیا تھا اس نے اپنے باپ کا نام بھی ہر عمارت سے مٹا دیا اور یوں اپنی دانست میں دیوتا عامون کی پرستش ہمیشہ کیلئےختم کر دی، اسی طرح انہوں نے قبروں میں ساز و سامان دفن کرنے کا رواج بھی ختم کر دیا، فرعونوں کا یہ دلچسپ عقیدہ تھا کہ وہ مرنے کے بعد جب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے تو انہیں دنیا ہی کی طرح مال و اسباب کی ضرورت پیش آئے گی، اس لئے قبروں میں میت کے ساتھ اس کی زندگی کی ہر ضرورت و آسائش کا پورا پورا انتظام کر دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ملکہ اور شہزادیوں کیلئے سامان حُسن مثلاً غازہ، اُبٹن، کنگھی، آئینہ وغیرہ تک رکھ دیا جاتا، جیسے مرنے کے بعد بھی جی اٹھنے پر انہوں نے وہی کچھ کرنا تھا جو دیارِ فانی میں جسمِ ناز و نعم کیلئے ضروری تھا!! غلہ اور اور پکا ہوا کھانا بھی رکھ دیا جاتا تھا، پوشاک، سواری، شکار کا سامان غرض یہ کہ اس قدر ساز و سامان کہ اس پر ایک ضغیم کتاب لکھی گئی ہے، فرعونوں کی برآمد شدہ ایسے سامان کی تفصیل ایک با تصویر کتاب موسومہ ’’طوت النخ عامون کی زندگی اور موت‘‘ میں موجود ہے ’’طوت النخ عامون کا خزانہ‘‘ میں بھی دلچسپ معلومات ہیں۔
ایلیٹ اسمتھ نے پہلی مرتبہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے، اہرامِ مصر کے نام سے مشہور یہ قبریں دراصل مصر کے بادشاہوں (فراعین) ان کے قرابت داروں اور زرداروں و طاقتوروں کی ہیں، فرعونوں کی لاشوں پر مسالہ لگا کر تابوت میں رکھ دیا جاتا تھا، مصری باشندے لاشوں کو محفوظ بنانے کا فن جانتے تھے، متعدد فرعونوں کی لاشیں آج لندن کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ آج سے 6ہزار سال قبل تعمیر شدہ ’’فرعون خوفو‘‘ کے اہرام کے متعلق نپولین کا اندازہ تھا ’’اگر اس ہرم کے پتھروں کو نکالا جائے تو ان پتھروں سے دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی ایسی دیوار بنائی جا سکتی ہے جو پورے ملک فرانس پر محیط ہو گی‘‘اس ہرم میں 25لاکھ پتھر لگائے گئے ہر پتھر کا وزن 50من تھا بعض کا وزن420من بھی تھا، اس زمانے میں مشینیں وغیرہ نہیں تھیں، ہر پتھر کو بنی اسرائیل’’بیگاری مزدور‘‘ گھسیٹ کر لے جاتے تھے یوں ایک فرعون کی تدفین کے دوران ہزاروں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اخناطون نے یہ جبر و استحصال بند کر دیا لیکن فرعونوں کی جاہ و جلال کیلئے خون کا نذرانہ دینے کا یہ شوق اہل مصر میں اس قدر نشہ مستور کر چکا تھا کہ سرمدی ادائوں میں ہی وہ زندگی کا مقصد تلاش کرتے تھے۔
فرعون اخناطون کو پجاریوں نے زہر دے کر بالآخر اپنے راستے سے ہٹا ہی دیا پھر ان کا داماد جانشین ٹھہرا، یہ بزدل و ڈرپوک وہی طوت النخ عامون تھا جس کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا، اس نے بت پرستی سمیت تمام جھوٹے عقائد کا احیا آپ کیا، ڈرپوک تو وہ فرعون بھی تھا جس کے روبرو حضرت موسیٰ ؑ نے کلمہ حق بلند کیا تھا، غرور کے تمام جھوٹے دعویدار بزدل ہی ہوتے ہیں، فرعون ’’رعمیسس‘‘ کا جب حضرت موسیٰ ؑؑسے سامنا ہوا تو مناظرے کے دوران اس کا پیٹ اس قدر خراب ہوا کہ بار بار محفل سے ضرورت کے پیش نظر خود کو اٹھنے پر مجبور پایا، حضرت موسیٰ ؑ کے جانے کے بعد اپنے ہمنوائوں سے کہنے لگا میں تو اسے قتل کر دیتا!! واقعہ کے مفسرین کا استدلال ہے کہ اسے روکا کس نے تھا!؟ ہر خائن ، ہر غاصب اور ہر استحصالی بزدل ہی ہوتا ہے، اس کا ہتھیار وہ ہتھکنڈے، جھوٹ ، مکرو فریب ہوتا ہے جسے بروئے کار لا کر وہ بہادروں کو بھی غلام بنا کر رکھ دیتا ہے۔ پاکستان میں یہی مکرو فریب زوروں پر ہے،چند ہاتھوں نے کروڑوں کو اپنا دستِ نگر بنا رکھا ہے، سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں ’’کیا یہ (مملکت خداداد پاکستان میں)طے کر لیا گیا ہے کہ عوام خواہ بھوک سے مر جائیں انہیں سستا آٹا نہیں ملے گا، لوگ بھوک سے تنگ آکر اپنے بچوں کو نہروں میں پھینک رہے ہیں، بھوک سے مرنے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی‘‘ ملاحظہ فرمائیں سیکرٹری فوڈ کیا تاریخی جواز پیش کرتے ہیں۔
’’یہ اتنا آسان کام نہیں، 18کروڑ کا معاملہ ہے ‘‘جسٹس جواد صاحب نے جھنجھوڑا’’ انگریز نے بھی تو انتظام کیا تھا ‘‘اب سیکرٹری فوڈ کی مسلمانیت و پاکستانیت جاگ اٹھتی ہے اور قولِ سدید پر آمادہ ہوتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں ’’پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں غریبوں کے ساتھ ساتھ ارب پتی لوگ بھی سبسڈی لیتے ہیں، میرپورخاص میں تعیناتی کے دوران ان کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ انگریز دور کا یہ اصول تھا کہ اگر ایک خاص تاریخ تک بارش نہ ہو تو ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ شہریوں کیلئے خوراک، پانی یہاں تک کہ جانوروں کیلئے چارے کا بندوبست کرے‘‘۔ مرحوم و مغفور خان عبدالولی خان طنزاً کہا کرتے تھے ’’ان کالے انگریزوں (پاکستانی حکمران اشرافیہ) سے تو وہ گورے انگریز اچھے تھے جو گھی، دودھ، مکھن اگر خود کھاتے تھے تو لسی تو ہمیں دیتے تھے یہ تو وہ بھی نہیں دیتے!!‘‘
قرآنِ عظیم میں ہے ’’وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ( ضرورت مندوں پر) خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خبر دی جائے ’’ اب ہم مسلمانوں کا عقیدہ ظاہر ہے وہ تو نہیں ہے کہ جو فرعونوں کا تھا کہ دوبارہ جی اٹھ کر پھر یہی خزانے کام آئیں گے!! پھر استحصال کی ہر نئی شکل اسلامی جمہوریہ میں روا اور یوں رواں کیوں ہے!؟ پاکستان میں انقلاب کی بشارتیں خوب اور ہم جیسے رومانیت پسندوں کیلئے خوب تر، لیکن تمام تر زرخیزی کے باوجود کیا ایک بھی ایسا رہبر جو رہزن نہ ہو دستیاب ہے!؟ بزدلوں کے مقابل کسی حق گو کے آثار بھی ناپید ، روایت شکن کسی اخناطون کی پذیرائی کے امکانات معدوم۔ یہ تسلیم کہ ہم عوام بھی بنی اسرائیلیوں کی طرح ایسے مخمور کہ جس نے بھی ذرا جلوہ دکھایا تو اسی صنم کے دارو رسن پر جھولنے لگے لیکن ہماری سادگی بھی شامل عذر رہے کہ جلوہ، جلوہ نما نہیں ہوتا، دکھایا کچھ اور ہوتا کچھ ہے۔ بلا شائبہ مایوسی کفر ہے، جمہوریت ہی تمام عوارض کا پائیدار علاج ہے لیکن کیا پاکستان میں ہر شے کی طرح جمہوریت بھی دو نمبر نہیں!! پھر ملاوٹ شدہ دوا سے علاج کیونکر ممکن ہے۔ وزیر خزانہ کا ارشاد عالیہ ہے’’ معیشت پٹڑی پر آگئی ہے، مہنگائی کم ہوگئی ہے‘‘ جھوٹ ، سفید جھوٹ ... کہاں اور مملکت خداداد کے کس نگر میں اشیائے ضرورت کے نرخ کم ہوگئے ہیں ؟بلکہ نوبت تو اب یہاں تک آگئی ہے کہ سپریم کورٹ بھی حکم کے بجائے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دینے پر مجبور ہے، سانگھڑ میں تیل کے کنوئوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے’’یہ کیسی جمہوریت ہے لوگوں کو فائدہ نہیں مل رہا اور ہم کشکول بدست پھر رہے ہیں‘‘..... صدقے جائیے ایسی جمہوریت کے کہ جس میں اشرافیہ کے کُتے بھی شراب و کباب سے بدمست ہورہے ہوں اور غریب کے بچے کیلئے صرف قبر کا سینہ ہی آخری پناہ گاہ ہو۔
تازہ ترین