• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت لیکن نام نہاد سیکولر انڈیا نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کو حالیہ انتخابات میں اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب کیا ہے کہ نریندر مودی دہلی کا راج سنگھاسن سنبھالنے چلے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بھارت ایک عظیم جمہوریت ہے وہاں نہ الزام لگتا ہے کہ فوج انتخابات ڈکٹیٹ کرتی ہے اور انتخابات میں اپنی مرضی کے وزرائے اعظم منتخب کرانے کیلئے قارون کے خزانے کھلواکر سیاستدانوں میں پیسے بانٹتے ہوئے انتخابی اتحاد بنواتی ہے یہ بھی الزام نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومتیں گراتی ہے پھر وزرائے اعظم کو تختہ دار پر چڑھا کر ان کی میتوں کو غسل کفن دے کر یا بغیر پوسٹ مارٹم پیٹی پیک کرکے سی ون تھرٹی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں میں ان کے آبائی گائوں بھیجتی ہے۔ بس عوام کی مرضی یا اچھا سے اس بار چنائو کے ذریعے نریندر مودی کو متوقع وزیراعظم کے طور پر چنا گیا ہے۔ ہر طرف بی جے پی کے جے ہو گئی ہے۔ انڈیا شائننگ۔ اسی لئے تو ایک دفعہ بھارتی وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ اپنی دھوتی اتنی جلد تبدیل نہیں کرتے جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ایک اور سینئر بھارتی صحافی نے آٹھویں ترمیم کے دنوں میں انیس سو نوّے میں کہا تھا اسلام آباد میں صدر غلام اسحاق خان اتنی جلدی اپنے چشمے کے نمبر تبدیل نہیں کرتا جتنی جلدی میں وزیر اعظم تبدیل کردیا کرتا ہے۔ خیر،مجھے نیویارک میں رہنے والے ایک سندھی دوست نے فون کیا اور کہا کہ ہم توقع کر رہے تھے کہ بھارت میں بی جے پی ایل کے ایڈوانی کو وزیر اعظم نامزد کرے گی لیکن وہ نریندر مودی کو کر رہے ہیں۔
جیسے انیس سو نوّے میں بھارت ميں جب بی جے پی یا بھارتیہ جنتا پارٹی ایودھیا سے لیکر گجرات تک انتخابات میں اقتدار کے سنگھاسن پر چھا گئی تھی تو سندھ کے صحرائے تھر میں مٹھی سمیت کئی علاقوں میں ہندوئوں کی املاک کی قیمتیں گر گئی تھیں۔ اب پھر جب بی جے پی دو ہزار چودہ کے چنائو میں دلّی کی راجدھانی کو جاکر پہنچی ہے تو گجرات میں احمد نگر اور کئی دیگر علاقوں میں کہتے ہیں مسلمانوں کی املاک کی قیمتیں گرنے لگی ہیں۔ اس بار تو بی جے پی جنوبی بھارت ، مہاراشٹر اور کمیونسٹ اثر والے مغربی بنگال میں بھی چھائی ہوئی ہے لیکن ظاہر ہے گجرات جو نریندر مودی کی آبائی جنم بھومی ہے جہاں کے وہ وزیر اعلیٰ ہیں ،گجراتی ہیں تو دنیا بھر میں گجراتیوں کی اکثریت جشن منا رہی ہے۔ مجھے بھی نیویارک کے سب وے اسٹیشن پر ایک کیبن چلانے والا نوجوان ہرروز مودی کے آنے اور چھانے کی رننگ کمنٹری سناتا اور آخری بار اس نے مانک چند گٹکے سے اپنے ہونٹ صاف کرتے ہوئے ہاتھ نہیں پورا جسم لہراتے ہوئےکہا کہ مودی کو تو اب دہلی میں حکومت بنانے کو کسی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ گجراتیوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ان پہ پرائے ڈھول نہیں کہ جس پر سندھی بھی ناچ رہے ہیں۔
لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ بھارت میں اکثر سندھی ہندو بی جے پی کے دامے درمے سخنے زبرست حمایتی یا سپورٹر ہیں۔ خود گجرات ریاست میں نرودا جہاں بی جے پی کی مقامی بااثر رہنما مایا کوڈنانی کو اپنے ساتھیوں سمیت مبینہ فراڈ کیس میں سزا ہوئی ہے وہاں حالیہ انتخابات میں بھی سندھیوں کے سو فی صد ووٹ بی جے پی کو پڑے ہیں۔ اسی طرح جیسلمیر ہو کہ باڑ میر (جہاں سے اس دفعہ جسونت سنگھ غیر بی جے پی امیدوار تھے) کے سندھی ووٹر پھر وہ ہندو ہوں کہ مسلمان (کہ یہاں مسلمان ووٹروں کی اکثریت پیر پگارا کی مرید ہے) کے اکثریتی ووٹ بی جے پی کو پڑے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی ہو کہ جسونت سنگھ یا کانگریس یہاں مسلم ووٹر کے ووٹ حاصل کرنے کو پیر پگاڑا ان کے خلیفوں کی اشیرباد کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن میرے لئے یہ گتھی اب تک اسی لئے الجھی ہوئی ہے کہ سندھی ہندو سندھ کا ہو کہ ہند کا اس کی اکثریت صوفی مزاج رکھتی ہے۔ وہ عقیدے کے اعتبار سے ہندو مت اور سکھ پنتھ کے کئی اصولوں پر ایک سا یقین رکھتا ہے۔ تو پھر بی جے پی جیسی جماعت کا حمایتی اور اہم مددگار کیسے؟ اور بہت سے تو فقط مسلمان صوفیوں اور درویشوں کے ماننے والے ہیں۔ وہ مندروں میں گرنتھ بھی پڑھتے ہیں تو گرونانک کا جنم دن بھی مناتے ہیں۔ جو سندھ اور پاکستان میں شہباز قلندر ہے وہی ان کا جھولے لال ہے۔ جو سندھ میں پیر طاہر ہے وہ ان کا اڈیرو لال ہے۔ رگ وید سندھ کے کنارے لکھی گئی تھی۔ سپت سندھو کا ذکر ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں ہے۔ کئی برس ہوئے جب ایل کے ایڈوانی وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے لداخ کے قریب سندھو درشن میلہ شروع کرایا تھا جہاں شاہ دریا کی پوجا کی جاتی یا اسے سلام پیش کیا جاتا۔
سندھی ہندو جب سندھ سے نقل وطنی کر کے بھارت پہنچا تو اپنے ساتھ اپنے جھولے لال،چیٹی چنڈ اور سندھیت، اپنی محنت، میرٹ بھی ساتھ لے گیا۔ وہ واقعی مٹی کی چپٹی سے سونا بنانے والا سندھی ہے۔ اس کے دنیا میں دولت مند ترین خاندان ہندوجاز، امبانی، واٹوںمل محنت اور سرمائے کے تضاد کی عجبب داستانیں ہیں۔ سندھ میں تو اس طرح خون آشام تقسیم نہیں ہوئی تھی جو پنجاب میں ہوئی جب تک بھائی لوگ مہاجر بن کر نہ پہنچے تھے۔ اسی لئے کئی خاندان اس امید پر گئے تھے کہ جلد ہی حالات ٹھیک ہو جائيں گے وہ واپس وطن کو پلٹ آئیں گے جس طرح پنچھی شام کو واپس گھونسلوں یا خطرہ ٹلنے پر واپس آجاتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے گھروں کی چابیاں بھی اپنے پڑوسیوں کو دیکر گئے تھے پھر وہ ایسے گئے کہ سندھ میں کبھی سندھی نہ غیر روایتی مڈل کلاس بن سکا نہ اربنائیٹ یا شہری مزاج کی اکثریت۔ وہ جو حیدرآباد، کراچی، شکارپور، سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ میں مکانات و عمارات چھوڑ کر گئے تھے اس میں رہنے والے صدیوں کا پس منظر اور شعور رکھتے تھے۔ وہ تو صدیوں سے سفر پر تھے (یہ تو ایک الگ داستان ہے) اٹھارہ سو تینتالیس سے لیکر یا اس سے بھی بہت پہلے سندھ کے بھائی بند یا سندھ ور کے ہندوئوں نے جاوا، مالٹا، لندن، ہانگ کانگ، مالدیپ، اسپین ،جنوبی امریکہ میں چلی اور افریقہ تک اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کیں۔ ابھی حال ہی میں مجھے نیویارک انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں جیکی میلوانی سے ملاقات ہوئی جس کے آبائو اجداد کوئی سو سال قبل جاکر سندھ سے چلی میں آباد ہوئے تھے لیکن جیکی گاڑھی حیدرآبادی سندھی بولتا ہے۔ اگر کسی سندھی قوم پرست سے پوچھیں کہ حیدرآباد میں میلوانی گلی کہاں واقع ہے تو شاید ہی صحیح جواب دے پائے۔تو میں کہہ رہا تھا سندھیت کا ہندوتوا سے کیا واسطہ۔ لیکن بدقسمتی سے سنگھ پریوار یا آر ایس ایس سنگھ یا راسٹریہ سیویام سیوک سنگھ بی جے پی جس کی اب ایک نکلی ہوئی شاخ ہے کی جنم بھومی اگر ہند تھی تو اس کا ننہیال سندھ تھا لیکن کئی لبرل سندھی یا بھارتی بھی بی جے پی کو ایک مذہبی انتہاپسند نہیں قوم پرست جماعت سمجھتے ہیں۔ تقسیم سے قبل تک کئی سندھی ہندو نوجوان جن میں کشن ایڈوانی اور سندھی زبان کے ہند کے عظیم افسانہ نگارموہن کلپنا بھی شامل تھے اور پرچودویارتھی بھی آر ایس ایس میں سرگرم تھے۔پرچوسندھ میں اپنے دور میں دہشت کی علامت تھا اور سکھر پوسٹ آفس پر ڈاکے میں ملوث تھا۔ بھارت میں وہ رکن پارلیمان بنا کچھ عرصہ قبل فوت ہوا ہے۔ لبرل خیال حشوکیولرامانی جو سندھ کا آج تک ایک بڑا خوبصورت ذہن تھا اس کا بیٹا گل کیوالرامانی بھی اب بی جے پی میں ہے۔ ایک اور بڑا دماغ وسابق وزیر قانون رام جیٹھ ملانی (جس کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی) سندھی لکھاری ہیروٹھکر اور کئی۔ لیکن نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے پر پاکستان سے زیادہ خطرہ بھارت میں فکر و اظہار رائے کی آزادی اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے حقوق کو ہے۔ بھارت نے پاکستان سے تین بار جنگ بی جے پی کے دنوں میں نہیں کانگریس کے دنوں میں لڑی تھیں بلکہ بی جے پی جب حکومت میں ہوتی ہے تو پاکستان سے بنا کر رکھتی ہے۔ ہاں البتہ دونوں طرف وہ انتہاپسند جو کانگریس کے زمانے میں بیروزگار رہتے ہیں وہ روزگار سے لگ جائيں گے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام سے لگے داغ نریندر مودی کس طرح دھوتے ہیں جو سکھوں کے قتل عام کے لگے داغ اب تک کانگریس نہیں دھو سکی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کا ذکر ہی کیا!
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کے صفحوں میں
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
شاید بھارت کے عوام کا اس بار بھی کچھ ایسا فیصلہ ہی نہ ہو۔
تازہ ترین