• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نوازشریف کی معاشی پالیسیوں، نوجوانوں کو قرضے دے کر خوش رکھنے کی حکمت عملی، ڈالر اکٹھا کرنے کے لئے غیر ملکی دوروں اور میاں شہباز شریف کی طرف سے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو نیویارک، پیرس، لندن کا ہم پلہ شہر بنانے کی کوششوں کو دیکھ کر راوی ہر سو چین لکھتا ہے اور کوئی شخص یہ سوچ نہیںسکتا کہ موجودہ حکومت کسی عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے اور منتشر و ژولیدہ فکر اپوزیشن کوئی احتجاجی تحریک اٹھانے کے قابل ہے۔
مگر حکمرانوں کے بیانات، دانشوروں کے تجزیوں اور عوامی گپ شپ میں ہر جگہ آئی جے آئی طرز کے سیاسی اتحاد اور 1977 جیسی احتجاجی تحریک کا ذکر سننے کو ملتا ہے تو کیا درون پردہ کوئی کھیل جاری ہے؟جس کی وجہ سے ہر باخبر کل کے بارے میں پریشان ہے اور اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار؟
ہم دودھ کے جلے ہیں چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینی چاہیے مگر ہمارے حکمرانوں کو خواہ فوجی ہوں یا سول، موجودہ ہوں یا گزشتہ اللہ تعالیٰ نے اس صلاحیت سےنواز ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحومؒ کے بقول یہ کودن غلطی بھی نئی نہیں کرتے باربار وہی دھراتے ہیں جن کی سزا یہ خود اور عوام بھگت چکےہوتےہیں۔
یہ کل کا خوف ہے جس نے شائد موجودہ حکمرانوں کو 1993 اور 1999 کی غلطیاں دہرانے پر مجبور کیا ہے اگر جانتے کہ کل کس نے دیکھا ہے اورکل پر کسی کا اختیار نہیں تو کبھی ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا نہ کرتے اوراس عارضی فائدے پر خوش نہ ہوتے کہ میڈیا کی باہمی لڑائی، پرویز مشرف کے حوالے سے قانونی حلقوں کی تقسیم اور طالبان مذاکرات پر قومی سطح پر انتشار انگیز مباحثے کے سبب اصل عوامی ایشوز غربت، افلاس، مہنگائی ، بےروزگاری اور لوڈشیڈنگ میڈیا کی سکرین اور عوامی احتجاج سے غائب ہیں او ر مخالف سیاستدانوں، مذہبی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں کی گفتگو، بیانات اور تجزیوں کا محور و مرکز نہیں۔ پست ترین موضوعات پیمرا کے اختیارات، ریٹرننگ افسروں کی ملی بھگت اور پی سی بی پر قبضے کے لئے نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کی بھاگ دوڑ قومی افق پر چھائےہیں اور حکومت تماش بین کا کردار ادا کر رہی ہے۔
12اکتوبر1999 کی صبح کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ آج شام منتخب حکومت کی طرف سے معزول کیا جانے والا فضائوں میں معلق آرمی چیف کل اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹو ہوگا اور وزیراعظم کال کوٹھڑی میں بیٹھا گئے دنوں کا حساب کر رہا ہوگا اور 27 دسمبر 2007 کی صبح کس کے وہم و گمان میں یہ بات آسکتی تھی کہ اس ملک کا حکمران بے نظیر بھٹو نہیں آصف علی زرداری ہوگا جو 1977 کے بعد پہلی بار اپنی ٹرم پوری کرے گا۔
یہ کل کو ڈرائونا خواب بنانے اور آج کوبہتر بنانے کے بجائے کل کے خوف میں مبتلا رہنے کی نفسیات ہے جس نے حکمرانوں کی قوت فیصلہ چھین لی ہے وہ معاملات کو لٹکائے چلے جانےکی راہ پر گامزن ہیں اپنے سیاسی، گروہی مفادات کے سوا انہیں سوجھتا کچھ نہیں اور لاہور کے سوا انہیں کوئی شہر نظر آتا ہے نہ پنجاب کے سواکوئی صوبہ جسے وہ نیویارک لندن کا ہم پلہ بنا سکیں جہاں ترقی و خوشحالی کے منصوبے بروئے کار لا سکیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا نہ سہی جنوبی پنجاب ہی سہی جو اپنا ووٹ مسلم لیگ (ن) کی صندوقچی میں ڈال چکا ہے۔
1977میں جمہوریت بھٹو صاحب کی ان غلطیوں کی بنا پر ڈی ریل ہوئی جو انہوں نے پانچ سال روا رکھیں۔ بدترین انتخابی دھاندلی نے انہیں اخلاقی ساکھ سے محروم کیا اور فوج سمیت کسی کے لئے ان کا دفاع ممکن نہ رہا تب نیشنلائزیشن نے تباہی مچائی اب پرائیوٹائزیشن کئی اجارہ داریوں کی راہ ہموار کر رہی ہے جو بالآخر عوام کی محرومی میں اضافہ کرے گی اور اقربا پروری و کرپشن کے الزامات کا باعث بن سکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس، طالبان سے نیم دلانہ مذاکرات اور بنیادی نوعیت کے ایشوز پر تصفیہ کے بغیر بھارت سے تجارت، حکومت اور دفاعی اداروں کے مابین بدمزگی کاباعث بنے اور خواجہ آصف جیسے ارکان کابینہ کے بیانات نے جلتی پر تیل ڈالا مگر قصور کس کا ہے؟ میڈیا کی آزادی کے لئے خطرات کس کی بے عملی، بے تدبیری شاخسانہ ہیں؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
کیا اداروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے اور ان کے داخلی معاملات میں دراندازی کا اس کے سوا کوئی جواز ہے کہ اقتدار و اختیار کے سوتوں پر قابض اب بھی 1999 کی طرح کل سے خوفزدہ ہیں انہیں اپنے اور قوم کے آج کی فکر ہے نہ ماضی سے سبق سیکھ کر آج بہتر بنانے کا شوق۔ وہ سبق سیکھنے کے بجائے دوسروں کوسبق سکھانے کی روش پر گامزن ہیں اورنتائج سےقطعی بے نیازجس کی وجہ سے بحران روز بروز شدید ہوتا جارہا ہے۔ آزادیٔ صحافت، بری بھلی جمہوریت اور شہری آزادیوں کے لئے خطرات ہرایک کو محسوس ہونے لگےہیں۔
کل پر کسی کو اختیار نہیں، ہمیں اپناکل بہتر بنانے کے لئے دوسروں کا آج برباد کرنے کی موجودہ روش ترک کرنی پڑے گی۔ جو دوسروں کا کل بہتر بنانے کے لئے اپنے آج کی قربانی دیتے ہیں وہ قومی ہیرو قرار پاتے ہیں جس کا آج گزرے کل سے بہتر نہیں اس کا آنے والا کل کبھی بہترہو ہی نہیں سکتا۔ یہ قانون قدرت ہے، ہمیں فکر آج کی کرنی چاہیے مگر ہم مرے کل کے لئے جا رہے ہیں جو کسی نے دیکھا ہی نہیں ہمیں تیار برے سے برے حالات کے لئے رہنا چاہیے مگر امید خیر کی رکھنی چاہیے کیونکہ ایمان خوف و رجا، ڈر اور امید کی درمیانی کیفیت کا نام ہے مگر فیصلہ سازوں کو یہ سمجھائے کون؟
ملک میں اس وقت انتشار، ہنگامہ آرائی اور دنگا فساد کی جو کیفیت نظر آتی ہے وہ کسی کی سازش اور منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اپنی بے تدبیری ، بے عملی اور غفلت کا نتیجہ ہے ادارے اداروں سے، گروہ گروہوں سے، سیاستدان سیاستدانوں سے، صحافی صحافیوں سے، قانون دان عدالتوں سے اور مذہبی رہنما اپنے ہی ہم شکل، ہم مشرب و مزاج علما سے دست و گریباں ہیں اور جا بجا کردار کشی، الزام تراشی،خودشکنی کا کلچر فروغ پذیر ہے طوائف الملوکی اور کس چڑیا کا نام ہے مگر ریاستی ادارے اور حکومتی نمائندے تماشادیکھ رہے ہیں یا تبلیغ و تلقین میں مصروف۔ یہی حالات لوگوں کوسڑکوں پر فیصلے کرنے اور نجی و قومی املاک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی طرف راغب کرتے ہیں اور میرے جیسے کمزور دل اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوتےہیں جبکہ جید تجزیہ نگار اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے لوگ پی این اے یا آئی جے آئی جیسے اتحاد کی پیش گوئی سے داد سمیٹتے ہیں۔
تازہ ترین