• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسا زمانہ آ لگا ہے کہ خوبصورتی کا نام آتے ہی صاحبانِ اندیشہ کنوتیاں کھڑی کر لیتے ہیں اور تھوتھنی اٹھا کے بھرائی ہوئی آواز میں پکارتے ہیں، ’فحاشی‘… ’فحاشی‘۔ جو نہیں جانتے کہ ’واللہ جمیل ویحب الجمال‘، ان کے فائدے کے لئے عرض کیا جاتا ہے۔ اب تو خیر گندم میں درانتی پڑ چکی۔ ہفتہ بھر پہلے تک گندم کے لہلہاتے کھیتوں میں ہوا چلتی تھی تو سونے کے تالاب میں لہریں اٹھتی تھیں۔ کارخانے میں پیداوار کا پہیہ گھومے تو چمنی سے دھواں نکلتا ہے۔ ماں باپ بچوں کو شفقت کے کندھے پر بٹھا کر عید کا میلہ دکھانے نکلتے ہیں تاکہ انہیں غربت کی آنچ محسوس نہ ہو۔ مدرسے میں پہلے روز پہنچنے والے بچوں کو بوڑھا استاد اپنی آغوش میں بھر لیتا ہے کہ انہیں گھر سے دوری نہ ستائے۔ ایک غریب الوطن طالب علم ایم آر ڈی کی تحریک میں تھانہ پرانی انار کلی آن پہنچا۔ ایک اجنبی وکیل نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اس مرنجاں مرنج فرشتے کا نام چوہدری اصغر خادم تھا۔ ایک بچہ ضعیف بزرگ کو ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرا رہا تھا۔ ایک سائنسدان گہری ہوتی رات میں تجرباتی نلکیوں سے کھیلتا کسی گمبھیر بیماری کا علاج ڈھونڈ رہا تھا۔ محبت کرنے والے دلوں سے جو نیکی پھوٹتی ہے اسے خوبصورتی کہتے ہیں۔ کائنات میں خوبصورتی کے امکانات متنوع اور بسیط ہیں۔ ہمیں تو نظر کے انتخاب نے رسوا کیا کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بدصورتی کی طرف لپکتے ہیں اور پھر دہائی دیتے ہیں کہ ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے۔ ایک ہی ہفتے میں اتنی بہت سی بری خبریں آئیں کہ ہم جو نباہتے ہیں ، اپنا ہی حوصلہ ہے۔
فاٹا کے ضلع باڑہ میں یہ اشتہار جاری کیا گیا ہے جس میں پاکستان کے قبائلی شہریوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ایک بیٹے کو ہر حال میں ایک کالعدم تنظیم کے مدرسے میں داخل کرائیں اگر والدین عیدالفطر سے قبل اپنے بچے کو داخل کرانے میں ناکام رہے تو انہیں چار لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ کسی دوسرے مکتب فکر کے مدرسے میں داخلے کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ اس اشتہار میں کیا کہا جا رہا ہے؟کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس تنظیم کے دل میں تعلیم کی محبت جاگ اٹھی ہے۔ حضور نرم لفظوں میں یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہر گھرانہ اپنے ایک لخت جگر کو اس تنظیم میں بھرتی کرائے اور توپوں کا چارہ بننے کے لئے پیش کرے۔ یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ اگر کسی گھرانے میں بیٹا موجود نہ ہو تو ان شدت پسندوں کی جوع البشر کیسے بجھائی جائے۔ قلم لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ورنہ اس کی جو متبادل صورتیں قبائلی ہم وطن بیان کرتے ہیں وہ کچھ ایسی ڈھکی چھپی نہیں۔ سو برس قبل پہلی عالمی جنگ میں شمال وسطی پنجاب کے خطے پر لام بندی کا عذاب اترا تھا۔ مائوں نے اپنے جگر گوشوں کو زبردستی آگ اور بارود کی بارش میں جھونکے جانے پر جو نوحے لکھے تھے، لوک شاعری میں اس کے نمونے آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ انگریز تو پیدل سپاہی کو سترہ روپے ماہوار تنخواہ دیتا تھا اور جنگ کے پیشہ ورانہ اصول لاگو ہوتے تھے۔ خیبر ایجنسی میں اس کا بھی امکان نہیں، کوئی بدصورتی سی بدصورتی ہے۔
بلوچستان کے جنوبی ضلع پنجگور میں تمام تعلیمی ادارے دو ہفتے سے بند ہیں۔ ایک غیر معروف تنظیم نے نجی تعلیمی اداروں خصوصاً انگریزی پڑھانے والے مراکز کو دھمکی دی تھی کہ 7 مئی تک یہ ادارے بند کر دیئے جائیں ۔ اشتہار میں علاقے کے اساتذہ کے نام دیئے گئے ہیں اور بلوچ غیرت کو آڑ بنا کر فحاشی کی دہائی دی گئی ہے۔ بلوچ ایک مہذب قوم ہیں۔ جس تہذیب میں مست توکلی جیساانسان دوست شاعر پیدا ہوتا ہے، وہ خطہ علم سے بیگانہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بلوچ ثقافت کا معاملہ نہیں، یہ کثافت تو کہیں اور سے برآمد کی گئی ہے۔ ہمارے شہر سے ہو کر دھواں گزرتا ہے۔
گجرات پولیس نے کالعدم تنظیم کے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے حالیہ عرصے میں فرقہ وارانہ بنیاد پر متعدد وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اس خبر سے زخم ہرے ہو گئے کہ ملزموں نے جن ستم رسیدگاں کے قتل کا اعتراف کیا ہے ان میں پروفیسر شبیر حسین شاہ کا نام بھی شامل ہے۔ آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا،گم کیا ہوا پایا۔ خبر کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ ملزمان نے گجرات کے ایک نواحی قصبے میں ایک ڈاکٹر صاحب کے قتل کا اعتراف بھی کیا ہے۔ پولیس اس قتل کو بھتہ خوری کے ضمن میں شمار کر چکی تھی۔اعتراف جرم کے لئے ٹارچر کی حمایت کرنے والوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس واردات میں ملزم ’اعتراف‘ کر چکے تھے اور مقدمہ زیر سماعت تھا۔ گویا ثابت ہوا کہ پولیس کی تحویل میں ایذا رسانی اور عقوبت کی مدد سے انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ملزموں سے مقتول ڈاکٹر کا قصور پوچھا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک میڈیکل ریپ نے انہیں بتایا تھا کہ موصوف ’لبرل خیالات‘ رکھتے تھے۔ گویا ہم نے تعصب اور اشتعال انگیزی کا کھیل کھیلنے والوں کے ہاتھ میں ’لبرل خیالات‘ کی اصطلاح بھی تھما دی ہے۔ چوتھائی صدی پہلے لاہور کی وفاقی کالونی میں ایک مولانا صاحب ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ معاشرے کو ’پرولتاری شیطانوں ‘نے تباہ کر دیا ہے۔ مولانا موصوف اردو اخبارات میں افغان جہاد کے بارے میں مضامین شوق سے پڑھا کرتے تھے اور انہوں نے دریافت کیا تھا کہ پرولتاری کسی بری مخلوق کو کہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں اشتعال انگیزی کا ہتھیار جس طبقے کے ہاتھ میں ہے ان کی علمی صلاحیت کمزور ہے اور اخلاقی اصابت موہوم۔ ایسے میں اہل دانش پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے لفظوں کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ دس برس پہلے ہمارے نیک طینت صحافیوں نے مذہبی شدت پسندوں کے افعال کی عذر خواہیاں تراشنا شروع کیں تو اس میں ایک حربہ یہ تھا کہ مذہبی انتہا پسندی تو لبرل انتہا پسندی کے ردعمل میں پیدا ہوئی ہے۔ لبرل انتہا پسندی ایک تراشیدہ اصطلاح تھی۔ اس کا لبرل ازم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ اس ملک کے لبرل شہریوں نے کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔ خیبر ایجنسی کے زرطیف آفریدی ، پشاور کے سید جرار حسین، مردان کے ڈاکٹر فاروق ، گجرات کے شبیر حسین اور ملتان کے راشد رحمن نے کسی کا گھر نہیں اجاڑا تھا۔ ہم نے جوش ایمانی میں غضب کیا کہ مقتولوں کو قاتلوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ لاہور کی نام نہاد جدید یونیورسٹیوں میں طالب علموں کی کاروں پر لبرل اور سیکولر افراد کے خلاف گالیاں لکھی ہیں۔ ہر دوسرے رکشے کی پشت پر ملک کے آئین سے بغاوت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ملتان شہر میں سات ہزار وکیل ہیں۔ راشد رحمٰن شہید کے مقدمہ قتل کی پیروی کے لئے کسی کو سامنے آنے کا یارا نہیں۔ عبداللہ حسین کے ناول باگھ کا مرکزی کردار کہتا ہے،’’میں سیاست نہیں جانتا۔ میں تو صرف انصاف مانگتا ہوں‘‘۔ ابھی چند برس پہلے پاکستان کے وکیل آزاد عدلیہ اور انصاف کے نام پر سڑکوں پر آگئے تھے۔اب عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی بالادستی کا سوال ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے،کوئی بدصورتی سی بدصورتی ہے۔
تازہ ترین