• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم سلیم صافی ایک سنجیدہ اور ذمہ دار صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے گزشتہ کالم میں عمرانی معاہدے کے ضمن میں کچھ مزید دلائل کا اظہار کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا طرز تحریر اس قدر شائستہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کرتے ہوئے کسی بدمزگی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ تمدنی مکالمہ فریقین کے اخلاص کا مفروضہ قبول کرنے سے آگے بڑھتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو حقیقت پر اجارے کا دعویٰ کرنا زیب نہیں دیتا۔ صافی صاحب کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ سیاست میں مثالیت پسندی کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے۔ نعرے بازی میں سستی جذباتیت تو آسودہ ہو جاتی ہے لیکن تدبر ہوشمندی کا تقاضا کرتا ہے۔ قوم کے مفاد میں اگر بزدلی اور موقع شناسی کا الزام بھی اٹھانا پڑے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خاکسار نے ہرگز پرویز مشرف صاحب کو لتاڑنے کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ 12 اپریل کو اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ پرویز مشرف والے قصے کو لٹکانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ انہیں وطن سے باہر جانے دیا جائے۔ میری گزارش یہ تھی کہ آرٹیکل چھ کی تلوار لہرانے کے بجائے جمہوریت کے تسلسل کی مدد سے ایسی اجتماعی ثقافت کی طرف بڑھنا چاہئے جس میں غیر آئینی مداخلت کی نفسیات ہی ختم ہو جائے تاہم آئین میں فوج کا کردار متعین کرنے کی تجویز قطعی طور پر مختلف فکری تناظر رکھتی ہے اور اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے۔ سلیم صافی صاحب کی اس رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ فوج کا کردار اسی وقت تک غیر آئینی ہے جب تک اسے آئین کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ آئینی ترمیم کی صورت میں ایسی مداخلت آئینی نوعیت اختیار کر لے گی۔ سلیم صاحب کی اس تجویز کی عملی صورت یہ ہے کہ فوج کا کردار تو متعین ہو جائے گا لیکن آئین کا اپنا کردار مخدوش ہو جائے گا۔ ہمارا آئین پارلیمانی جمہوریت کو ملک کا طرز حکومت قرار دیتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں فیصلہ سازی کا استحقاق عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے۔ اس فیصلہ سازی سے اجتماعی ترجیحات طے پاتی ہیں اور قوم کی سمت متعین ہوتی ہے۔ پاکستان کو بیرونی دنیا سے کس طرح کے تعلقات استوار کرنا ہیں؟ تعلیم اور صحت عامہ پر کیا اخراجات ہوں گے؟عوام کے معیار زندگی میں کس طرح بہتری لائی جائے گی؟ زرعی اور صنعتی شعبے میں کس طرح توازن پیدا کیا جائے گا۔ تجارت کو کیسے ترقی دی جائے گی، یہ سب فیصلے کرنا عوام کے منتخب نمائندوں کا اختیار ہے۔ ملک کی آزادی کا مطالبہ ہی اس اصول کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ اس سرزمین کے باشندے یہاں حکومت کا حق رکھتے ہیں۔ لوگوں کے اس حق میں کسی ریاستی ادارے کو شریک کرنے سے یہ ملک متعلقہ ادارے کی کالونی میں تبدیل ہو جائے گا۔ گویا ہم باضابطہ طور پر قومی آزادی کی نفی کریں گے۔ پاکستان ایک وفاق ہے جس کی اکائیوں میں احساس شراکت کو یقینی بنانے کے لئے آئین میں ایک نازک توازن قائم کیا گیا ہے۔ ہماری فوج میں ملک کے ایک خاص جغرافیائی خطے سے نمائندگی زیادہ ہے۔ گویا اس تجویز کا مطلب چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو دوام بخشنا ہو گا۔
اس میں یہ سوال بھی وضاحت طلب ہے کہ فوج کے کردار کا دائرہ کار کیا ہوگا اور اس سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے؟ کیا اس میں یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ عوام کے نمائندے اپنی قومی فوج کے مفادات کا کماحقہ تحفظ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ اگر ایسا ہے تو یہ مفروضہ بے بنیاد ہے۔ پاکستان کے سیاسی قائدین تو ہمیشہ فوج کی صلاحیت بڑھانے کے لئے کوشاں رہے۔ درون خانہ شواہد سے قطع نظر متعدد غیر ملکی مصنفین کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی اور بھٹو صاحب سے لے کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف تک سیاسی قائدین نے ہمیشہ فوج کی مضبوطی اور ترقی کے لئے انتھک کوشش کی۔ یہ ایک طرفہ صورت حال تھی کہ اندرون ملک ان سیاسی قائدین کو کچوکے لگائے جاتے تھے اور لیلائے وطن کے یہ متوالے اپنے ملک کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لئے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک جاتے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا، کوئی صحیح الدماغ رہنما اپنے ملک کی فوج کو کمزور کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تصویر کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں سویلین قیادت کی صلاحیتوں پر اعتماد کی روایت ہمیشہ کمزور رہی ہے تاہم ریاستی اداروں کی افرادی قوت بھی اسی معاشرے سے کشید کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں سمجھا جائے کہ پاکستانی شہری ریاست کے اہلکار ہوں تو دنیا بھر کی فراست ان کے دماغ عالیہ پر اترتی ہے اور اگر وہ عوام کی تائید سے کسی ریاستی منصب پر فائز ہوں تو نرے پھسڈی ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں فوج یا کسی بھی ریاستی ادارے کی کارکردگی پر سرعام تبصرہ کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ملک کے وقار کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے تاہم فوج کے چار سربراہ مملکت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے اور ان کی کارکردگی ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی۔ ایوب خان کے فیصلوں سے قومی سلامتی اور معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے۔ یحییٰ خان نے آدھا ملک گنوا دیا۔ ضیاالحق کی افغان پالیسیوں کا خمیازہ ہم دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اسلامائزیشن کی مہم کا نتیجہ یہ رہا کہ آج پاکستان اشتعال انگیزی کے سوداگروں کے ہاتھوں یرغمالی بن چکا ہے۔ پرویز مشرف کا عشرہ زیاں تو ماضی قریب کا قصہ ہے۔ ان تمام ادوار کا ایک مشترک نتیجہ یہ رہا کہ ہماری سیاسی ثقافت ، معاشرتی اخلاقیات اور ادارہ جاتی شفافیت کی نیا ڈوب گئی۔ ہمارے اجتماعی تجربے سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ کلیدی فیصلہ سازی پر فوج کا اختیار قومی مفادات کے بہترین تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔ 1985ء سے 1997ء تک اسمبلیاں توڑنے کا صدارتی اختیار آئین کا حصہ تھا۔ کیا اس دوران ہمیں سیاسی استحکام نصیب رہا؟ نواز شریف نے 1999ء کے موسم خزاں میں پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ ہونے کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا عہدہ بھی دے دیا۔ کیا پرویز مشرف کی بلند فکری میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی؟ ہماری تاریخ میں فوجی مداخلتیں سیاستدانوں کی نااہلی یا عدم تعاون کی وجہ سے رونما نہیں ہوئیں۔ یہ حادثے تو کسی کی الوالعزمی کا شاخسانہ تھے۔ نظریہ ضرورت ایک غیر اخلاقی تصور ہے جس کی کوکھ سے ملکی ترقی اور استحکام کی کونپل نہیں پھوٹ سکتی۔اس ضمن میں ترکی کی مثال دینا مناسب نہیں۔ ترکی کی فوج نے آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔ ہمیں قائد اعظم اور دوسرے سیاسی قائدین نے آزادی دلائی تھی۔ ہمارا تاریخی تجربہ ترکی سے میل نہیں کھاتا۔ یہ کوئی مناسب رویہ نہیں کہ ہم پانچ برس بنگلہ دیش ماڈل کی چاپ سنتے رہیں اور پھر اگلے پانچ برس ہمیں ترکی کی چتائونی دی جائے۔
محترم سلیم صافی نے پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں چند تکلیف دہ حقائق اور واقعات کا ذکر کر کے سوال کیا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور سیاسی قیادت اسے روکنے میں بے بس ہے تو اس صورت حال کو باقاعدہ کتاب آئین کا حصہ کیوں نہ بنا لیا جائے۔ دیکھئے اس میں ایک اشارہ تو یہی ہے کہ خود صافی صاحب نے بھی مذکورہ معاملات کو احسن قرار نہیں دیا۔ استاذی عزیز صدیقی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ لاقانونیت کو قانون قرار دینے سے خرابی دور نہیں ہو جاتی۔ آصف زرداری کے دور صدارت میں ہمیں بتایا جاتا رہا کہ سیاسی حکومت غیر ضروری طور پر طالبان کے خلاف کارروائی کی حامی ہے اور اب خبر یہ ہے کہ سیاسی قیادت غیر ضروری طور پر طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ پرویز مشرف اعلان لاہور کو قومی مفاد کے منافی سمجھتے تھے لیکن خود ان کے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر کی گرم بازاری رنجک چاٹ گئی۔ شاید اصل سوال قومی مفادات کے تحفظ کا نہیں، قومی مفاد کے تعین پر اجارے کا ہے۔
تازہ ترین