• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مستنصر تارڑ کے بہت مداح ہیں خاص کر حجاب میں لپٹی ہوئی لڑکیاں، کوئی تصویر اتروانا چاہتی ہے تو کوئی آٹوگراف تو کوئی کتاب پر اس کے دستخط لینا چاہتی ہے۔ عمران خان کے بھی بہت مداح ہیں، البتہ ان کا تعلق فقہ برگر اور ڈائمنڈ سے ہے، نوجوانوں کا کوئی نہ کوئی ہیرو ہوتا ہے خاص کر فلم اور میوزک سے تعلق رکھنے والی شخصیات جیسے ٹنڈولکر کھیلوں میں، فلموں میں تو بہت سارے خان ہیں، البتہ ادب میں مستنصر کی طرح کا کوئی ثانی نہیں ہے، اسی اعتماد پر اور عمران خان کی طرح مقبول ہونے سند لیے، بغیر کسی ایجنڈے، ورلڈ کپ جیتنے کے لئے کھڑا ہوجائے تو اس کا وہی انجام ہوگا جو حبیب جالب کا ہوا تھا۔ جبیب جالب، ایوب خاں کے زمانے میں محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سے پہلے نظم پڑھا کرتے تھے وہ نظم اور ان کا ترنم، اس قدر مقبول ہوتا تھا کہ سوئی بھی گرے تو پتہ چل جاتا تھا وہ بھی اپنے زعم میں الیکشن لڑنے چلے تھے،783 ووٹ لیکر پھر کانوں کو ہاتھ لگایا، شعر لکھتے رہے مگر الیکشن کا نام بھی نہیں لیا، بہت کہا بھٹو صاحب نے، بہت کہا ولی خاں نے مگر نہ کسی پارٹی کے ساتھ ملے اور نہ اپنے طرز مخالفت سے گریز کیا۔ عمران خان کا مسئلہ اور ہے جب سے انہوں نے ورلڈ کپ جیتا وہ اس دن سے شیروانی سلوا کر اس خواب میں ہیں کہ وہ ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ نوجوانوں اور خواتین میں وہ اب بھی مقبول ہیں مگر اتنے نہیں جتنے کہ وہ سیاست کے نئے نئے میدان میں تھے۔ رہی بات طاہر القادری صاحب کی جو بہرحال مدرسوں اور اسکولوں کے مالک ہونے کے ناتے وہ اپنے اسٹاف اور شاگردوں کے علاوہ ان معصوموں کو جنہیں عرف عام میں عوام کہا جاتا ہے اپنی بسوں میں بھر کر لایا جاتا ہے، یہیں سے اصطلاح نکلی کہ عوام کا سونامی، سارے روایتی سسٹم کو بہا کر لے جائے گا، یہیں ہم بقول اشفاق سلیم مرزا تجزیہ کرتے ہیں کہ ’’عوام‘‘ نام کا کوئی ریلا ہوتا ہے۔
آئیے مغلوں کے زمانے سے شیرشاہ سوری کے زمانے تک ہی آجائیے، کیا یہ برصغیر کے لوگ جو ان کو وسطی ایشیا سے بسم اللہ بسم اللہ کہتے ہوئے لیکر آئے تھے، ان میں سے بیشتر افغانستان میں تو ٹھہر نہ سکے، آئے اور آکر دہلی کو اپنا دارالخلافہ بنایا کوئی5 برس تو کوئی 50 برس حکومت کرتے رہے، جب کسی کا دور ختم ہوا تو کیا عوام کے نرغے میں آگئے تھے، نہیں، دوسری قوتیں طاقتور ہوگئی تھیں، مغلوں کا دور بھی مرہٹوں کے زور کے باعث، اورنگ زیب کے ہاتھوں ختم ہوا، عوام یہاں پھر بے بس اور بے نام رہے، انگریز اور پرتگیزی آئے تو کونسا عوام نے انہیں بلایا تھا، اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے، ہاں عوام نے اگر انگریزوں کے خلاف کوئی مزاحمت کی تو وہ جلیانوالہ باغ میں یا پھر بھگت سنگھ کے زمانے میں ہوئی۔ نحیف و نزار بہادر شاہ ظفر تو خود اتنے کمزور تھے کہ ان کے بیٹوں کے سرکاٹ کر تھال میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کئے گئے تو نہ وہ خود کچھ کر سکے اور نہ کمزور عوام کہ نہ ان کا کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی نقطہ نظر۔ گاندھی جی کے حلیے اور چرخے نے لوگوں میں ایسے ہی آگ بھری جیسے 1940ء کے جلسے میں ہند سندھ سب علاقوں سے مسلمان مرد اور عورتیں سب جمع ہو گئی تھیں مگر عوام کے ہجوم کے سامنے انگریز حکومت چھوڑ کر نہیں گئے وہ تو دوسری جنگ عظیم میں ہارنے کے بعد خود ہی مزید حکومت کرنے کو تیار نہ تھے، اپنی مرضی سے تقسیم ہند کا نقشہ بنایا، ہر چند قائداعظم نے بہت شور مچایا کہ اس طرح کا کٹا پھٹا پاکستان منظور نہیں مگر انگریز پنڈت نہرو کی دوستی میں کشمیر اور دیگر ریاستوں کا قضیہ نہرو پر ہی چھوڑ کر اپنے وطن سدھارے۔مسلمانوں، ہندوئوں اورسکھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو سلوک کیا وہ منظر نامہ تو اردو، ہندی ادب کے علاوہ گرمکھی میں بھی زندہ جاوید اور خونی قلم سے لکھا ہوا نظر آتا ہے ہمیں جب اختیار ملتا ہے تو ہم گجرات کا سانحہ کرتے ہیں، سکھوں کا قتل عام کرتے ہیں اور پاکستان میں تو سر قلم کرنے کی روایت اتنی فروغ پائی کہ سب ہم سے پیچھے رہ گئے ہوں۔
پاکستان کی تاریخ بھی سیاسی ریشہ دوانیوں سے بھری ہوئی ہے، قائداعظم موت و زندگی کی کشمکش میں ایئرپورٹ سے آتے ہوئے خراب گاڑی میں پڑے تھے تو کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا تھا، ہمیں ماتم کرنا آتا ہے، چاہے امام حسینؓ کا ہو کہ قائد اعظم کا، یہ روایت بھی بھٹو صاحب کی پھانسی پر ختم ہوگئی، لوگ جمع ہوئے مگر ملک بھر میں وہ عوامی سیلاب نہیں آیا کہ ضیا الحق کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا، بے نظیر کی ظالمانہ موت پر بھی وہی ماتم کرتے لوگ سامنے آئے۔ کسی نے آمریت کو للکارا نہیں عوام کا سیلاب، بنگال میں آیا، لوگوں نے برچھیوں اور چاقوئوں سے کام لیا خود ہی ترانے بنائے اور گائے ہر چند ہندوستانی فوج نے بنگالیوں کی مدد کی، تبھی تو جنرل اروڑہ کے سامنے جنرل نیازی نے ہتھیار مسکراتے ہوئے ڈالے تھے، جب نیازی وطن لوٹا تو اس کے گھر لوگوں نے پھول اور مٹھائیاں بھیجیں۔ عوام نے اس کے گھر کو آگ نہیں لگائی، ایوب خاں ہوں کہ یحییٰ خاں کہ نیازی، خاموشی سے مر گئے جو بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلی وہ جماعت اسلامی اور مدرسوں کے بچوں نے چلائی، بالکل اس طرح کہ جیسے اب مدرسوں کے بچے جلوس نکال رہے ہیں، بنگال میں تو خون کے دھبے آج تک نہیں دھل سکے ہیں، نفرت کے بیج جو ابتدا میں بوئے گئے تھے اسی طرح کے الزامات خود بنگالی، مغربی پاکستان والوں پر لگاتے تھے، آج بلوچستان والے ہوں کہ سندھ والے، وہی اور اسی طرح کے الزامات پنجاب پر لگا رہے ہیں، حالانکہ سندھ میں کھجوریں سکھانے کا کام ہو کہ رلیاں بنانے، وہ سب عورتیں کرتی ہیں مرد پلنگوں پر بیٹھے سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں بلوچی کڑھائی کر کے آنکھیں ختم کرلیتی ہیں مگر وہ سب عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قطر، دوہا اور بحرین میں کپڑے بناکر سپلائی کرتی ہوں، مرد وہ کام جو انہیں کان کنی کرکے پہاڑوں سے سونا نکالنا چاہئے ان کو علاقوں کے سردار کرنے ہی نہیں دیتے، آخر کو وہ نوجوان ریل کی پٹڑیوں سے گیس کی پائپ لائنیں اڑاتے ہیں، نوجوان خون کام چاہتا ہے، وہی نوجوان خون، عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کو سچ سمجھ کر پنجاب اور کے پی کے کے نوجوان واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، وہ اپنی ٹی شرٹ پہنے نعرے لگاتے آگے آتے ہیں کوئی باقاعدہ لائحہ عمل ان کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ کینیڈا میں بیٹھ کر قادری صاحب ویلفیئر اسٹیٹ کے نظریئے کو تقریر کے ذریعہ ایسے پیش کررہے ہیں جیسے ہم لوگ جو سارے زمانے کی خاک چھان چکے ہیں کہ ان باتوں کی اوپری مٹھاس اور اندر کی تلخی کو جانتے ہی نہیں۔ آپ لوگوں سے مستنصر ہی بہتر ہے جو خواب دکھاتا ہے کوئی ایسا نہیں جو اسے کہے خواب نہیں ہمیں حقیقت چاہئے۔ خواب ہوں گے تو خلیل جبران ہوکہ مستنصر، ان کی زندگی اور محبوبیت بڑھے گی۔ عمران خاں کی محبوبیت اب وہ نہیں کہ کے پی کا زائچہ بتاتا ہے کہ ایم پی اے حضرات مچھلیوں کی طرح پھسل جاتے ہیں جتنی جلدی کما سکیں۔ وہ سب ایسی کوشش میں ہیں عمران خاں کو صرف نعرے نہیں ہمت والے جوان چاہئیں۔
تازہ ترین