• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں جناب پرویز جامعی کا ایک حسب ِحال شعر نظر سے گزرا
گھر کو سنبھالنے میں سبھی ہیں لگے ہوئے
اینٹیں نکلتی رہتی ہیں حالات کی مگر
معلوم نہیں کہ یہ ہم پر کسی بدروح کا سایہ ہے یا ہماری ناشکری کا سیاپا ہے کہ ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی شامِ غریباں بپا رہتی ہے۔ حالات پہلے سے بہت بہتر ہونے کے باوجود بڑے ابتر دکھائی دیتے ہیں۔ فصلیں بہت اچھی ہو رہی ہیں ، اناج ، سبزیوںاور پھلوں کی فراوانی ہے جنہیں دیکھ کر بے اختیار اﷲ کا شکر ادا کرنے کو جی چاہتا ہے ،مگر وہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ کشادہ سڑکیں ہیں ،دیہات میں خوبصورت مکانات نظر آتے ہیں، موٹر سائیکلوں ،موبائل ٹیلی فونز کی ریل پیل ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام دو وقت کی روٹی کھا رہے اور چھت کے نیچے سر چھپائے ہوئے ہیں ، لیکن رونا پیٹنا پھر بھی ہے کہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ مجھے ایک بار بھارت کے معاشی دارالحکومت ممبئی جانے کا اتفاق ہوا اور میں یہ دیکھ کر وحشت زدہ ہو گیا کہ بلامبالغہ لاکھوں مرد ، عورتیں اور بچے فٹ پاتھوں پر ننگ دھڑنگ سوئے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا کہ ایسا منظر پاکستان میں کہیں نہیں دیکھا اور ہمارے لوگ ایک بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہم نے پاکستان کو جو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا اور جس کا ٹھوس اور حقیقی تصور حضرت قائداعظمؒ نے اپنی تقاریر اور بیانات میں بار بار پیش کیا تھا ، ہم اِس کی تعبیر حاصل نہ کر سکے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام صحیح معنوں میں قائم نہیں ہوا اور محنت کشوں ، مزدوروں ، ہاریوں اور مزارعین کے تلخ اوقات آسودگی اور خوشحالی میں تبدیل نہیں ہو پائے ، تاہم اِن کے حالات میں بھی کسی قدر بہتری آتی جا رہی ہے اور عوام کے اندر بیداری کے باعث ایک ایسی فضا قائم ہونے لگی ہے جس میں پانچ فی صد سیاسی اشرافیہ کو پچانوے فی صد وسائل پر قبضہ جمائے رکھنا محال ہو جائے گا۔ گزشتہ حکومتوں کی نااہلی ، بدانتظامی اور بے بصیرتی کے باعث توانائی کا بحران بھی پیدا ہوا ، مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی ہولناک اضافہ ہوتا گیا اور حکومت کا ڈلیوری سسٹم عملاً مفلوج نظر آتا ہے اور عام آدمی کی قوتِ خرید میں بہت کمی واقع ہوتی جا رہی ہے ، تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک میں پہلی بار ایک سول حکومت نے دوسری سول حکومت کو پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل کیا اور انتخابات میں رائے دہندگان کو اپنے نااہل حکمرانوں کو مسترد کرنے کا موقع ملا۔ اِس حیات بخش عمل نے قوم کو اُمید کی مستانہ ہواؤں سے بے خود کر دیا اور نئی منزلیں تلاش کرنے کی آرزو کروٹیں لینے لگی ، لیکن صرف گیارہ مہینوں کے عرصے میں بعض ایسی شورشوں نے سر اُٹھایا کہ بظاہر حالات گرفت سے باہر ہونے لگے۔
زندہ معاشروں میں سیاسی حادثات بھی ہوتے ہیں اورسماجی اور طبقاتی تضادات بھی اُبھرتے ہیں ، لیکن اُن پر قابو پانے کا ایک میکانزم بھی موجود ہوتا ہے۔ سیانے لوگ سر جوڑ کر بیٹھ جاتے اور مسئلے کا حل تلاش کر لیتے ہیں ، لیکن میں گزشتہ تین چار ہفتوں سے جو کچھ دیکھ رہا ہوں ، اِس نے اعصاب توڑ ڈالے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے درمیان رجل رشید ناپید ہیں یا تعداد میں بہت کم رہ گئے ہیں اور جو ہیں وہ ذمے داریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر ہوشمندی اور بصیرت سے کام لیا جائے تو بڑے سے بڑے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے اور بہت دیر کر دی جائے، توسنپولیے اژدھے بن جاتے اور بہت خوف و ہراس پھیلاتے ہیں۔ بادی النظر میں تین چار بڑے بڑے تنازعات نے قومی زندگی میں ایک عجب ارتعاش پیدا کر رکھا ہے۔ ایک تنازع حکومت اور فوج کے درمیان بتایا جاتا ہے جو مختلف اسباب سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف تجزیہ نگاروں کے مطابق فوج پرویز مشرف پر آئین سے بغاوت کا مقدمہ چلانے پر ناخوش ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فوجی قیادت طالبان سے مذاکرات کے عمل سے بھی غیر مطمئن ہے ، کیونکہ فوجی افسروں اور جوانوں پر حملے جاری ہیں اور فوج کے لیے اپنے سرفروشوں کی لاشیں اُٹھاتے رہنا ناقابلِ برداشت ہو گیا ہے۔ جیو پر آٹھ گھنٹے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے خلاف حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر کا جو بیان چلتا رہا ، اُس نے بھی فوج کی برہمی میں شدید اضافہ کر دیا ہے اور اِسے حکومت سے یہ شکایت پیدا ہوئی ہے کہ اُس نے اِس یلغار کو بروقت روکنے کی سرے سے کوئی کوشش نہیں کی اور جب آئی ایس آئی نے وزارتِ دفاع کے ذریعے پیمرا سے شکایت کی ، تو حکومت کے بعض عناصر کی طرف سے اِس میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئیں جبکہ فوج کا منہ چڑانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اِس پوری صورتِ حال کے غیر جانب دارانہ تجزیے سے جو حقائق سامنے آئے ہیں، اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اُن کی اصلاح کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ الیکٹرانک میڈیا میں ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط اورمحتسب کا ادارہ قائم کرنے پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ دوسری یہ کہ پیمرا الیکٹرانک میڈیا کو قانونی ضابطوں کے اندر کام کرنے کے لیے ایک مؤثر کنٹرول کے نفاذ میں ناکام رہا ہے۔ اِس بنا پر بعض چینلز ضرورت سے زیادہ خودسر ہو گئے ہیں اور وہ نو عمر اینکر پرسن جو قومی سلامتی کی نزاکتوں سے واقف نہیں ، بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں۔ خارجہ اور دفاعی امور غیر معمولی احتیاط اور دوربینی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریاست کی سطح پر اِس امر کا اہتمام ازبس ضروری ہے ، ورنہ کم نظر اور کم فہم عناصر طرح طرح کے بحران پیدا کرتے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ جنگ انتظامیہ جو معاملے کی اونچ نیچ کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور قومی مفادکی حساسیت سے پوری طرح واقف ہے ، اُسے اِس فروگزاشت پر معذرت کر لینی چاہیے جس پر کامران خاں کو بھی شدید تحفظات تھے جن کا انہوں نے اپنے پروگرام میں تفصیل سے ذکر بھی کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جنگ انتظامیہ کومحتسب کا ادارہ قائم کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اِس ایک پیش رفت سے اِس تناؤ میں بہت کمی آ جائے گی جو کئی اداروں کے درمیان شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن عناصر کو بھی لن ترانیوں سے روکنا ہو گاجو فوج پر سنگ باری کو بہت بہادری سمجھ رہے ہیں۔ قدآور صحافتی ، سیاسی اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے مصالحت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ فوجی قیادت کو آخرکار اِس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا کہ پرویز مشرف کا عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے سے اِس ادارے کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ اِسی طرح حکمران جماعت کے اندر جو صاحبانِ نظر موجود ہیں وہ بھی اِس امر کا اہتمام کریں کہ حکومت اور فوج کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی فروغ پائے اور بے اعتمادی کی آگ سرد پڑتی چلی جائے۔ میرے خیال میں کراچی میں امن و امان کے حوالے سے 14مئی کو جو اجلاس ہوا ، وہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اِس موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ فوج پوری دیانت داری سے حکومت کے ساتھ ہے اور کراچی آپریشن کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے ، تاہم اِس اعلان کے ساتھ ساتھ سول ملٹری تعلقات کے لیے باہمی اعتماد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رہا جناب عمران خاں اور شیخ الاسلام کی مشقِ ناز ،تو اِس کا ذکر اگلے ہفتے ہو گا ، ان شاء اﷲ۔
نوٹ:میرے گزشتہ کالم میں طالبان کے بجائے پارلیمان شائع ہوا جس سے جملے کا مفہوم بدل گیا۔
تازہ ترین