• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچھی خبر یہ ہے بھارتی وزیر اعظم نے پاکستانی وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔یہ اچھی روایت میاں نواز شریف نے ڈالی تھی اور تقریب حلف براداری میں شرکت نہ کرکے بُری روایت منموہن سنگھ نے ۔ میاں صاحب کو بری روایت کو فالو نہیں کرنا چاہئے۔ممکن ہے ان آنیوں جانیوں سے بغض و عناد کی برف نہ پگھلے جیسا کہ حامدکرزئی اور صدر زرداری کی مثال موجود ہے مگر پھر بھی بات چیت کا عمل جاری رہنا بہتر عمل ہے ۔ میںاپنے کالموں میںاکثرذکر کرتا ہوں قوموں کی ترقی کیلئے ہم حال قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم حال ہو گی تو ہم خیال بھی ہو گی ۔بھارت نے راز پا لیا ہے اور ہم حال لیڈر نریندر امودی پر اعتماد کرکے نہرو وراثت کو عارضی طورپر ہی سہی دیس نکالا دے دیا ہے۔ مودی کا والد پرچون کی معمولی دکان کرتا تھا والدہ لوگوں کے برتن مانجھتی اور خود مودی اسٹیشن پر گرم چائے فروخت کرتا۔اوائل عمری میں آ ر ایس ایس جائن کر لی ۔تربیت کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔عملی سیاست میں قدم رکھااور پھر قدم بڑھاتے بڑھاتے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔آر ایس ایس نے جس مزاج میں ڈھالا اس کا تقاضا پاکستان اورمسلم دشمنی فطری تھا۔لہو گرمانےاور جذبات بھڑکانےکےفن میں یکتا۔ سیکولرازم کے مخالف، ہندو ازم کے پرستار۔ بھارت کی ایکتا بھی چاہتے ہیںمگر سب اقلیتوں کے مخالف بھی۔ وہی آر ایس ایس کا ایجنڈا بھارت میں رہنا ہے تو پھر ہندو بننا ہو گا ۔حیرت ہے کس قدر ہوشیار ہیں یہ برہمنی لیڈر ،اور کس قدر گائو دی ہیں ہندو دھرم کو ماننے والے ۔جو دھرم آپ یعنی شودروں کو انسان ہی نہیں مانتا ،انسان شکل وصورت میں پشو یعنی جانور کہتا ہے اوردعویدارہے جس طرح خچرگدھے اور دیگر پشو ہماری خدمت کیلئے بنائے گئے ہیں اسی طرح یہ انسان نما پشو بھی ہماری خدمت کیلئے ہیں۔
شودر خود کو نہ صرف پشومانتے ہیں،پشو کہنے والے دھرم کو پوجتے ہیں اور اس کیلئے مرنے مارنے پر ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔یہی پشو بی جے بی۔آر ایس ایس،بال ٹھاکرے اور اسی طرح کی دیگرانتہا پسند تنظیموں کا ہر اول دستہ ہیںاور ہزاروں سال سے ایسے ہی ہیں ۔قارئین اس موضوع پر الگ سے کالم لکھوں گا سردست زیر بحث موضوع پرتوجہ مرکوز کرتے ہیں ۔کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے مودی کے بیانات سب الیکشن اٹھکیلیاں ہیں، اقتدار میں آئیں گے ، بین الاقوامی سیاسی منظر نامے سے واسطہ پڑےگا تو سنبھل جائیں گے ۔مانامگریاد رکھنے کی بات ہے پارلیمانی لیڈر کی نامزدگی سے لے کر الیکشن مہم تک آر ایس ایس کے رضاکار تواتر کے ساتھ مودی کے جلسوں کی رونق بڑھاتے رہے ہیں۔ الیکشن کے دن گھروں سے نیکربنیان اور ٹوپی میں ملبوس مونڈھے پر لاٹھی رکھے رضا کار گھر گھر جا کر لوگوں کو مودی کو ووٹ دینے کی تلقین کے ساتھ پولنگ اسٹیشن بھیجتے رہے ہیں ۔ایک لمحہ کیلئے نچلے نہیں بیٹھے ۔ انتہا پسند ہندوئوں کے دبائو میں ہی مودی نے مسلمانوں کی ٹوپی پہننے اور اتر پردیش میں ہونے والے فسادات جن کا شکار زیادہ ترمسلمان تھے کی مذمت سے انکار کر دیا تھا۔ یہ الیکشن بی جے پی سے زیادہ مودی کے نام پر جیتا گیا ہے ۔بھارت ایکتا کے دعویدار اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہیں گے اور مودی کی مجبوریوں کو مد نظر نہیں رکھیں گے ۔ بھارت کے نئے آرمی چیف دلبیر سنگھ بادل مودی سے بڑھ کر پاکستان مخالف ہیں ۔سنگھ پریوار کے مقاصد کی تکمیل کیلئے اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا ۔ بھارت ایکتا اور نیشنلزم سے مراد ہندوئوں کی بالا دستی ہے ۔ بی جے پی کے 282کامیاب ممبران میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ۔یہ اتفاق نہیں پروگرام کاحصہ ہے۔ مودی انتہا پسندی والا سبق بھولنا بھی چاہیںگے تو آر ایس ایس والے انہیں یاد دلاتے رہیں گے ۔مسلمان متحد ہونے کی بجائے دھڑوں میں بٹ کر پٹ گئے۔ 543کے ایوان میں 20 مسلمان ہیں آواز اٹھائیں گے بھی تو نقار خانے میں طوطی والا ہی تماشہ ہو گا۔ بھارت نے امریکہ سے مل کر پاکستان کوچاروںاطراف گھیر رکھا ہے ۔افغانستان سے نیٹو افواج بھارت کو چارج دے کر نکل رہی ہیں جن کو دس ہزار امریکی کمانڈاینڈ سپورٹ کریں گے ۔
سیاچن پر بھارتی افواج سب سے اونچی چوٹی پر ہیں ٹیلیفون اور ہیلی پیڈ کی تکمیل مستقل قیام کا اشارہ ہے۔ اونچائی پر نصب بھارتی توپوں اور میزائلوںکی مار کی حد میں پورا پاکستان ہے۔ یاد رکھیں جنگ کی صورت میں منگلا اور تربیلا کی دیواریں سیاچن پر نصب بھارتی میزائلوں نے توڑ دیں تو پانی کا یہ سیلاب پاکستانیوں کی تباہی کے لئے کافی ہو گا ۔ معاشی ترقی کیلئے امن کی ضرورت ہے ۔جنگ نے امریکہ جیسی بڑی معیشت کو دیوالیہ کر دیا ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جو اچھے کی امید دلاتا ہے مگر پاک و ہند کے لیڈر اچھی طرح جانتے ہیں عوام بیوقوف ہیں انہیں نعروں سے بہلایا جا سکتا ہے ، ترقی کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔ گجرات پر مودی نے 12سال حکومت کی ہے ،چند کیری اوورڈیمز ،آئی ٹی پارکوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا ۔گجرات کا آج بھی بھارت کی غریب ریاستوں میں شمار ہوتا ہے ۔مودی اچھی طرح جانتے ہیں لوگوں نے انہیں ووٹ پاکستان اور اسلام دشمنی کے نعروں کی وجہ سے دئیے ہیں معاشی ترقی کے نام پر نہیں ۔معاشی ترقی کی بنیاد پر دینے ہوتے تو کانگریس کو دیتے ۔1990تک بھارت کے ریزرو27ارب سے کبھی زائد نہیں رہے۔ کانگرس کے دس سالوں میں 280ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں ۔نوبل انعام یافتہ بھارتی اکانومسٹ امریتا سین اور منموہن سنگھ کی مشترکہ کاوشوں سے بھارت کا شمار دنیا کی پہلی دس معیشتوں میں ہونے لگا ہے ۔غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت کے مطابق ہائی ویز( موٹر ویز نہیں) اور صنعتوں کے لئے بنیادی سہولتوںکا جال بچھایا جس نے روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کئے۔
کانگریس نے پاکستانی حکمرانوں کی طرح رئیل اسٹیٹ ، بینکنگ ،کیش اینڈ کیری سیلولر انڈسٹری جیسی ڈنگ ٹپائو غیر ملکی سرمایہ کاری کی بجائے بھاری صنعتوں کے شعبے میںغیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت دی۔جس شعبے میں بھارتی سرمایہ کاروں کو تجربہ تھا وہاں انہیں تحفظ دیا ۔ حماقتوں کی وجہ سے آج پاکستان موبائل فونز کی بڑی مارکیٹ بن گیا ہے ۔جی3 اورجی4 کی لائسنسنگ سے آنے والے ڈالر جلد مہنگے فونز کی در آمد سے واپس یورپ اورچین چلے جائیں گے ۔جی3 بارہ ہزار اورجی4 سے مسابقت رکھنے والا فون75 ہزار سے شروع ہوتا ہے۔بھارت کی کوشش ہے ضرورت کی تمام مصنوعات بھارت کے اندر تیار ہوں یا کم ازکم وہاں پرزے جوڑکر تیارکی جائیں۔طویل المعیاد منصوبوں کی رفتار سست ہوتی ہے ،اس لئے معاشی فوائد جلدسامنے نہیں آتے لہٰذا سیاسی فوائدکانہ ملنے کا خطرہ ہوتا ہے مگرطویل المیعاد منصوبہ بندی حب الوطنی کا تقاضا ہے اورقوموں کی ترقی کیلئے قیادت اپنا کردار سیاسی فوائد سے بالاتر ہو کر کرتی ہے ،کانگریس نے یہ کردار ادا کیا ہے اور حب حب قوم کا خمیازہ بھی بھگتا ہے ۔ انتخابات میں کانگریس اتحاد کو صرف 58نشستیں ملی ہیں۔ جارجیا یونیورسٹی کے ماہر معاشیات اورمودی کے متوقع مشیر گلدیش بھاگ وتی طویل المعیاد اور مختصر المعیاد منصوبوں کو ملا کرمعیشت کو بڑھاوا دینے کے خواہش مند ہیں ۔ ان کی رائے ہے بھارتی معیشت اب مضبوط بنیاد کی حامل ہے، اب ہمیں مختصر المعیاد سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے ۔وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کار کے ساتھ ٹیسکو اور وال مارٹ جیسی کیش ایند کیری کمپنیوں کو بھی بھارت آنے کی اجازت دیں گے جوبیروزگاری کے خاتمے کیلئے ضروری ہیں۔مودی خوش قسمت ہیں انہیںکچھ کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔اگر انہوںنے جنگ کا راستہ اختیار کیا تو شاید کسی کے بھی کچھ ہاتھ نہ آئے ۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے امن کے مواقع دونوں ممالک کے پاس کم ہیں۔ قدرت نفوذ امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔ بھارت کا صنعتوں کی بنیادی سہولتوں کا ڈھانچہ مغرب کی ملٹی نیشل کمپنیوںکی پشتیبانی پر کھڑا ہے ۔280ارب ڈالر انہی کمپنیوں کے ہیں جو امریکہ کے ایجنڈے سے منسلک ہیں ۔اگر بھارت نے امریکی ایجنڈے سے ہٹنے کی کوشش کی تو یہ ڈالر کبوتروں کی طرح اُڑ جائیں گے ۔ ہرکوئی بھی صنعتی نظم اس کی پیداوار کی مانگ پر ہی کھڑا رہ سکتا ہے اگر ملٹی نیشل کمپنیوں نےاپنی طلب کے آرڈر روک لئے تو بھارت کا یہ سیٹ اپ دھڑام سے نیچے آ جائےگا۔امریکہ ہر حال میں بھارت کی موجودگی افغانستان میں چاہتا ہے ۔بھارتی فوج افغانستان پر قبضہ کرکے اپنی ہزار سالہ تاریخ کا حساب چکانے کے لئے بیتاب ہے اور امریکہ ان بیتابیوں کو ہوا دے رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی امریکہ کی موجودگی تصور ہوگی ۔طالبان کی پہاڑوں تک محدودیت اور امریکہ ،بھارت کی حفاظت میں عراقی نمونے کی آئینی حکومت امریکہ کی فتح اور طالبان کی شکست کہلا سکتی ہے۔ پاکستانی فوج اپنے ارد گرد اس گھیرے کو محسوس کرتی ہے۔ سول حکومتیں فوج کو اپنا سیاسی رقیب سمجھتی ہیں یہی وجہ ہے دونوں ایک پیج کی دعویدار ہونے کے باجود ایک پیج پر نظر نہیں آ رہیں ۔یہ دنیا کا وکھرا تے انوکھا منظر نامہ ہے۔لوگ اکثر سوال کرتے ہیں جب امریکہ خود کامیاب نہیں ہوا توبھارت اس کی مدد سے کیسے کامیاب ہو گا ۔یقینا ناکامی کا امکان ہے مگر ایک بات یاد رکھیںبھارت سمیت خطے کے تمام ممالک امریکہ کی ہمسائیگی کے مخالف تھے مگر ماسوائے پاکستان کے بھارت کا کوئی مخالف نہیں۔
ایران سے رومانس ہے، روس سے دیرینہ دوستی ہے، چینی اور بھارتی سرمایہ کار مشترکہ منصوبوںپر کام کر رہے ہیں۔چین بھارت تجارت 60ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہے ۔کیا پاک بھارت جنگ کی صورت میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا جواب بہت مبہم ہے۔ 1971میں تو ایسا نہیں ہوا تھا ۔ایک دوسرے پر انحصار امن کا ضامن ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ وسیلہ اثر ورسوخ بھی پاک بھارت تعلقات میں شامل نہیں۔ ایرانی گیس بن سکتی تھی مگر بھارت کے انکار سے ایسا نہیں ہو سکا ۔ بھارت ایران سے گیس تیل دونوں سمندر کے راستے مہنگے داموں درآمد کر رہا ہے مگر پاکستان کے راستے سستی گیس خریدنا اسے گوارا نہیں کیا ۔یقینا کچھ تو پردہ داری ہے ،یہی پردہ پاک بھارت تعلقات پر ہے ،نہ جانے پردے کے نیچے سے کیا نکلے جنگی تباہی یا خوشحالی۔پہلا سال تو خاصا مبہم ہوگا۔
تازہ ترین