• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے پر پاکستان کو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے لئے پرسکون رہ کر ان کے مضمرات کا جائزہ لینا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ کب اور کیسے دہلی میں نئی حکومت کے ساتھ رابطے استوار کئے جائیں۔ انتہائی احتیاط سے پالیسی ردعمل کا تعین کرکے اسے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس ردعمل میں سنجیدہ جانچ کو رہنما بناکر خوش فہمی و بے تابی اور خوف و خطر دونوں سے گریز کرنا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) بھارت کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس کا رہنما نریندر مودی ایک منقسم کرنے والا سیاست دان ہے، جسے حال ہی میں دی اکانومسٹ نے ایک ایسا شخص قرار دیا ہے جس نے عوام میں تقسیم کے بیج بو دیئے ہیں۔ مودی راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا تاحیات رکن ہے۔ اس کے مذہب سے متعلق ماضی نے بھارت کی مسلم آبادی اور ملک کے لبرل اور سیکولر طبقات میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔آج وہ جس بے جے پی کی قیادت کررہا ہے وہ اس بی جے پی سے بالکل مختلف ہے جس نے 1998ء سے 2004ء تک بھارت پر حکمرانی کی تھی۔ اس بات کی نشاندہی کئی بھارتی تبصرہ نگاروں نے کی ہے لہٰذا بی جے پی کے اقتدار کا سابقہ دور مستقبل کے لئے ایک قابل بھروسہ رہنما نہیں ہے۔
دہلی میں ایک نئی اور غیر آزمودہ ہستی کا تازہ سفارتی چیلنجز کے ساتھ اسلام آباد سے سامنا ہوگا۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کس طرح پروان چڑھیں گے، اس بات کا بڑی حد تک انحصار اس پر ہوگا کہ مودی کی واشگاف طاقتور قوم پرستی پالیسی میں کس طرح تبدیل ہوتی ہے۔ پہلے سے ہی چند بھارتی تجزیہ نگار ایک زیادہ طاقت پر مبنی چین اور پاکستان پالیسی کی پیش گوئی کر رہے ہیں لیکن بی جے پی میں سے کسی نے بھی اب تک اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس طاقت کا عملی طور پر کیا مطلب ہے۔ مودی کی زیر قیادت حکومت بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیادیات سے کس طرح علیحدہ ہوتی ہے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔بی جے پی نے انتخابات میں جو کچھ کہا اور اقتدار میں آنے کے بعد عملاً وہ جو کچھ کرے گی اس کے درمیان فرق کرنے سے پاکستان کو نئی نظام حکومت سے تعلقات بنانے کے لئے درست طریقہ کار تشکیل دینے میں مدد ملے گی۔ بی جے پی نے اپنے منشور میں خارجہ پالیسی پر زیادہ بات نہیں کی ہے۔ مودی نے بھی اس حوالے سے زیادہ بات کرنے سے گریز کیا ہے، شاید اس لئے کہ اسے اپنے عالمی اچھوت کے درجے کا معاملہ حل کرنا ہے۔ اسے یہ درجہ اس کی آبائی ریاست گجرات میں 2002ء میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے ملا ہے جب کہ بی جے پی نے کانگریس سرکار کو قومی سلامتی امور میں بے حد نرم ہونے پر متعدد بار برا بھلا کہا ہے۔بھارت کی سیاسی اور انتخابی حرکیات سے جنم لینے والے کئی سوالات دہلی کی خارجہ پالیسی کے طریقہ کار پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ پہلی کا تعلق اس بات سے ہے کہ اگلی حکومت کتنی مضبوط اور مستحکم ہوگی۔ اس کا انحصار یقینی طور پر اس بات پر ہوگا کہ آیا بی جے پی ایک واضح اکثریت حاصل کرتی ہے یا پھر اسے حکومت بنانے اور چلانے کے لئے اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی۔ پہلے نتائج پالیسی کی معنی خیز تبدیلیوں کو ممکن بنائیں گے جب کہ دوسری کا مطلب ہوگا مزید تسلسل۔دوم، اتحادی سیاست میں طاقت اور حرکیات کی ذمہ داریاں مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈے سے کس حد تک روک سکیں گی؟ کیا زیادہ علاقائی ارتکاز والے ایجنڈوں کی حامل جماعتوں سے اتحاد مودی کو ان کے حامیوں کے الفاظ میں مزید طاقتور خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے روکے گا یا کھلا چھوڑ دے گا؟ چونکہ چند ممکنہ اتحادی بھی مودی کا ہندو قوم پرستی کا کرخت فلسفہ رکھتے ہیں، تو کیا اتحاد بنانے سے مودی کو معتدل کرنے میں مدد ملے گی؟معروف بھارتی مصنفین نے اس دلیل کو چیلنج کیا ہے کہ اتحادیوں یا ملکی اداروں کی جانب سے مودی کو حدود میں رکھا جائے گا۔ مثال کے طور پر سدھارتھ وارادارجن کہتے ہیں کہ مودی شخصیت کی بنیاد پر چلائی جانے والی انتخابی مہم کو ایک ظاہری صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں اور انہیں آر ایس ایس کے سماجی ایجنڈے کی پیروی کرنے میں نظریاتی طور پر زیادہ ہم آہنگ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے عملاً کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ الائنس بی جے پی اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل ہے دیگر کا بھی یہی کہنا ہے کہ بھارت کے واچ ڈاگ ادارے مودی کے محاذ آرائی پر مبنی موقف کے سامنے جھک سکتے ہیں، جس کی آسان مثال اس کی پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر تنقید ہے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا مودی بھارت کی کمزور معیشت کی بحالی پر توجہ دے گا۔ مودی کا ترقیاتی ایجنڈا اور کاروباری طبقے کی حمایت اس پر کسی ہندوتوا ایجنڈے کو اپنانے یا پڑوسیوں سے محاذ آرائی کرنے کے بجائے زیادہ حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی جانب بڑھنے اور معاشی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے زور دے گی۔فی الحال یہ سوالات غیر یقینی کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ بعینہ اسی وجہ سے، جب تک نئی حکومت زمام کار نہیں سنبھال لیتی، اپنا ایجنڈا واضح نہیں کرتی اور اپنی خارجہ پالیسی متعین نہیں کرتی، میں اسلام آباد کو دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنانے کا ہی مفید مشورہ دوں گی۔اسلام آباد کو چاہئے کہ بلاتامل، بغیر سوچے سمجھے اور جلد بازی میں تعلقات استوار کرنے کے بجائے صورت حال کو پہلے پوری طرح جانچے اور پھر ایک مربوط سفارتی حکمت عملی ترتیب دے جو بھارت سے تعلقات کو باہمی قابل قبول شرائط پر معمول پر لانے کے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بہترین کوششیں کرسکے۔یقیناً پاکستان میں اس حوالے سے خدشات موجود ہیں کہ مودی کی زیر قیادت حکومت کشمیر پر ایک سخت موقف اپنا سکتی ہے۔ دہلی کو ایسے مذاکرات پر قائل کرنا جن میں تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے لئے کشمیر کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے ممکنہ طور پر اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوگا جتنا مشکل کانگریس دور میں تھا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا حالیہ بیان کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، پر مودی کا ردعمل اس حوالے سے کافی سبق آموز ہے۔ ایک بھارتی خبر ایجنسی کو انٹرویو میں مودی نے اسے انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کاش سبکدوش ہونے والی حکومت بھارت کے داخلی معاملات میں اس غیرضروری مداخلت پر سخت موقف اپناتی۔ بطور پیش گوئی بی جے پی نے اپنے منشور میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ یہ آرٹیکل مقبوضہ کشمیر کو آئینی طور پر منظور کردہ خصوصی درجہ (اسپیشل اسٹیٹس) دیتا ہے۔ کئی سال میں آرٹیکل 370 میں اتنی ترامیم کی گئی ہیں کہ اب عملاً وہ ختم ہی ہو چکا ہے لیکن چاہے ایک حقیقی صورت حال کو آئینی طور پر باضابطہ بنانے کے وعدے کو عملی جامہ پہنانا ہو یا اتحادیوں کی خواہشات کے احترام میں اسے ٹالنا،(جیسا آخری بی جے پی حکومت میں ہوا تھا) دونوں صورتوں میں کشمیر کے مسئلے سے نمٹنے کے اس کے طریقے کار پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
اسلام آباد کو جس بنیادی مسئلے سے نمٹنا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نئی بھارتی حکومت سے کیسا رویہ اپنائے، اگر دہلی وسیع بنیادی جامع مذاکرات کرنے سے انکار کردے، صرف اپنے من پسند معاملات پر بات کرنے کے لئے تیار ہو اور کشمیر، سیاچن اور سرکریک کے مسائل کو دونوں ممالک کے درمیان وضع کردہ سلسلہ جنبانی سے خارج کردے، جیسا کہ موجودہ صورت حال اشارہ بھی کررہی ہے۔ تو کیا اسلام آباد کو محض تجارت اور معیشت جیسے معاملات پر بات کرنی چاہئے، جس کے حوالے سے بی جے پی حکومت شاید حوصلہ افزا ردعمل دے اور کیا پاکستان کو تمام متنازع امور کو نظر انداز کردینا چاہئے، جو سارے ویسے ہی تعطل کا شکار ہیں۔ کیا یہ طریق کار چل سکتا ہے اور قابل قبول بھی ہوسکتا ہے، ایک ایسے وقت جب دونوں پڑوسیوں کے درمیان تذویراتی فضا اندیشوں کا شکار ہے اور حل طلب تنازعات زیادہ عمومی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں پر مہیب سائے ڈال رہے ہیں؟
دہلی میں ایک نئی حکومت بلا شک و شبہ تعلقات ازسرنو استوار کرنے کا ایک موقع دے گی لیکن تعلقات معمول پر لانے کی پائیدار بنیاد تعمیر کرنے کے لئے اسلام آباد کو محض نام نہاد نرم معاملات پر مبنی ایک چنیدہ طریقہ کار کو تسلیم کرنے کے جھانسے میں نہیں آنا چاہئے کیونکہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ سخت مسائل پر اختلاف بآسانی کشیدگی کی صورت سامنے آسکتا ہے اور معاشی تعلقات میں معمولی سی حرکت کو بھی پٹڑی سے اتارسکتا ہے۔یہ بات بالکل عام فہم ہے اور اس کی تصدیق حال اور ماضی کے تجربات سے بھی ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان متنازع معاملات کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں حل کرکے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کی پائیداری بشمول معاشی تعلقات کی تعمیر کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ متنازع امور دوبارہ کشیدگی پیدا کرنے کے لئے اکثر و بیشتر اور ناگزیر طور پر بار بار ابھر کر سامنے آتے ہیں اور امن عمل کو متاثر کرتے ہیں۔
یہی صورت حال گزشتہ سال بھی دوبارہ پیش آئی تھی جب کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگیوں کے باعث آزادانہ تجارت کا سلسلہ تھم گیا تھا۔ یہ تازہ ترین مثال ہے کہ کس طرح رستے ہوئے مسائل بآسانی تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو متاثر کرسکتے ہیں۔لہٰذا یہ ایک سفارتی غلطی ہوگی کہ تعلقات معمول پر لانے کے ایک منتشر عمل کو قبول کر لیا جائے اور مذاکرات کے لئے بہت پہلے سے تسلیم شدہ، جامع اور 8 نکاتی فریم ورک کو نظر انداز کر دیا جائے،جو دونوں فریقوں کی ترجیحات اور خدشات کی جھلک دکھاتا ہے نہ کہ محض ایک ملک کے ایجنڈے کو مسلط کرتا ہے۔ جب نئی بھارتی حکومت ملک کی زمام کار سنبھال لے اور ابتدائی مراحل سے گزر جائے تو پاکستان کو ایک مکمل اور جامع امن عمل کی بحالی کی کوشش کرنی چاہئے، ان بنیادوں پر کہ دو طرفہ سرگرمی کو کسی ایک نکتے تک محدود کرنے سے کبھی بھی پائیدار معاشی تعلقات کی تعمیر ممکن نہیں ہوگی اور نہ ہی طویل عرصے سے چلنے والے تنازعات حل ہو سکیں گے۔
جب نئی حکومت کی خصلت واضح ہو جائے اور یہ بھی پتہ چل جائے کہ کون اس کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی ٹیم تشکیل دیتا ہے، تو اسلام آباد کو نئی دہلی کے ساتھ کسی بھی سفارتی اقدام اٹھانے سے قبل ممکنات اور چیلنجز کا ایک جامع تجزیہ کرنا چاہئے۔ پاکستان کو نئی بھارتی حکومت کو اس کے بیانات سے زیادہ افعال سے پرکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جو کہ اس حکومت کے حکام کا ماضی میں بھی طرز عمل رہا ہے۔اسلام آباد کو بھارت کی نئی قیادت اور پاکستان بھارت تعلقات کے فروغ کی خواہش رکھنے والے مختلف عالمی اداکاروں تک یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ ادھورے مذاکرات کے نتیجے میں ادھورے اور عارضی بنیادوں پر ہی تعلقات معمول پر آئیں گے۔ حقیقی نتیجے کے لئے تعلقات کو ہر سطح پر معمول پر لانا ہوگا، چاہے مذاکرات میں چند امور دیگر کی بہ نسبت زیادہ تیزی سے ہی آگے کیوں نہ بڑھیں۔ ایک جزوی امن محض جزوی ہی ہو گا اور رکاوٹوں اور مراجعت کی طرف ہی مائل ہوگا۔
تازہ ترین