• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے روز صحت کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ ایک تو اس تقریب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی یہ اردو زبان میں منعقد کی گئی۔ ورنہ ہمارے ہاں سابق دور حکومت میں یہ روایت فروغ پا چکی تھی کہ ہر تقریب انگریزی میں ہوتی تھی۔ بہرحال میاں نواز شریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف نے یہ اچھا قدم اٹھایا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان یعنی اردو میں تقریبات کی ساری کارروائی کراتے ہیں۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ جونہی تقریب ختم ہوئی تو ٹانگوں سے معذور خاتون جو واکر کی مدد سے ہال میں آئی تھی، اس نے کھڑے ہو کر میاں صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ میں پولیو کی مریضہ ہوں اور اس وقت گریڈ بیس کی پروفیسر ہوں، میں نے اپنی زندگی جس مشکل اور اذیت کے ساتھ بسر کی ہے یہ میرا خدا ہی جانتا ہے اور جس طرح آپ نے ڈینگی کے خاتمہ کے لئے اور تھیلسیمیا کے مرض کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے اس طرح پولیو کے خلاف بھی جہاد شروع کریں۔
خاتون کی بات بالکل درست مگر جناب والا ہمارے ملک میں پولیو کی ٹیموں پر جس طرح حملے کئے گئے اور ایک خبر کے مطابق اب تک پچاس سے زائد پولیو ورکرز کو مار دیا گیا تو ان حالات میں حکومت بیچاری پولیو کے خلاف کیا جہاد کرے گی؟ اور کس طرح ہم آنے والی نسلوں کو پولیو سے بچا سکیں گے؟ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ابھی تک پولیو فری نہیں ہوسکا جبکہ بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) اور بھارت پولیو فری ملک بن چکے ہیں۔
دنیا میں 1950ء میں پولیو کی ویکسین سامنے آئی۔ اس کے موجد ڈاکٹر ہیلری کاپر ووسکی تھے۔ جن کا انتقال گزشتہ برس 96 برس کی عمر میں امریکہ کی ایک ریاست پنسلوانیا کے شہر فلاڈلفیا میں ہوا۔ اس نیک بندے نے دوسری جنگ عظیم کے دوران پولیو کے خلاف ویکسین کی تیاری کا کام شروع کیا، تجربات کئے اور آخرکار پولیو کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ آج دنیا میں روزانہ پیدا ہونے والے لاکھوں بچے اس شخص کی وجہ سے زندگی بھر کی معذوری سے محفوظ ہو رہے ہیں اور ہم اپنے ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کو معذوری کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ایک طرف تو عالمی ادارہ صحت یہ اعلان کر رہا ہے کہ دنیا سے جلد ہی پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا دوسری طرف 2012ء میں پوری دنیا میں 223 پولیو کیس سامنے آئے جن میں سے 217 کیسز نائیجیریا، افغانستان اور پاکستان سے ہیں۔ 122 بچے پولیو کا شکار نائیجیریا میں، 58 پاکستان میں اور 37 افغانستان میں ہوئے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف تو ہمارے ملک میں میٹرو بس، میٹرو ٹرین، سولر انرجی اور پاور انرجی جیسے اہم منصوبے سامنے آرہے ہیں تو دوسری طرف آج پاکستان کا شمار پولیو کے حوالے سے نائیجیریا اور افغانستان جیسے انتہائی پسماندہ ممالک میں ہو رہا ہے۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں آئندہ آنے والے برسوں میں ہمارا شمار کہیں پہلے نمبر پر نہ آجائے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں ہمارے داخلے پر پابندی ہے کہ جب تک ہم پولیو کا سرٹیفکیٹ فراہم نہ کریں یا ایئر پورٹ پر پولیو کے قطرے نہ پی لیں، اس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔
پولیو ورکرز پر حملے کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ ملک میں ایسا لٹریچر بھی پایا جا رہا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ پولیو کے قطرے پینے سے انسانی تولیدی قوت سے محروم ہو جاتا ہے اور امت مسلمہ کو اس طرح کم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان قطروں کو پینے والا بچہ ایڈز میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ایڈز کن وجوہات سے ہوتی وہ آج ہر انسان کے علم میں ہے اوریہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس میں خنزیر کے اجزاء شامل ہیں۔ پاکستان اور نائیجیریا میں جو پولیو ورکرز پر حملے کئے گئے اس کے پیچھے یہی دو نظریات اور سوچ ہے۔ نائیجیریا میں بھی 20 کے قریب پولیو ورکرز کو مارا گیا۔ ہمارے ہاں حکومت کو دو مرتبہ پولیو کی مہم کو ملتوی کرنا پڑا جس سے 14 لاکھ بچے پولیو کے قطرے مقررہ تاریخ پر پینے سے محروم رہ گئے تھے۔
نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت اور عالمی ادارہ صحت نے ہر اس شخص پر یہ لازم قرار دیا ہے جو پاکستان سے باہر سفر کرے گا وہ پولیو ویکسین کے قطرے پینے کا سرٹیفکیٹ پیش کرے گا اور جو غیر ملکی پاکستان میں ایک ماہ سے زائد قیام کرے گا اس کو بھی پولیو کے قطرے پینے ہوں گے اور یہ سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کے پانی میں پولیو کے وائرس پائے گئے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت اور افسوس ہوگا کہ لاہور اور کراچی کے گٹر کے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ ابھی پتہ نہیں کن کن بیماریوں کے وائرس اور جراثیم ہمارے پانی میں موجود ہیں۔ یہ حالات تو لاہور اور کراچی کے ہیں۔ چھوٹے شہروں اور دیہات کا تو پھر اللہ ہی حافظ ہوگا۔ اس وقت ملک کے کئی علاقوں کے بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں اور ابھی بھی حالات یہ ہیں کہ فوج کی نگرانی میں پولیو کے قطرے پلانے والے ورکرز کو جانا پڑتا ہے۔ دوسری طرف فوج نے حکومت سے 60ہزار پولیو کی ویکسین مانگی ہے جو وزارت صحت نے دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے کیونکہ ان کے پاس اتنی بڑی مقدار میں پولیو کی ویکسین نہیں۔ ایک طرف تو وزیراعظم نواز شریف پولیو کیخلاف ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف ملک میں ویکسین نہیں مل رہی۔ لاہور اور کراچی کے گٹروں کے پانی کو چیک کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ پولیو وائرس اس پانی میں موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں شہروں اور دیگر شہروں کے جو لوگ یہ پانی استعمال کر رہے ہیں اس میں پولیو وائرس موجود ہے اور اب بچوں کے علاوہ بڑے بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حکومت کا یہ اقدام باعث تحسین ہے کہ کے پی کے اور وزیرستان میں فوج پولیو ورکرز کی حفاظت کرے گی اور وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ خود اس مہم کی مانیٹرنگ کرینگے۔ اگر وزیراعظم نے خود مانیٹرنگ کی تو یقیناً پاکستان پولیو فری کنٹری بن جائے گا۔ اس سلسلے میں پنجاب میں خواجہ سلمان کو وزیراعلیٰ نے ٹاسک دیا ہوا ہے کہ وہ پولیو کی ٹیموں کی خود نگرانی کریں۔ قومی اسمبلی میں پولیو کے خاتمے کے لئے قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے اور ہر حلقے کے ایم پی اے اور ایم این اے کو کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں پولیو کی مہم میں خود شریک ہوں۔
اس وقت پنجاب میں 20 لاکھ ویکسین کی ضرورت ہے جبکہ صوبے کے پاس صرف 4 لاکھ ویکسین موجود ہے اور مزید ویکسین خریدنے کے لئے تین کروڑ روپے درکار ہیں جو حکومت فراہم کر رہی ہے۔ اس وقت اہم بات یہ ہے کہ عمران خان ویسے تو بہت شور مچاتے ہیں لیکن ان کے اپنے صوبے میں پولیو کے کیسز سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے جس طرح صاف پانی کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے اس بات کا تقاضا ہے کہ باقی صوبوں میں بھی ایسی مہم شروع کی جائے۔ پھر پورے ملک کے شہروں اور دیہات کے پانی کو کچھ عرصہ بعد چیک کیا جائے۔ انگریز بہادر کے دور میں لاہور کا پانی لاہور میڈیکل سکول کے پرنسپل (اب کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی) چیک کیا کرتے تھے۔ اگر ہم نے پولیو ورکرز پر اس طرح حملے جاری رکھے تو آئندہ چند برسوں میں اس ملک میں اپاہج لوگوں کا جم غفیر پیدا ہو جائے گا۔
تازہ ترین