• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مار ہی ڈالے جو بے موت، یہ دنیا وہ ہے
ہم جو زندہ ہیں تو جینے کا ہنر رکھتے ہیں
ہم سے اس درجہ تغافل بھی نہ بر تو صاحب
ہم بھی کچھ اپنی دعائوں میں اثر رکھتے ہیں
جاں نثار اختر کے مندرجہ بالا اشعار ہمارے وزیراعظم کے روئیے اور عوام کی دہائی پر حسب حال ہیں سوچا عوام کی نذر کروں۔ اگرچہ پنجاب میں ہونے والی بارشوں نے گرمی کا زور توڑ دیا ہے اور موسم کچھ شہروں میں تو خاصا خوشگوار ہوگیا ہے مگر پھر بھی لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ اپنے اندر غم و غصہ رکھتے ہیں اور اسے زائل کرنے کے مختلف بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں حکومت کی سطح پر بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لئے انتھک مخلص کوششیں جاری ہیں جوکہ آئندہ چند سالوں میں رنگ لائیں گی مگر ایسا نہ ہوکہ کہیں اس سے پہلے عمران خان کی ریلیاں اور علامہ طاہر القادری کا چلہ کوئی رنگ لے آئے۔
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
گزشتہ دنوں ایک مقامی کلب میں جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد نے ہمارے مشترکہ دوست جناب قمر الدین بوہرہ کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں کافی تعداد میں پی سی او زدہ جج صاحبان نے شرکت کی جوکہ 31؍جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے متاثر ہوکر اپنے عہدوں سے سبکدوش ہوگئے تھے۔ ان میں کچھ سیشن جج صاحبان بھی تھے۔ عہدوں سے سبکدوشی کے بعد جو جج صاحبان 60سال سے زیادہ عمر کے ہوگئے تھے وہ واپس سیشن جج نہیں بن سکتے تھے لہٰذا انہیں ہائیکورٹ جج کی پنشن دی گئی۔ اس میں فیڈرل شریعت کورٹ کے جج صاحبان بھی شامل تھے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کی ایک فیصلے کے ذریعے ان کی ہائیکورٹ جج کی پنشن بند ہوگئی مگر وہ پنشن جس کا استحقاق ان کو بطور سیشن جج تھا وہ بھی رک گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان کو نہ تو ہائیکورٹ جج کی پنشن مل رہی ہے اور نہ ہی سیشن جج کی۔ گویا کوئی بھی پنشن نہیں مل رہی۔ یہ صورت حال انتہائی گمبھیر ہے۔ جج ایک عزت دار شخص ہوتا ہے اور اپنے عہدے کے اعتبار سے اس کے لئے سرکاری دفتروں کے چکر لگانا اسے زیب نہیں دیتا نہ ہی وہ کلرکوں کے پاس جاکر فائل کو پہیے (WHEELS) لگا سکتا ہے کیونکہ یہ اس کے مرتبے کے شایان شان نہیں ہے۔ ایسی صورت میں موجودہ چیف جسٹس اور جج صاحبان اور رجسٹرار ہائیکورٹ پر یہ اخلاقی فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے اسٹاف کے ذریعے ریٹائرڈ جج صاحبان کے مالی معاملات جو حکومت کے دفتروں میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں حل کروانے میں ان کی مدد کریں۔ ایک خاتون ہائیکورٹ کی جج صاحبہ جوکہ کافی عرصہ سیشن جج اور نیب عدالت کی جج رہ چکی ہیں انہوں نے شکایت کی کہ ان کو ایک روپیہ بھی پنشن کی مد میں نہیں مل رہا جبکہ تقریباً 33سال نوکری کی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ میں نے جج صاحبان سے وعدہ کیا تھا کہ اپنے آئندہ کالم کے ذریعے حکام بالا، جناب چیف جسٹس صاحب سندھ ہائیکورٹ و چیف جسٹس سپریم کورٹ تک ان کے احساسات پہنچا دوں گا۔ سو میں نے ان سطور کے ذریعے اپنا کیا ہوا وعدہ نبھا دیا اور مجھے قوی امید ہے کہ جناب چیف جسٹس اس مسئلے پر غور فرمائیں گے اور سابقہ ریٹائرڈ ججوں کو معاشی معاملات کو سلجھائیں گے۔ جاں نثار اختر کا ایک اور شعر ہے۔
لمحے لمحے کی سیاست پہ نظر رکھتے ہیں
ہم سے دیوانے بھی دنیا کی خبر رکھتے ہیں
کراچی کے حالات پھر دوبارہ خراب ہونے شروع ہوگئے ہیں اور اب تو پولیس کے محکمے میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر بھی شہر کی صورت حال پر پڑنے کا خدشہ ہے۔ دعا ہے کہ اثر مثبت ہو تاکہ جانوں کا زیاں بچ جائے۔ کرکٹ بورڈ میں بھی میوزیکل چیئر کا گیم ہورہا ہے ایک چیئرمین چارج لیتا ہے تو پہلے والا دوبارہ آجاتا ہے۔ یہ بھی بیٹسمینوں کی طرح ایل بی ڈبلیو اور رن آئوٹ ہورہے ہیں اور پھر دوسری اننگ کھیلنے آجاتے ہیں۔ اب تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہوگیا ہے۔ آنے والے کو جلدی ہے کہ سارا کام ایک ہی اوور میں کرے۔ دیکھئے معاملہ سپریم کورٹ میں 27؍مئی کو ہے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ لوگوں کے لئے تو ایک دلچسپی کا منظر بنا ہوا ہے بیرون ملک لوگوں کے لئے یقیناً مزاحیہ پروگرام ہوگا اور لوگ اس سے محظوظ ہورہے ہوں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسرے ملکوں میں بھی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں یا نہیں مگر ہمارے ملک میں تو اب یہ ریت پڑ گئی ہے اور اب آگے خدا خیر کرے۔
نئی خبر آئی ہے کہ طالبان کے کچھ گروپوں نے مذاکرات کو خیرباد کہہ دیا ہے اور جنگ بندی سے بھی ہاتھ اٹھالیا ہے یہ خبر کافی تشویش ناک ہے۔ اگرچہ حکومت اس معاملے میں چوکنا ہوگی اور ضروری سیکورٹی انتظامات پر ان کی مکمل نظر ہوگی لیکن اس کے باوجود صورت حال زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے معاملات میں کافی جانی اور مالی نقصانات ہوچکے ہیں اور بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ میری تمام فریقین سے گزارش ہے کہ ان معاملات پر دوبارہ غور غوض کریں اور بے گناہ انسانی جانوں کے زیاں کو روکنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ ملک کا قانون بھی اور ہمارا مذہب بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور ہمیں بھائی چارے کی تربیت دیتا ہے۔ مسلمان پر مسلمان کا خون حرام ہے لیکن اس کے باوجود ہم ہر روز اتنے افسوسناک واقعات دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ اس کے لئے تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ پاک اس ملک کو امن کا گہوارا بنادے اور ہم ترقی اور خوشحالی کی منزل پر گامزن ہوکر باعزت قوموں میں شامل ہو جائیں۔ آخر میں فیض صاحب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے، کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روز جزا گیا
نہ وہ رنگ فصل بہار کا، نہ روش ابر بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاج باد صبا گیا
تازہ ترین