• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بار میں نے ٹھان لی تھی کہ اپنی جان سے پیاری سرکاری ایئر لائن کے بارے میں نہیں لکھوں گا۔ یہ میرا بڑا ہی عزم مصمم اور اٹل فیصلہ تھا کہ اپنے عیب پر پردہ پڑا رہنے دوں گا اور سرکاری ایئر لائن کی کیادرگت بنی ہے ، اپنی وطن پرستی کی خاطر اس کا حال نہیں کھولوں گا۔ ہوا یہ کہ پچھلے چند مہینوں کے دوران مجھے چار بار اپنی قومی فضائی ایئرلائن میں سوار ہو کر لندن اور پاکستان کے درمیان سفر کرنے کا موقع ملا۔اس موقع پر قارئین کو ایک بہت ہی اچھی اور ناقابلِ یقین خبر سُنادوں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق سرکاری ایئر لائن کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ ایئر لائن کی ان تھک کوششوں کے نتیجے میں خسارے پر قابو پالیا گیا ہے اور اس نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک ارب پینسٹھ کروڑروپے کا منافع کما لیا ہے۔ ہمارا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ سرکاری ایئر لائن کا دعویٰ بالکل صحیح ہے اور اس نے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کا منافع ضرور کمایا ہوگا۔ اب یہ نہ پوچھئے کہ ایک نہایت تنگ کرسی میں دھنسے دھنسے اور کمر کے گرد حفاظتی پیٹی باندھے باندھے ہم پر یہ حقیقت کیسے کھل گئی۔ اس کا جواب بھی سن لیجئے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ہمارے جواب کو ماننے سے صاف انکار کردیں گے۔
لیجئے سن ہی لیجئے کہ سرکاری ایئر لائن کا اتنا بھاری منافع کمانے کاراز کیا ہے، تو اطلاعاً عرض ہے کہ میری عزیز از جان ائر لائن نے صبح کے ناشتے کے ساتھ چائے دینے کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ سات گھنٹے کے بری طرح تھکادینے والے سفر کے بعد پردہ کھلا اور اندر سے ناشتے کی ٹرالی برآمد ہوئی۔ اس میں پلاسٹک کی طشتریوں میں بازار سے خریدے ہوئے دو دو بسکٹ رکھے ہوئے تھے جو ایئرہوسٹس نے آپ کے سامنے کھلی ہوئی میز پر آراستہ کرنے کی زحمت نہیں کی اور دور سے ہاتھ بڑھا کر آپ کو تین طشتریاں تھما دیں۔ تین اس لئے نہیں کہ وہ آپ پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہیں بلکہ اس لئے کے ان میں سے دو اپنے برابر اونگھنے والے مسافروں کو پکڑا دیجئے۔ اس کی بعد پوچھا گیا کہ آپ کیا پئیں گے۔ ظاہر ہے اس کا ایک ہی جواب ہے، چائے۔ جواب ملا ’’ وہ تو بند کردی گئی ہے‘‘۔ اچھا تو اورنج جوس دے دیجئے۔ جواب ملا’’ وہ بھی نہیں ہے،پانی ہے اور دو طرح کی کولڈ ڈرنکس ہیں‘‘۔ تو یہ ہے راز ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ روپے کے منافع کا۔ میں نے اس ہوسٹس سے کہا کہ آپ کو پتہ ہے ایک زمانے میں سرکاری ایئر لائن ناشتے میں گرم گرم شامی کباب اور آملیٹ دیا کرتی تھی۔ اس نے کہا کہ جی ہاں معلوم ہے۔ تو اب کیا ہوا؟ جواب ملا کہ آپ کو تو اندازہ ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے۔ رات کو جب کھانا دیا جارہا تھا تو کچھ مسافروں نے شکایت کی کہ کھانا ناقص ہے۔ میں نے فضائی میزبان کو یہ کہتے سنا کہ یقین کیجئے، میں اپنا کھانا گھر سے باندھ کر لاتا ہوں۔ ہاں ایک چیز ضرور اور بڑے اہتمام سے آتی ہے۔ ڈیوٹی فری اشیاء سے بھری ٹرالی، یقین کیجئے ،دو چار مسافروں کی سوا کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔مگر ایئر لائن کی بلا سے۔ اس ٹرالی کا ناغہ کبھی نہیں ہوتا۔ ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ کی کمائی یوں ہی تو نہیں ہو جاتی۔ سامنے بڑی اسکرین پر ایک نقشہ چلا کرتا تھا کہ اب ہمارا طیارہ کہاں پہنچا ہے۔ رفتار کیا ہے، کتنا فاصلہ رہ گیا۔ وہ نقشہ حرف غلط کی طرح مٹ گیا ہے۔ آپ کی نشست کے سامنے لگی ہوئی اسکرین اپنی مرضی کی مالک ہے ۔ جب جی چاہے گا وہی پرانے گھسے پٹے ویڈیو دکھا دے گی، جی نہیں چاہے گا تو معذرت کر لے گی کہ معاف کیجئے، اَپ لوڈ نہیں ہو پا رہا۔ بس ،یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری قومی ایئر لائن میں ایک خوبی ہے، اُڑتی ہے۔
اب سنئے سرکاری ایئر لائن کے مسافروں کا احوال۔ جی تو چاہتا ہے کہ نہ کہوں مگر دل نہیں مانتا۔ پہلے یہ سن لیجئے کہ دنیا کی مشہور ایئر لائن ورجن کے کروڑ پتی مالک رچرڈ برانسن سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو دنیا کی کوئی فضائی کمپنی خریدنے کا موقع ملے تو کون سی ایئر لائن خریدیں گے۔ اس نے کہا کہ جواب آسان ہے، میں پاکستان کی سرکاری ایئر لائن خریدوں گا کیونکہ اس کے گاہک پکّے ہیں، کسی دوسری ایئر لائن میں سفر نہیں کرتے۔ اس کا سبب دلچسپ ہے۔ اوّل تو طیارے کے عملہ اردو اور پنجابی بولتا ہے، دوسرے کھانے کو مرغ قورمہ ملتا ہے اور تیسرے یہ کہ جن دنوں مسافروں کو بیس کلو وزن لے جانے کی اجازت تھی، ہر مسافر چالیس کلو وزن اٹھائے ہوائی اڈّے پہنچ جاتا تھا اور دیر تک عملے سے جھگڑا اور چخ چخ ہوا کرتی تھی۔ سرکاری ایئر لائن نے تنگ آکر ہر مسافر کو چالیس کلو وزن لے جانے کی اجازت دے دی،اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اب جس مسافر کو دیکھئے پچاس کلو وزنی سامان اٹھائے چلا آرہا ہے اور اوپر سے بحث بھی کر رہا ہے اور جھگڑا بھی۔
اب سنئے مسافروں کا حال۔ قطعی محسوس نہیں ہوتا کہ طیارہ برطانیہ سے پاکستان یا پاکستان سے برطانیہ جا رہا ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ چک جھمرو سے اُڑے گا اور سیدھا چیچو کی ملیاں جاکر رکے گا۔یہ میرے عزیز ہم وطن سروں کے اوپر سامان رکھنے کے خانوں میں زور لگا لگا کر ٹھونسا جانے والا سامان لے کر آتے ہیں، ساتھ میں شیطانی کرنے والے یا زار و قطار رونے والے بچّے قطار اندر قطار چلے آتے ہیں۔ خواتین کو دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ بلا کی خوش خوراک ہیں اور ساری کی ساری گھٹنوں کے درد میں بُری طرح مبتلا ہیں۔اگر سفر رات بھر کا ہے تو یہ خواتین آپس میں رات بھر باتیں کرتی ہیں اور چونکہ پرانے طیاروں میں شور بہت ہوتا ہے تو خواتین آپس میں بالکل یوں باتیں کرتی ہیں جیسے محلے کے ایک مکان کی چھت پر چڑھی دوسرے مکان کی چھت پر براجمان خاتون سے دنیا زمانے کے دکھڑے رو رہی ہوں۔ طیارے میں خاموش بیٹھنے والے سارے مسافروں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کے گھر کی لڑکی نے کس سے پسند کی شادی کی اور کون آکر دونوں کو قتل کر گیا یا کس کی زمین پر کون قبضہ جما کر بیٹھا ہے اور اسے نکالنے کے لئے کلاشنکوف لانے کا بندوبست کون کر رہا ہے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ان خواتین کا گلا تھکتا ہے نہ ان کی آواز بیٹھتی ہے۔ اوپر سے یہ ایک عجیب بات دیکھی گئی ہے اور سائنس اس کی تائید کرے گی کہ جوں ہی ہوائی جہاز گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچتا ہے، ان کی یادداشت کے سارے دریچے کھل جاتے ہیں اور خدا جانے کہاں کہاں کی باتیں یاد آ آ کر اُبل پڑتی ہیں اور آخری قیامت اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب طیارہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے اور ابھی پوری طرح رکتا بھی نہیں کہ بلا کے بے چین اور مضطرب مسافر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ دروازہ کھلے اور وہ اوپر ہی سے چھلانگ لگا دیں۔
سرکاری ایئر لائن کا ایک اور قصہ ذہن میں ایسا چپکا ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لیتا۔ انہی صفحات پر ایک صاحب نے بیان کیا تھا کہ طیارہ کراچی سے نیپال جانے کے لئے تیار کھڑا تھا اور مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے کہ باہر زور کی بارش شروع ہو گئی پھر وہ ہوا جس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ طیارے کی چھت ٹپکنے لگی۔ ان صاحب نے شور مچایا تو عملے نے انہیں دوسری نشست دے دی اور جس جگہ پانی ٹپک رہا تھا وہاں پلاسٹک کا برتن رکھ دیا پھر نہ پوچھئے۔ ان صاحب کو جس جگہ بٹھایا گیا تھا، چھت وہاں بھی ٹپکنے لگی۔ ان صاحب نے اصرار کیا کہ طیارے کے کپتان کو بلایا جائے۔ وہ آئے اور صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد بولے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، ہم پرواز کرنے والے ہیں، جب طیارہ بادلوں سے اوپر پہنچ جائے گا تو پانی ٹپکنا بند ہو جائے گا۔ چلئے ٹپکے کا خوف تو دور ہوا لیکن یہ سوچ کر میرے ہاتھ پاؤں یخ ہوگئے کہ جب یہ طیارہ نیپال کی فضا میں پہنچ کر کوہ ایورسٹ کے اوپر سے گزرے گا، اس وقت اگر اس کی کھڑکی کے راستے برف اندر آنے لگی تو کیا ہوگا؟
تازہ ترین