• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خرابی کہاں ہے؟ ہمارے جینز میں یا ہماری قسمت میں؟ کہیں نہ کہیں تو ہے؟ ورنہ پاکستان ہر روز ایک نئے بحران اور پاکستانی معاشرہ ایک نئی مصیبت میں مبتلا نظر نہ آتا۔
میڈیا کے محاذ پر باہمی سر پٹھول، دشنام طرازی اور تو تکار کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ آزادی صحافت کے لئے اخبارات و جرائد، پبلشرز، ایڈیٹرز، ورکنگ جرنلسٹس اور اس شعبہ سے وابستہ دیگر کارکنوں نے کیا کیا قربانی نہیں دی۔ اخبارات و جرائد اور اشتہارات کی بندش، قید و بند، کوڑے اور بے روزگاری کون سی سزا ہے جو آزادی صحافت کی جدوجہد میں شریک لوگوں کو نہیں ملی۔
اس ملک کے آزاد منش، دلیر اور غیرت مند صحافیوں نے صرف اپنی بقا اور آزادی کی جنگ نہیں لڑی بحالی جمہوریت اور شہری آزادیوں کی جدوجہد میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ عوامی مسائل و مشکلات اجاگر کرنے کے لئے سیاسی و سماجی تنظیموں سے زیادہ ذمہ داری نبھائی اور جب بڑے بڑے سیاسی و جمہوری سورما فوجی آمروں کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کر کے گھروں میں بیٹھ رہے یا بیرون ملک سدھار گئے تو یہ صحافی تھے جو جابر سلطان اور صابر سلطان کے سامنے پورے قد سے کھڑے کلمۂ حق کہتے رہے ؎
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خون چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
آزاد الیکٹرانک میڈیا کا وجود صحافت کے لئے نعمت مترقبہ تھا، پرنٹ میڈیا کو طاقتور کمک میسر آ گئی۔ کارکن صحافیوں اور ان کے مددگار کارکنوں کے لئے روزگار کے مواقع وسیع ہوئے اور زندگی میں اسودگی مگر آغاز ہی میں ایک غلطی بھی سرزد ہو گئی۔ نیوز چیلنجز کے لائسنس جاری کرتے ہوئے یہ امر ملحوظ نہ رکھا گیاکہ صحافتی تقاضوں اور ذمہ داریوں کا کامل ادراک رکھنے والی کس قدر تجربہ کار، ذمہ دار اور ہنر مند افرادی قوت مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ ان اداروں کی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے مارکیٹ کیپیسٹی کیا ہے اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے یہ ادارے کن حدود و قیود کے پابند ہوں گے۔ منہ زور میڈیا کے لئے طاقتور ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام از بس ضروری تھا۔
اس بنا پر نیوز چینلز کی سکرین پر ذہین، تجربہ کار، ذمہ دار اور ملکی قوانین، معاشرتی اقدار و روایات اور قومی حساسیت سے آشنا افراد کے بجائے اکثر و بیشتر نو خیز، چرب زبان، ناتجربہ کار اور میڈیا کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کے شوقین خوش شکل و تیز طرار ادا کار قابض ہو گئے۔ اچھے بھلے عزت دار، عمر رسیدہ اور اپنے اپنے شعبے میں یکتا افراد کو ان اینکرز کے ہاتھوں رسوا ہوتے دیکھ کر ہر شریف آدمی کا خون کھولتا ہے مگر یہ اسے سوال کرنے کا حق قرار دے کر اپنی یاوہ گوئی پر اتراتے ہیں۔
ایک مولانا فضل الرحمٰن کو ہم نے دیکھا کہ وہ کسی اینکر کو خواہ مخواہ بے تکلف ہونے کی اجازت دیتے ہیں نہ اپنی درگت بنانے کا موقع۔ ورنہ بڑے بڑے قائدین بھیگی بلی بنے ان کی لخت سست سنتے اور خون کے گھونٹ پیتے ہیں۔ البتہ مدمقابل کوئی دولت مند، طاقتور اور با اختیار ہو تو یہ منہ پھٹ اور بے باک خود ہی مودب عجز و انکسار کا پیکر اور شرافت کی تصویر بن جاتے ہیں ؎
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
29؍ اپریل کو ایرر آف ججمنٹ اور 14؍ مئی کو غلطی بلکہ صحافت سے انکار کسی کو نہیں۔ اپنی ہی سکرین اور صفحات پر اعتراف اور تنقید کی نشر و اشاعت بھی اس ادارے کا طرئہ امتیاز ہے۔ مگر ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کاروباری رقابت اور پیشہ ورانہ حسد غیر ذمہ دارانہ منفی پروپیگنڈے اور فساد فی الارض کو ہوا دینے کا سبب بنے ہوں۔ کسی اخباری ادارے نے مخالف کی بندش پر اصرار کیا ہو۔ سول اینڈ ملٹری گیزٹ کی بندش کے بعد سب سنبھل گئے اور یہ سبق حاصل کیا کہ مشکل کی گھڑی میں آج ہم نے کاروباری مدمقابل سے حساب چکانے کی کوشش کی تو کل ہماری باری بھی آ سکتی ہے۔ اس بنا پر صحافتی پس منظر کے حامل میڈیا ہائوسز کا طرز عمل محتاط، ذمہ دارانہ اور کسی نہ کسی حد تک غیر جانبدارانہ ہے۔ لگائیبجھائی سے گریز کرنے والے جانتے ہیں کہ غلطی ہر ایک سے ہو سکتی ہے، اس طرح کی افتاد کسی پر بھی پڑ سکتی ہے لہٰذا احتیاط بہتر۔
مہذب معاشروں میں میڈیا کا کردار معلم اور مصلح کا ہے یا نقاد کا، پھپھے کٹنی کا کردار زرد صحافت ادا کرتی ہے جسے مہنگائی و لوڈ شیڈنگ کے ماروں، بیروزگاروں اور ریاستی اداروں پولیس، محکمہ مال اور محکمہ انہار کے ستم رسیدہ عوام کی فکر ہوتی ہے نہ حکمرانوں کی غلط ترجیحات کے سبب قومی وسائل کی بربادی کا غم، ذمہ داری کے بغیر آزادی صحافت کا تصور کسی مہذب معاشرے میں ہے نہ بندر کے ہاتھ میں استرا دے کر اپنا گلا کٹوانے کا شوق کسی ہوش مند قوم کو ہو سکتا ہے۔
امریکہ یورپ کے کسی چینل پر لڑکوں بابوں کو ہم نے قومی اور بین الاقوامی امور کے ماہرین اور معاشرے کے قابل احترام افراد کی داڑھیاں نوچتے کبھی دیکھا ہے نہ الفاظ کے درست استعمال سے نابلد، صحافتی تقاضوں اور ملکی قوانین، تہذیبی اقدار، مذہبی و قومی حساسیت سے قطعی ناآشنا نو عمر، ناتجربہ کاروں کو لاکھوں افراد کی دلوں کی دھڑکن سیاستدانوں، علماء دانشوروں اور قابل احترام شخصیات سے الجھتے اور نہ حساس و نازک ریاستی، مذہبی، معاشرتی موضوعات پر مرغوں کی لڑائی کا سماں پیدا کرتے۔
میری عمر کے اخبار نویسوں کو اساتذہ نے ابتدا ہی میں اچھے صحافی کی یہ خصوصیات ازبر کرائی تھیں کہ وہ اچھا سامع ہوتا ہے، کج بحثی نہیں کرتا اور مقابل کا احترام ملحوظ رکھتا ہے خبر اگلوانے کی کوشش کرتا ہے دوسرے کو اپنی چرب زبانی سے چپ کرانے کی نہیں، ہمارے ہاں مگر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک کج بحثی، تو تکرار، سٹوڈیو بلائے مہمانوں کی تذلیل و تحقیردیکھنے کو ملتی ہے اور یہی ریٹنگ بڑھانے کا آزمودہ نسخہ۔
اب وقت آگیا ہے کہ میڈیا مالکان، ورکنگ جرنلسٹ، جمہوریت، شہری آزادیوں، مذہبی اور معاشرتی اقدار و روایات پروان چڑھانے کا خواہش مند اور ذمہ دار ادارے مل بیٹھ کر ضابطہ وضع کریں اور موثر عملدرآمد کا مکینزم تشکیل دیں۔ آزادی صحافت کی حدود و قیود کا تعین کیا جائے اور مقابلہ و مسابقت کا دائرہ کار طے کر کے رائٹ آف انفارمیشن، تفریح، یاوہ گوئی اور مادر پدر آزادی میں حد فاضل قائم کی جائے۔
مسئلہ صرف نیوز چینلز اور کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کا نہیں انٹرٹینمنٹ چینلز نے زیادہ تباہی مچا رکھی ہے غیر ملکی ثقافتی یلغار کا حصہ بن کر ایسے پروگراموں اور ڈراموں کی بھرمار ہے جس میں ماں بہن، بہو، بیٹی، بھاوج کے رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے اور اسلامی اقدار، مشرقی روایات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں یہ مقدس رشتوں کے حوالے سے ہماری حساسیت کو کمزور کرنے کی شعوری سعی ہے جس کا سدباب ازبس ضروری ہے۔ بہو، بھاوج، بھانجی، بھتیجی کے معاشقے کا کلچر فروغ پذیر ہے۔
اس بحران میں حکومت، وزارت اطلاعات اور پیمرا کے علاوہ دیگر ریاستی اداروں نے اپنی بے عملی، نا اہلی اور غفلت شعاری کا بدترین مظاہرہ کیا ہے۔ اختلاف، انتشار اور نفرت میں اضافے کی کوششوں کا وہ حصہ بنی رہی اور قانون شکنی کو ہوا دیتی رہی خدا کا شکر ہے کہ اس کے باوجود ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا مگرتابکے کیوں نہ میڈیا کی مختلف تنظیمیں خود ہی اس سیلاب بلاخیز کے سامنے بند باندھیں جو آزادی صحافت کو حسن و خاشاک کی طرح بہانے کے لئے بے تاب ہے۔ صحافتی ضابطہ اخلاق کے لئے یہ موزوں وقت اور حالات سازگار اور اپنے اپنے گریباں میں جھانکنے کا بہترین موقع ہے ؎
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا، تمہیں ناگوار ہوتا
تازہ ترین