• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک روشن دلیل ہے جو کسی استدلال کی محتاج نہیں کہ اکیسویں صدی کا پاکستان ایک کڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔شاید ہم بھول چکے ہیں کہ 2014ء میں جمہوریت ہی کسی مہذب قوم کا دستور عمل ہوسکتی ہے۔قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہت، آمریت اور مطلق العنانیت نے ہمیشہ قوموں کی لٹیا ہی ڈبوئی ہے۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ،ہم نے بھی وطن عزیز میں سارے تجربات کرکے دیکھ لئے ۔ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔مقننہ عدلیہ اور فوج کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون ہوتے ہیں اور جب ان میں اعتدال و توازن باقی نہ رہے تو پھر نظام کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب ادارے ہی ایک دوسرے کو بے توقیر کرنے لگیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ نظام کا اللہ ہی حافظ۔ مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
عمال حکومت کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓاور سیدنا حضرت علی ؓکے فرمودات نہ صرف ریاستی حکمرانوں اور اداروں کی درست سمت میں دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کی جانب رہنمائی کرتے ہیں بلکہ غیر قانونی اقدامات سے باز رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں...یہ انصاف ہی تھا جس نے اسلام کو عرب کے ایک کونے سے دنیا کے آخری کونے تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ارشاد خداوندی ہے کہ عدل کرو ۔عدل تقویٰ کے قریب ہے ،روز حشر جب کسی کی مجال نہ ہوگی کہ خداوندکریم کی اجازت کے بغیر لب کشائی کر سکے۔عادل حاکم کو رب ذوالجلال کے سائے میں پناہ ملے گی۔ عدل کی بہترین مثالیں ہمیں جناب نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے روشن کردار سے ملتی ہیں۔ عدلیہ حکومت کاایک اہم ستون ہے یہ حقیقت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔
آج مملکت خداداد اور اس میں رہنے والی یہ عظیم قوم جس کو جناب بابائے قوم نے قابل فخر شناخت دی،اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہے کہ اسے ایک ایسا عدالتی نظام میسر ہے جہاں حق داروں کو حق لینے میں دشواری نہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود منصف اپنا کام کرنے میں مصروف ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ان پر عزم ججوں کی وجہ سے وہ تمام لوگ جو من مانی کو اپنا شعار سمجھتے تھے،سوچنے پر مجبور ہوئے کہ غریب کی داد رسی ابھی بھی اس ملک میں ممکن ہے۔کسی حکیم کا قول ہے کہ اگر تم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوگے تو تمہارا شمار ظالم کا ہاتھ روکنے والوں میں ہوگا۔حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جو مظلوم کے ساتھ انصاف کرے۔گزشتہ چند روز سے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے کردار و اخلاص کے حوالے سے جو ہرزہ سرائی کی جارہی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ شہر اقتدار کی سڑکوں پر اس حوالے سے جو بینرز آویزاں کئے گئے ہیں انہوں نے میری آنکھیں شرم سے جھکادیں۔اعلیٰ عدلیہ کے ایک، دو نہیں بلکہ سارے جج مثالی کردار کا نمونہ ہیں۔ گزشتہ روز چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک کیس کی سماعت کے دوران معروف وکیل رہنما ،سابق صدر راولپنڈی بارتوفیق آصف فرط جذبات میں چیخ چیخ کر معزز عدالت کو بتارہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ کو ایک مرتبہ پھر بے توقیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہم کسی صورت برداشت نہیں کریں گے مگر مضبوط کردار کے حامل جج صاحبان کے صبر کا عالم تو دیکھئے انہوں نے وکیل رہنما پر واضح کردیا کہ اگر آپ کو اس حوالے سے کوئی اعتراض ہے تو پٹیشن داخل کریں۔ عدالت اس معاملے کا آئین و قانون کے مطابق جائزہ لے گی مگر یہ اس عدلیہ کا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ان بینروں سے عدلیہ کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ملک کی آزاد عدلیہ کے قابل فخر سپوتوں کے کردار پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے کہ جب ایک ایسے شخص نے معزز جج صاحب کے کردار پر انگلی اٹھائی جو خود اربوں روپے قومی خزانے سے لوٹنے کا مرتکب ہوا ہے تو جج صاحب نے صرف یہی کہا کہ اس شخص کا معاملہ نیب میں ہے ۔وہ ایسا کوئی بیان نہیں دینا چاہتے جس سے موصوف کا کیس متاثر ہوں۔ملک کے تینوں بڑے ادارے مقدم ہیں لیکن اگر سب سے پہلے کسی ادارے کی بالادستی کا سوال ہو تو وہ عدلیہ ہے۔ سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ توفیق آصف کے الفاظ یہ واضح پیغام دے رہے تھے کہ آج بھی اگر اعلیٰ عدلیہ پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرأت کرے گا تو پاکستان کے غیور شہری آئین و قانون کا مکمل دفاع کریں گے۔بے شک قرآن میں بھی اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں‘‘۔
موجودہ حالات میں عمران خان کا جو کردارہے اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے میں صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ قرآن کریم میں بھی ارشاد ہے کہ ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو،یہ نہ ہو کہ تم نادانی سے کسی کو نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے‘‘۔(الحجرات :6)
میری ذاتی رائے ہے کہ خان صاحب! آپ کے الزامات کی صداقت سامنے آنے سے جنگ،جیو گروپ پر اس ملک کے باشعور عوام کا اعتماد مزید بڑھ گیا ہے۔گو کہ اس ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ حق و سچ کی پاداش میں آزمائش سے گزر رہا ہے لیکن گزشتہ روز سینٹر مشاہد اللہ نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر جیو بند ہوا تو پھر کھلا کچھ نہیں رہے گا۔
یہ بھی درست ہے کہ پہلے صرف ایک اسکرین پر جیو نظر آتا تھا اور آج ہر چینل کی اسکرین پر جیو نظر آرہا ہے۔ جیو کیبل پر تو بند کردیاگیا مگر اب ہر چینل پر جیو آرہا ہے۔ جیوجنگ گروپ ایک حقیقت ناقابل تردید ہے۔جو اللہ کے فضل و کرم سے قائم تھا،ہے اور رہے گا کیونکہ قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد رب ذوالجلال ہے کہ ایک چال تم چلتے ہو ایک چال ہم، کامیاب صرف ہم ہوتے ہیں۔مگر میڈیا کی آزادی سے ہٹ کر آج ملک جن نامساعد حالات سے دوچار ہے۔مجھے کسی بڑے خطرے کی بو آرہی ہے۔اگر ملک میں آئین و قانون پر عمل نہ کیا گیا،اداروں کی بالادستی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہوا تو پھر یاد رکھیں کہ کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں رہے گا۔آج جب دارالحکومت کی سڑکوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں سے متعلق بینرز دیکھتا ہوں اور 72گھنٹے گزرنے کے بعد بھی حکومت انہیں اتارنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتی تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میاں نوازشریف کو بطور وزیراعظم اس ساری صورتحال میں مثالی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔میاں صاحب!اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے لئے آپ نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں اور آج آپ وزیر اعظم پاکستان ہیں مگر عدلیہ کی بے توقیری پر آپ کی خاموشی...آج آپ کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف ملک کو اس گمبھیر صورتحال سے نکالنے کے لئے کردار ادا کریں بلکہ اس ملک کی خاطر تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک کمرے میں بٹھائیں اور قوم ہاتھ جوڑ کر ان سے کہے کہ اللہ کے نام پر مت لڑو۔
تازہ ترین