• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں پاکستان میں انتخابات میں جیت ہوتی ہے یا دھاندلی،،11 مئی 2013ء کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات ہوئے۔ انتخابات میں لوگ بھی ووٹ ڈالنے کے لئے خوب نکلے اور 55 فی صد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور ووٹروں کے رجحانات سے متعلق جو ملکی اور بین الاقوامی جائزے سامنے آئے تھے نتائج کم وبیش ان کے مطابق ہی رہے۔خیبر پختونخوا کی سابق حکومتی جماعت اے این پی کو صوبے میں شکست ہوئی،مرکز کی سابق حکومتی جماعت کا سب سے بڑے صوبے پنجاب سے صفایا ہو گیا لیکن دھاندلی کا سب سے زیادہ شور مچا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جسے ان انتخابات میں پارٹی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ملی، عموماً دھاندلی کا شور ہارنے والے امیدوار اپنی فیس سیونگ کے لئے مچاتے ہیں اور انتخابات کو چند ہفتے یا مہینے گزرنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کے الزامات کا سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔عمران خان جو انتخابات سے قبل کہا کرتے تھے کہ ان کے مخالفین ایمپائرز کو بھی ساتھ ملالیں پھر بھی جیت نہیں سکیں گے۔ انتخابات کے بعد تو میڈیا(جیو،جنگ گروپ) کو بھی مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا جس کا اس انتخابی میچ میں کردار ایک کمنٹیٹر جیسا ہی تھا۔انہوں نے یہ تو کہہ دیا کہ سرگودھا کے ایک حلقے میں جہاں میاں نواز شریف امیدوار تھے ایک پولنگ اسٹیشن پر کل پندرہ سو ووٹرز تھے اور ڈالے گئے 8 ہزار ووٹ، جب کسی پولنگ اسٹیشن پر گنتی ہوتی ہے تو وہاں میڈیا اور تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں انہیں نتیجے کی نقول بھی دی جاتی ہیں تو کیا خان صاحب کی جماعت کا پولنگ ایجنٹ بھی میچ فکسنگ میں شامل تھا پھر خان صاحب کا نشانہ ’’جیو ‘‘ بنا جس نے رات سوا گیارہ بجے ہی نواز شریف کی فتح کی تقریر نشر کردی۔ پہلی بات ایسی تقریر کرنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا اور وہ تقریر تمام چینلوں نے دکھائی۔ ویسے دیکھا جائے تو خان صاحب کی تو انتخابات سے قبل کی تمام تقاریں ہی فتح کی تقریریں تھیں۔ دوسری بات وہ تقریر پولنگ مکمل ہونے کے چھ گھنٹے بعد کی گئی۔ اس وقت تک سوائے چند حلقوں کے جہاں سخت مقابلہ ہوتا ہے اکثر کے نتائج سامنے آجاتے ہیں کم ازکم امیدواروں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ جیتے یا ہار گئے۔یہ تو بات تھی خان صاحب کے الزامات کی، جہاں تک بات ہے ان کے مطالبات کی تو ان کا مطالبہ ہے الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفے کا ۔ تو الیکشن کمیشن کے ممبران کو اس حوالے سے صرف کسی سنگین الزام پر سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات ان ممبران کی مدت جون 2016ء میں ختم ہو گی جبکہ آئندہ انتخابات 2018ء میں ہونے ہیں تو آئندہ انتخابات سے قبل نیا الیکشن کمیشن تشکیل دینا ہی ہو گا۔ دوسرا مطالبہ ہے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق تو یہ معاملہ عدالت میں ہے اور عدالت نے ہی طے کرنا ہے،رہابائیومیٹرک سسٹم کامطالبہ تو اس مطالبے پر تو پہلے سے کام ہو رہا ہے اور الیکشن کمیشن نے اپنے 5 سالہ اسٹریٹجک پلان میں آئندہ انتخابات بائیومیٹرک سسٹم کے تحت کرانے کا اعلان بھی کیا ہے، رہا غیر جانبدار نگران حکومتوں کا مطالبہ تو یہ پہلے ہی آئین میں ہے کہ نگراں حکومتیں اپوزیشن اور حکومت کی مشاورت سے بنیں گی۔ اب مئی 2013ء کے انتخابات کے کچھ اعداد و شمار دیکھیں تو ملک بھر میں جن نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں ان کی تعداد8 سو 49 ہے،دھاندلی کی کل شکایات موصول ہوئیں 4 سو 35 یعنی تقریباً آدھی نشستوں پر انتخابات کے خلاف کوئی شکایت نہیں ملی۔ جو شکایات آئیں ان میں سے زیادہ تعداد خارج ہو گئیں۔ کئی حلقوں میں امیدوار نااہل ہوئے اور انتخاب کالعدم قرار دیا گیا کہیں دوبارہ گنتی اور کہیں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق بھی ہوئی، کچھ حلقوں میں خود تحریک انصاف کے امیدواروں کی دھاندلی ثابت ہوئی۔ ملک بھر میں 14 الیکشن ٹریبونل قائم کئے گئے تھے،،ٹریبونلوں نے ایک سو 20 دن میں درخواستوں پر فیصلے کرنا تھے، ان ٹریبونلوں کے قیام کو سال مکمل ہونے کو ہے لیکن ابھی ساڑھے تین سو کے قریب درخواستوں پر فیصلہ ہوا ہے۔یہ تو ایک پہلو ہے لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ انتخابی تاریخ میں پہلی بار ایک سال میں اتنی بڑی تعداد میں انتخابی شکایات کو نمٹایا گیا ہے پہلے ایسی شکایات کئی کئی سال تک فیصلوں کی منتظر رہتی تھیں۔ مستقبل میں الیکشن ٹریبونلوں کی تعداد بڑھا کر انتخابی عذرداریاں مزید کم وقت میں نمٹائی جاسکتی ہیں۔انتخابات میں بڑی تعداد میں ووٹوں کا مسترد ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے ووٹوں کا فرق اس حلقے میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد سے بھی کم تھا۔اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کیوں مسترد ہوئے ،اس معاملے کو بھی دیکھنا ضروری ہے،انتخابی نظام میں یقیناً خامیاں ہیں، انتخابی نظام کو بہتر کرنا ہے تو قانون سازی کی جاسکتی ہے۔نظام میں رہ کر ہی نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کی انتخابی عمل میں بھرپور شرکت سے بڑی تعداد میں ایسا ووٹر بھی باہر آیا جس نے کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ دھاندلی کا شور مچانے اور انتخابی نظام پر بے جا تنقید سے وہ نیا ووٹر بددل ہوگا جس کا نقصان نہ صرف عمران خان کو بلکہ جمہوریت اور انتخابی عمل کو بھی ہوگا۔ خان صاحب کے پاس ایک صوبہ ہے وہ وہاں ایک موثرانتخابی نظام متعارف کراسکتے ہیں، جس میں دھاندلی کی گنجائش کم سے کم ہو اور پورے ملک کے لئے یہ نظام ایک مثال بنے۔حکومت اچھی ہوگی،عوام کی توقعات پوری ہوں گی تو آئندہ انتخابات میں کوئی دھاندلی آپ کو شکست نہیں دے سکے گی ورنہ آئندہ انتخابات میں اپنے ساتھ ہونے والی دھاندلی(شکست) کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہوں گے۔
تازہ ترین