• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بیرونی قوتوں کا خطرناک کھیل شروع ہوچکاہے۔موجودہ حکومت کے اقتدار کاایک سال ابھی پوراہواہے کہ جمہوریت کیخلاف سازشیں اپنے عروج پرہیں۔جنوبی ایشیاکے موجودہ منظرنامے میں پاکستان مرکزی اہمیت اختیار کرگیاہے۔افغانستان میں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کاآغاز ہونے والاہے۔افغان حکام نے جنرل راحیل شریف کے دورہ کابل کے موقع پر پاکستان سے آئندہ پرامن انتقالِ اقتدار اور افغانستان میں امن کے حوالے سے تعاون مانگاہے۔افغانستان میں اقتدار کی پُرامن منتقلی اور بیرونی افواج کے رواں سال2014ء میں انخلاء کے بعد خطے میں حقیقی امن کاقیام ممکن ہوتا نظر آتا ہے۔ واقفان حال کاکہناہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت نے اگراپنے اقتدار کے دوسال پورے کرلیے توپھروہ پانچ سال بھی مکمل کر لے گی۔2014ء کے دوران موجودہ جمہوری حکومت کی جگہ کوئی ایسا سیٹ اپ لاناامریکہ کی ضرورت ہے جوافغانستان سے انخلاء کے وقت طورخم سے کراچی ایئرپورٹ تک اسے محفوظ راستہ دے سکے۔ پاکستان کے متعلق امریکہ کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔پاکستان کووہ ناکام ریاست قرار دلواکر اس کا نیوکلیئر پروگرام بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔اس صورت حال میں یہ بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ آخر پاکستان میں جمہوریت،عدلیہ اور میڈیاکیخلاف سازشیں کیوں ہورہی ہیں؟طالبان اور حکومت مذاکرات میں تعطل بھی اسی کاتسلسل محسوس ہوتا ہے۔حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات فیصلہ کن موڑ پرپہنچ گئے تھے کہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھنے نہیں دیاگیا۔وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کے اجلاس میں سول اور عسکری قیادت نے اس عزم کاپھر اعادہ کیاہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کوجاری رکھا جائے گا۔ اس ضمن میں حکومت اور فوج کاایک پیج پر ہونااشد ضروری ہے ان کے مابین تنائو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔اس کافائدہ صرف ملک دشمن بیرونی قوتوں کو ہو گا جو پاکستان کوترقی کرتےدیکھنانہیں چاہتیں۔
ایبٹ آباد آپریشن سے بھی ملکی سا لمیت کونقصان پہنچا۔اس واقعے کوتین سال گزرچکے ہیں مگراس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں پولیومہم کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام کا اعتماداس پراٹھ چکاہے۔ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان،شام اور کیمرون میں بڑھتے پولیووائرس کاانکشاف کرکے دنیا کو اس مسئلے کی سنگینی کااحساس دلایاہے۔ وزیراعظم نے پاکستان میں پولیو وائرس کے بڑھتے ہوئے رجحان کافوری نوٹس لیا ہے۔ حکومت نے جنگی بنیادوں پر اس مرض سے نمٹنے کافیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں پولیو مہم کی ناکامی کی اصل وجہ امن وامان کی خراب صورت حال اور عوام میں عدم اعتماد کی فضا کا موجود ہونا ہے۔ اس بات کا اعتراف واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ سے بھی ہو جاتا ہے۔اس چشم کشا رپورٹ میں امریکی سی آئی اے نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ پولیو ویکسی نیشن کی آڑ میں جاسوسی نہیں کرے گی۔ ایبٹ آباد کے آپریشن کے تین سال بعد وائٹ ہائوس کی ترجمان نے گزشتہ دنوں امریکی میڈیاکوبتایاکہ سی آئی اے آئندہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اس طرح کی مہم کاسہارانہیں لے گی۔شکیل آفریدی کے ذریعے پولیوویکسی نیشن کی آڑ میں اسامہ بن لادن کوتلاش کی مہم کے نتیجے میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پولیو کے انسداد کی مہم پاکستان میں مشکوک ہوکررہ گئی بلکہ اس کے خلاف خیبرپختونخوا اور وزیرستان میں شدیدردعمل دیکھنے کوملا۔ پاکستان میں امریکی اقدامات کے ردعمل میں نیٹوسپلائی کو عوام نے کئی ماہ تک احتجاجاً بند رکھا۔اب بھی امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جب تک افغانستان سے امریکی ونیٹوفورسز رخصت نہیں ہوتیں۔اس خطے کو امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ پولیوکے خاتمے کیلئے انسانی بہبود کی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان،کیمرون اور شام میں گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی کااعلان کیاہے۔ان ممالک کے باشندے پولیوویکسی نیشن کے بغیربیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔پاکستان پر پابندی لگنے سے حکومت کو بھی اس معاملے پر بے حد تشویش ہے امریکہ میں پبلک ہیلتھ اسکولوں کے ڈینز نے بھی یہ سوال اٹھایاہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیادپرپولیوویکسی نیشن مہم کے نام پر جاسوسی کرنے کی کوشش نے پبلک ہیلتھ کمیونٹی کومجموعی طور پر زبردست نقصان پہنچایاہے؟واشنگٹن کے ادارے انٹرایکشن کے چیف سام ورتھنگٹن نے بھی اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ انٹیلی جنس اور انسانی بہبود کے اداروں کوجتناواضح انداز میں الگ رکھا جائے۔ اتناہی بہتر ہے پہلے ہی بہت نقصان ہوچکاہےیہ سلسلہ جاری رہا تو مزید نقصان ہوگا۔ان کامزیدکہناتھاکہ شکیل آفریدی انسانی بہبود کی کسی تنظیم کاملازم نہیں تھا مگر اس کی وجہ سے ایسی تنظیموں کوشک کی نظر سے دیکھاجانے لگا ہے۔اس تناظر میں اگر دیکھاجائے تویہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ شکیل آفریدی نے امریکی ڈالروں کے عوض ایک قومی مجرم کاکردار اداکیا۔آج وہ مکافات عمل سے دوچار ہے۔شکیل آفریدی کو23سال قید کی سزاسنائی جاچکی ہے۔امریکہ کئی بار یہ پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرچکاہے کہ شکیل آفریدی کو اس کے حوالے کیاجائے۔پاکستانی حکومت کو امریکہ کودوٹوک جواب دینا چاہئے کہ وہ کسی بھی صورت شکیل آفریدی کو اس کے سپرد نہیں کرے گی۔دورہ امریکہ کے دوران جب امریکی صدر اوباما سے وزیراعظم نوازشریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی تو انہوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کامطالبہ کرتے ہوئے سارے معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملے پر قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ جوڑانہیں جاسکتا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکا۔امریکی عدالت نے قانون وانصاف کی دھجیاں اڑا کر اسے 86سال کی غیر انسانی اور ظالمانہ سزا سنائی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی فیملی نے امریکی فیڈرل کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزاکیخلاف اپیل کی ہے۔ یہ کیس اب دوبارہ میڈیامیں نمایاں ہوگیاہے۔ہماری حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے اپنابھرپور کردار اداکرے اور امریکہ میں فیڈرل کورٹ میں اپیل کے سلسلہ میں عافیہ صدیقی کی فیملی کو مکمل قانونی معاونت فراہم کرے۔حکومت پاکستان اگر خلوص دل سے کوشش کرے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔ اگر ایمل کانسی،یوسف رمزی، حسین حقانی،ریمنڈڈیوس امریکہ کے حوالے کئے جاسکتے ہیں تو آخر کیوں عافیہ صدیقی کوپاکستانی حکومت امریکہ سے نہیں مانگ سکتی؟یہ پاکستانی حکومت کی نااہلی اور غیر ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کو بلاوجہ تاخیر کاشکارکیاجارہاہے۔حکومتوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور سفارتی تعلقات کے ذریعے ان معاملات کوحل کیاجاتاہے۔یوں محسوس ہوتاہے کہ مشرف اور زرداری حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔یہ پاکستان کی بیٹی کی عزت ووقار کامسئلہ ہے اسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرناحکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے برسراقتدار آتے ہی عافیہ صدیقی کی فیملی سے ملاقات کے دوران ان سے وعدہ کیاتھا کہ وہ ایک ماہ میں اپنی پہلی ترجیح کے طور پرقوم کی بیٹی کووطن واپس لائیں گے ان کے اقتدار کوایک سال گزرگیا لیکن اس اہم ایشو پرکوئی قابل ذکر پیشرفت نہ ہوسکی۔ وزیراعظم کواپنے وعدے کوپوراکرناچاہئے۔ابھی حال ہی میں امریکی ایجنٹ ’’جوئل کوکس‘‘ کو کراچی ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔اس کے قبضے سے ناجائز اسلحہ بھی برآمدہوا لیکن صرف چند گھنٹوں تک اسے حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ امریکی بلیک واٹر کی پاکستان میں ڈرامائی گرفتاری، رہائی اور امریکہ روانگی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کتنے مستعد اور فعال ہیں۔یہ سوالیہ نشان ہے کہ ریمنڈڈیوس اور جوئل کوکس جیسے امریکی ایجنٹ پاکستان کس مقصد کیلئے آتے ہیں؟آخر وہ اپنا مشن مکمل کرکے واپس کیسے چلے جاتے ہیں؟ایک تشویشناک پہلوہے جس پر ہمارے سول اور عسکری اداروں کوغوروفکر کرناہوگا۔
تازہ ترین