ہمارے قومی شاعر حضرت محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں ہمارے قومی مزاج کی ہو بہو تصویر کھینچ دی ہے اور ساری بات اپنی ذات کے حوالے سے کی ہے
اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من ہاتھوں میں موہ لیتا ہے
وہ گفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
ہماری ساری داستان ہی یہ ہے کہ ہماری تباہی کے ذمے دار وہ رہے جو آگے بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ،زبان سے شعلے اُگلتے اور عوامی جذبات میں آگ لگانے کی بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ہم نے گزشتہ سال بھری سردیوں میں پاکستان کے دارالحکومت میں چرب زبانی کے کیسے کیسے مظاہرے دیکھے کہ خود تو آرام دہ کنٹینر میں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں اور انسان کی ایجاد کردہ آسائشوں سے لطف اُٹھاتے اور ہزاروں عورتوں ، مردوں اور بچوں کو خون منجمد کر دینے والی سردی میں آسمان تلے کئی راتیں گزارنے اور حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کرتے رہے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ملک میں کس قسم کا نظام لانا چاہتے تھے اور شیخ الاسلام کے منصب پر کیوں فائز تھے۔ وہ چونکہ گفتار کے غازی تھے ، اِس لئے چند روز ہنگامہ اُٹھا کر واپس کینیڈا چلے گئے جہاں اُنہوں نے ایک دانش کدہ آباد کر رکھا ہے اور غیر مسلموں کو سلامتی کا راستہ دکھانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر آئین کی شقوں 62اور 63پر اُمیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے وقت صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو جاتا ، تو پاکستان کا سیاسی نظام بھی سلامت روی اختیار کر لیتا اور عوام کی بھلائی کے راستے کھلتے چلے جاتے۔ انتخابات کے ایک سال بعد اُنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شہروں میں اپنے جاں نثاروں سے خطاب کیا جن کی تعداد کے بارے میں اخبارات نے بڑی تنگ دلی کا مظاہرہ کیا جبکہ عمران خاں کا اسلام آباد میں جلسۂ عام ہزاروں کی تعداد میں تھا اور سادہ مزاج آشفتہ سروں نے عالمِ بے خودی میں اُسے ریفرنڈم قرار دے دیا تھا۔
عمران خاں کا شمار بھی گفتار کے غازیوں میں ہوتا ہے اور اُنہوں نے بے وقت کی راگنی بجانے میں کمال مہارت حاصل کر لی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹا اور سیاست دانوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا ، تو خاں صاحب ایک ہی جست میں نئے مسیحا کی گود میں جا بیٹھے اور ریفرنڈم تک اُن کے قومی مصاحبین میں شامل رہے۔ جب اُن کی اُمیدوں پر میر ظفر اﷲ خاں جمالی کے وزیراعظم بننے پر اوس پڑ گئی ، تو اُنہیں محسوس ہوا کہ جنرل پرویز مشرف تو بہت بڑا فاشسٹ ہے۔ سیاسی جدوجہد کے ذریعے آمریت سے نجات پانے کا عزم رکھنے والے قومی لیڈر نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور وقت نے ثابت کیا کہ اُن کا فیصلہ وقت کے دھارے کے خلاف تھا۔ پارلیمانی سیاست سے خارج ہو جانے کے بعد اُنہوں نے تقریروں کے ذریعے نوجوانوں کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی اور ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ اُن کی زبان میں بڑی تاثیر تھی۔ نوجوان اُن کی طرف کھنچتے چلے گئے ، مگر جب عام انتخابات میں سات آٹھ ماہ رہ گئے ، تو ایک بار پھر وہ وقت کی نبض نہ پہچان سکے اور غلط فیصلہ کر بیٹھے کہ پہلے پارٹی کے اندر انتخابات ہونے چاہئیں۔ سب جانتے ہیں کہ داخلی انتخابات کے نتیجے میں پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو جاتی اور کارکن مقامی اُلجھنوں میں بٹ جاتے ہیں ، چنانچہ جو وقت عام انتخابات کی مرکبات کو سمجھنے ، پولنگ ایجنٹس تیار کرنے اور اُنہیں تربیت کے عمل سے گزارنے کا تھا ، وہ داخلی انتشار میں ضائع ہو گیا اور اُن کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کارگر ثابت ہوا کہ اُن کے لاہور اور کراچی میں جو بڑے بڑے جلسے ہوئے ، اُن کی پشت پر آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل پاشا کھڑے تھے۔
عمران خاں صاحب نے ٹکٹ جاری کرنے کا جو نظام وضع کیا ، اُس کے بارے میں یہ شکایت عام ہوئی کہ پیسے لے کر ٹکٹ دیے گئے ہیں اور پارٹی کے دولت مند افراد نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا ہے۔ نئے چہرے لانے کی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبر پختونخوا میں کامیاب اُمیدواروں میں ناتجربے کار افراد کی تعداد اِس قدر زیادہ تھی کہ وزارتوں کے لئے موزوں آدمی نہیں مل رہے تھے۔ وہ جو تجربے کار تھے ، اُن کی مالی شہرت اچھی نہیں تھی۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کر کے تحریک انصاف کو بہت سہارا ملا ہے ، تو جناب شیر پاؤ کی جماعت سے اپنا ناطہ توڑ لینے سے اُس کی عددی اکثریت برائے نام رہ گئی ہے اور حکومت کے گر جانے کا خطرہ پیدا ہو چلا ہے۔ اب وقت کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خاں اپنی حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیتے اور ڈلیوری سسٹم کو بہتر بناتے، اُنہوں نے ایک سال بعد انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اعلانِ جہاد کر ڈالا اور ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ وہ چار حلقوں میں دوبارہ گنتی پر اصرار کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جا رہے ہیں کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اُترنے نہیں دیں گے۔ اِن بڑے بڑے اعلانات کے درمیان اُنہوں نے اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ جیو انتظامیہ سے بھی نمٹ لینا چاہتے ہیں جو ان کے بقول باہر سے فنڈز حاصل کر کے غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور فوج پر الزام تراشی کی ناقابلِ برداشت مہم چلا رہی ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اشارہ ہوا ہے اور وہ بیک وقت جیو نیوز اور حکومت کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے عمران خاں کے مطالبے پر مستعفی ہونے سے تو انکار کر دیا ، مگر اُن کی شکایات کا جائزہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن ٹریبونل نے این اے 68میں ووٹوں کی گنتی میں تضاد کی تصدیق کر دی ، مگر اُسے ٹائپنگ کی غلطی قرار دیا ہے۔ اِس امر کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ اِس تضاد کا ذمے دار کون ہے۔ اِس امر کا غالب امکان ہے کہ چار نشستوں کی دوبارہ گنتی سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے سینیٹ میں بیان دیا ہے کہ وفاق اور نظام کو خطرہ ہے کہ 1977ء جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ بھٹو حکومت کے تحت ہونے والے انتخابات کے خلاف اُٹھنے والی پی این اے تحریک کی بات کر رہے تھے جس کے سامنے حکومت سرنگوں ہو گئی تھی اور مارشل لاء نافذ ہو گیا تھا ، ہماری دعا ہے کہ اب ایسا نہ ہو۔ دونوں صورتِ حال اپنی ماہیت میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
1977ء کے انتخابات کے بارے میں بڑی مستند دستاویزات موجود ہیں کہ وفاقی حکومت نے دھاندلی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی جبکہ 2013ء کے انتخابات نگران حکومت نے با اختیار الیکشن کمیشن کے ذریعے کرائے ہیں۔ مختلف حلقوں میں ووٹوں کی جانچ پڑتال سے پتہ چلے گا کہ مقامی سطح پر بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور جس کے بس میں جو کچھ تھا ، وہ کر گزرا یا کہیں سے ہدایات آئی تھیں۔سیاسی جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کی اہمیت پوری شدت سے محسوس کرنی چاہیے اور اِس مقصد کے لئے بھارتی الیکشن کمیشن کی ہیئت ، اُس کے ارتقاء اور اُس کے نظام کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بنیادی نقص یہ ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن جج صاحبان پر مشتمل ہے جن کو انتظامی مشینری استعمال کرنے اور بڑے پیمانے پر نظم و نسق چلانے کا تجربہ نہیں ہوتا ، اِس لئے ایک دن میں انتخابات جنگی بنیادوں پر کرانا اُن کے بس میں نہیں۔ یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو تحصیل سے لے کر صوبے تک ایڈمنسٹریشن چلانے اور افرادِ کار تیار کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں ، اِس لئے ہمیں اپنے دستور میں ترمیم کر کے یہ ذمے داری با صلاحیت ، فرض شناس اور دیانت دار افراد کو سونپ دینی چاہیے جن کا انتظامیہ سے تعلق ہو۔ہمارے ہاں گفتار کے غازیوں نے میڈیا کے اندر بھی ایک سول وار کا ماحول پیدا کر دیا ہے جو اِس کی تباہی کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کردار کے غازی بھی موجود ہیں اور وہ حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ حالات کو بہتر بنانے کی سپرٹ کے ساتھ وزیراعظم کا مودی کی تقریبِ حلف وفاداری میں شرکت کرنا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس پر منصوبہ سازوں اور سفارت کاروں کو سنجیدگی سے غوروخوض کرنا چاہیے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔