• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھائی لینڈ میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے،وہاں کے آئین کو معطل کردیاگیا ہے صرف آئین کی شق 2-کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق بادشاہ سربراہ مملکت ہوگا۔ سیاسی رہنماؤں کو بھی نظر بند کردیا گیا ہے اور ’’قومی مفاد‘‘ میں میڈیا پر سنسر شپ نافذ کردی گئی ہے۔ تمام سرکاری ،سٹیلائٹ اور کیبل ٹی وی چینلز سے کہا گیا ہے کہ صرف ملٹری چینل کی نشریات چلائیں گے ۔غیر ملکی ٹی وی چینلز کی نشریات بند کردی گئی ہیں ۔ تھائی لینڈ کے شہری اب مارشل لا کی چھتری میں ہیں ۔فوجی انقلاب کے بعد وہاں کئی ماہ سے جاری انتشار اور مظاہروں کا بھی خاتمہ ہوگیا ہے ۔نئے فوجی حکمران جنرل پرایوتھ چن اوچا نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں امن کی بحالی اور اصلاحات کے لئے فوج کا اقتدار پر قبضہ کرنا ضروری تھا ۔
کسی بھی ملک میں اقتدار پر فوج کے براہ راست قبضے کی خبر آج کے دور میں پہلے سے زیادہ تشویشناک ہوتی ہے کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے بعض حلقے دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ فوجی آمریتوں کا زمانہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ اب دنیا کسی بھی فوجی حکومت کی حمایت نہیں کرے گی ۔اس کے باوجود فوجی مداخلت کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں ۔مصر میں جنرل سیسی کسی پریشانی کے بغیر نہ صرف حکمرانی کررہے ہیں بلکہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ایسے اقدامات بھی کررہے ہیں جو بدترین ،وحشیانہ اور ظالمانہ اقدامات ہیں ۔دنیا کی بڑی طاقتیں ان کے ان اقدامات پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ۔جنرل سیسی کے تھوڑے عرصے بعد ہی تھائی لینڈ میں جنرل پرایوتھ میدان میں آگئے ہیں وہ نہ صرف ملک میں بدامنی اور سیاسی بے چینی کو ختم کرنے آئے ہیں بلکہ وہ اصلاحات کا ایجنڈا بھی ساتھ لے کر آئے ہیں ،جس کی تکمیل کے لئے انہیں طویل عرصہ درکار ہوگا ۔انہوں نے بھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ دنیا ان کی حمایت کرے گی یا نہیں۔انہوں نے ملک میں سیاسی انتشار اور ٹکراؤ کی فضا کو جواز بناتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔مصر میں بھی سیاسی جماعتوں کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے فوج کو مداخلت کرنے کا جواز میسر آیا۔ تھائی لینڈ میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان اس وقت ہوا جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مخالفین اور حامیوں کا ایک اجلاس منعقد ہورہا تھا ۔اس اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے لیکن انہوں نے مذاکرات میں بہت دیر کردی ۔فوجی آئے اور اجلاس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے ۔مارشل لا کے اعلان کیساتھ ہی ملک میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے لئے کریک ڈاؤن شروع ہوگیا اور اس کے بعد میڈیا کی آزادی پر حملہ کیا گیا۔اب نہ مظاہرے ہورہے ہیں اور نہ ہی کوئی انتشار کی کیفیت ہے ۔تھائی لینڈ کے عوام کو فوجی حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کیلئے اب طویل جدوجہد کرنی پڑے گی۔ 1932ء میں تھائی لینڈ میں آئینی بادشاہت قائم ہونے کے بعد بارہویں مرتبہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔
پاکستان بھی دنیا کے ان بدنصیب ملکوں میں شامل ہے، جہاں فوج بار بار اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے ۔مصر اور تھائی لینڈ کی حالیہ مثالوں کے بعد دل میں ایک عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا ہے ۔اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس مفروضے کا خاتمہ ہوگیا ہے کہ اب فوجی آمریتوں کا دور نہیں رہا ہے۔ دوسرا سبب پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات ہیں، جن میں سیاسی ٹکراؤ کو مصنوعی انداز میں اس نہج پر لے جایا جارہا ہے جہاں ایک مرتبہ پھر فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو سکے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے مفاہمتی فلسفے سے سیاسی قوتوں کو ایک موقع ملا اور فوجی مداخلت کے حالات نہ بن سکے۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ ماضی میں جو سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا تھیں،انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھا اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا لیکن غیر سیاسی قوتوں نے ماضی کی روش نہ چھوڑی اور انہوں نے سیاست کے میدان میں ایسے نئے لوگوں کو اتاردیا جو قوم کے ماضی کے تجربات سے نہ صرف منکر ہیں بلکہ وہ تمام سیاسی روایات سے بیگانہ ہیں۔ ان لوگوں میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری جیسے لوگ شامل ہیں ۔ان کے علاوہ انتہا پسند مذہبی اور لسانی گروہوں کے لوگوں کو بھی حیرت انگیز طور پر سرگرم کردیا گیا ہے۔ نعرہ یہ لگایا گیا ہے کہ ماضی کے تمام سیاسی عناصر بدعنوان اور نااہل ہیں ۔ان کی جگہ نئے لوگوں کو آزمایا جائے ۔ان نئے لوگوں کے لئے جس طرح جلسے منعقد کرائے جاتے ہیں ، اس طرح کے عوامی اجتماعات کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ جلسے یا اجتماع میں شریک لوگوں کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ یہاں کیوں موجود ہیں ۔یہ نئے لوگ تصادم اور ٹکراؤ کی وہ سیاست کرنا چاہتے ہیں جو ملک میں مصر اور تھائی لینڈ جیسے حالات پیدا کردے ۔یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی ،جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس طرح کی دیگر ووٹ لینے والی جماعتیں اپنی حکومتوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی ہیں ۔ہر حکومت میں کرپشن کے بھی اسکینڈل سامنے آئے ہیں مگر دنیا میں آج تک کوئی ایسی فوجی حکومت قائم نہیں ہوئی ہے ،جو کرپشن اور بدانتظامی سے پاک ہو ۔آج تک دنیا میں کوئی ایسی سویلین حکومت بھی نہیں بنی جس نے ’’یوٹوپیائی‘‘ ریاست قائم کر دی ہو ۔کرپشن کے خاتمے اور بہتر حکمرانی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ طویل عرصے تک جمہوری عمل جاری رہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔عمران خان اور طاہر القادری کی سیاسی جماعتیں جس قدر سیاست کے لئے پیسہ خرچ کر رہی ہیں،اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا ابھی تک تسلی بخش جواب نہیں دیا جاسکا ہے ۔اربوں روپے کے اخراجات سو سو سال قدیم جماعتیں بھی نہیں کرسکتی ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس ملک میں فوجی مداخلت کا خطرہ زیادہ ہو ،وہاں تصادم کی سیاست کا راستہ کیوں اور کس کے کہنے پر اختیار کیا جاتا ہے؟ تھائی لینڈ میں تو مارشل لا کے نفاذ کے بعد میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئیں لیکن پاکستان میں تو پہلے ہی اس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ ٹی وی چینلز پر’’اپنے لوگوں‘‘ سے یہ کہلوایا بھی جارہاہے کہ سیاسی قوتیں اپنا قبلہ درست کرلیں ،عدلیہ سمیت تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں اور میڈیا آزادی کا غلط استعمال نہ کرے ورنہ ملک میں ایسا آمر آسکتا ہے ،جو پہلے والے سب حکمرانوں سے سخت گیر ہوگا اور سب کو ٹھیک کردے گا ۔اس انتباہ کے باوجود بعض لوگ نہ صرف ملک کی پرانی سیاسی قوتوں سے ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں بلکہ وہ آزادی اظہار رائے کے خلاف بڑھ چڑھ کر اپنی ’’سیاسی طاقت‘‘ کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔پرانی سیاسی قوتوں کے تدبر اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی مفاہمت کے خلاف پاکستان میں ایک منصوبہ بندی کے تحت ماحول بنایاجارہا ہے اور قوم کی اجتماعی دانش کو بھی چیلنج کیا جارہاہے ۔آخر ’’کچھ تو ہے ،جس کی پردہ داری ہے‘‘۔
تازہ ترین