• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممبئی بھارت کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں بیک وقت دو متوازی حکومتیں کام کرتی ہیں۔ایک سرکار مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ چلاتا ہے جبکہ دوسری طاقتور حکومت کے سربراہ کو ’’بھائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جن افراد کو بھارتی فلمیں دیکھنے کا شوق ہے وہ انڈر ورلڈ کی اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے کیونکہ بھارتی فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے انویسٹر یہی بھائی لوگ ہیں اور ان کے طرز زندگی کی نمایاں چھاپ فلموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ’’بھائی‘‘ کی اشیرباد حاصل کئے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتی۔ حکومتیں بنانا اور گرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لہٰذا کوئی بھی دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر رکھنے کی غلطی نہیں کرتا۔ کبھی انڈر ورلڈ میں کریم لالہ اور حاجی مستان نام گونجتا تھا اب چھوٹا ارجن کا سکّہ چلتا ہے۔ ’’بھائی‘‘ کے کارندے پورے ممبئی پر راج کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں سے بڑے تاجروں تک سب سے ہفتہ وصول کرتے ہیں۔رقم کا مطالبہ کرتے وقت ’’کھوکھا‘‘ اور ’’پیٹی‘‘ کا کوڈ ورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔جب کوئی تاجر ہفتہ دینے سے انکار کرے تو ان کے دھمکی دینے کا انداز بھی بہت خوب ہوتا ہے۔تاجر کہتا ہے پیسے تو نہیں ہیں میرے پاس ،آگے سے بھائی کا کارندہ جسے چھوٹے کے نام سے پکارا جاتا ہے ،معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتا ہے،نہیں پیسے تو ہمیں پتہ ہے کتنے ہیں تیرے پاس اور بھائی کا آرڈر ہے دینے تو پڑیں گے۔ آگے سے وہ تاجر ہمت کر کے کہتا ہے، کیا مطلب دینے پڑیں گے؟تم مجھے دھمکی لگا رہے ہو؟ ’’چھوٹا‘‘ پھر ہنستے ہوئے کہتا ہے،نہیں دھمکی نہیں لگا رہا،سمجھا رہا ہوں اور تمہیں پتہ ہے اس کا کیا مطلب ہے۔جب کسی کی دھلائی کرنی ہو،کسی کوکتے کی موت مارنا ہو تو کسی لمبی چوڑی الزام تراشی کی ضرورت نہیں، بس ایک کارندہ آواز لگاتا ہے،اس نے بھائی کو گالی دی، آناً فاناً ’’بھائی‘‘ کے وفادار اور جانثار جمع ہوتے ہیں اوراس شخص کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔ کوئی سیاستدان، کوئی پولیس آفیسر، کوئی صحافی، کوئی جج یا کوئی وکیل بھائی کا ’’وقار‘‘ مجروح کر دے تو اس کا کچا چٹھا کھول دیا جاتا ہے،اس کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدل دیا جاتا ہے،اس پر زندگی کی راہیں یوں مسدود کر دی جاتی ہیں کہ وہ خودکشی کر لیتا ہے یا پھر ’’اچھا بچہ‘‘ بن جاتا ہے۔اگر وہ ’’بھائی‘‘ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے تو سب گناہ دھل جاتے ہیں اور اسے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے وگرنہ غداری کا داغ کبھی نہیں دھل پاتا۔
انڈر ورلڈ کی یہ کہانی تمہید کی صورت بیان کرنے کی نوبت اس لئے آئی کہ مجھے بھی ایسی ٹیلی فون کالز آ رہی ہیں جیسے میں نے کسی ’’بھائی‘‘ کا وقار مجروح کر دیا ہو۔ صرف 24گھنٹوں میں مجھے کم از کم 300ٹیلی فون کالز آئی ہیں۔ کال کرنے والے میرا نام پوچھتے ہیں اور ’’بھائی‘‘ کا ’’وقار‘‘ مجروح کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گالیاں دینے لگتے ہیں۔ساتھ ہی دو دن کا وقت دیا جاتا ہے کہ سُدھر جائو اور ’’جنگ،جیو‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لو ورنہ تمہارا وہ حال کریں گے کہ لکھنے کے قابل نہیں رہو گے۔جب میں گالیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ پوچھتا ہوں کہ جناب آپ کے خیال میں اس وقت کونسا اخبار یا نیوز چینل ایسا ہے جہاں شریعت کے عین مطابق کام ہو رہا ہے،تو مغلظات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔بار بار نام پوچھنے کے باوجود یہ کالرز اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے بس یہی کہا جاتا ہے کہ میں ایک محب وطن پاکستانی بات کر رہا ہوں۔ گولیوں اور گالیوں سے محبت بونے والے ان محب وطن پاکستانیوں کا بھی جواب نہیں جو اپنے سوا سب کو غدار اور ملک دشمن سمجھتے ہیں۔ایک ’’محب وطن پاکستانی‘‘ نے کہا،کتنے پیسے لیں گے کالم لکھنے کے،میں نے عرض کیا حضور! آپ کے پاس بہت سکّہ بند کالم نگار ہیں،ان سے جو چاہیں لکھوائیں،آپ کے پاس اینکر بھی ہیں ان سے جو چاہے کہلوائیں،میں تو ایک ادنیٰ سا قلمکار ہوں۔دن بھر کی ’’عزت افزائی‘‘ سے تنگ آیا ہوا تھا کہ رات کو ایک دو ’’غیر محب وطن پاکستانیوں‘‘ کی کالز بھی آئیں کہ سوشل میڈیا پر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،مگر گھبرائیں نہیں ،یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ،ہم آپ کے ساتھ ہیں۔بسا اوقات تسلی و تشفی دینے والے بھی کمال کرتے ہیں۔ جب معروف دانشور دیوجانس کلبی بیمار ہوئے تو لوگ بیمار پُرسی کے لئے آتے اور کہتے ’’گھبرائو نہیں ،یہ مصیبت خدا کی طرف سے ہے‘‘ اور دیو جانس قلبی مسکرا کر کہتا’’بہت خوب ! اگر یہ بات ہے تو مجھے اور بھی گھبرانا چاہئے‘‘۔ اسی طرح جب سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا تو اس کی بیوی اور شاگردوں سمیت جو بھی چاہنے والے تھے سب رونے لگے۔ سقراط نے پوچھا،کیوں روتے ہو؟انہوں نے کہا،اس لئے کہ آپ بے قصور مارے جاتے ہیں۔ سقراط نے کہا ،بہت خوب ! تو تمہاری کیا خواہش ہے کہ میں کسی قصور پر مارا جائوں۔
جیو نیوز سمیت تمام ٹی وی چینلز پر جتنے بھی بے ڈھب مارننگ شوز میں ریٹنگ کی دوڑ میں جو کچھ ہو رہا تھا، میں ایک عرصہ سے اس کا ناقد ہوں اور اپنی رائے کا برملا اظہار بھی کرتا رہا ہوں مگر اس وقت جیو نیوز جس عتاب کا شکار ہے اسے دیکھ کر تو دو خوبصورت مقولے یاد آتے ہیں جو نہ جانے کس نے متعارف کرائے پہلا تو یہ کہ جب کسی انسان پر بُرا وقت آتا ہے تو وہ اونٹ پر بھی بیٹھا ہو تو اسے کاٹا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جیو نیوز کسی ’’بھائی‘‘ کا ’’وقار‘‘ مجروح کرنے کی وجہ سے بدقسمتی میں گھر گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ بدقسمتی اس وقت تک رہے گی جب تک ’’بھائی‘‘ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے کا فیصلہ نہیں کر لیا جاتا۔ دوسرا مقولہ اس طرح سے ہے کہ جب ہاتھی کیچڑ میں دھنس اور پھنس جاتا ہے تو پھر مینڈک بھی لاتیں مار کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلک کج رفتار کی غلط بخشیاں تو دیکھئے کہ جو کل تک پریس ریلیز لئے رپورٹروں کے آگے پیچھے گھوما پھرا کرتے تھے آج ان کی پریس کانفرنسیں لائیو نشر ہو رہی ہیں اور وہ جو دن بھر دیدار،نرگس اور صائمہ کے مجروں سے اپنی کیبل کی رونقیں بڑھایا کرتے تھے ،آج وہ بھی فحاشی و عریانی کا الزام لگا رہے ہیں۔مانا کہ جیو نیوز نے ’’اُٹھو جاگو پاکستان‘‘ کی پوری ٹیم کے خلاف کارروائی کی،پروگرام بند کر دیا،دیگر چینلز کی طرح اپنی غلطی پر اسرار کے بجائے بار بار معافی کے خواستگار بھی ہیں مگر انہیں معافی نہیں ملے گی،کیوں؟ اس لئے کہ اصل معاملہ’’ بھائی‘‘ کا وقار مجروح کرنے کا ہے۔ اگر اس گستاخی پر معافی مانگ لی جائے اور مستقبل میں ’’اچھا بچہ‘‘ بننے کا عہد کر لیا جائے تو سب گناہ دھل جائیں گے۔معافی بھی قبول ہو جائے گی پھر سے گناہوں کے ارتکاب کا لائسنس بھی مل جائے گا اور سب ’’محب وطن پاکستانیوں‘‘ کے کلیجوں میں بھی ٹھنڈ پڑ جائے گی۔
تازہ ترین