• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض صاحب نے لینن امن ایوارڈ ملنے پر ماسکو میں منعقدہ تقریب میں اظہارِ تشکر کی خاطر تقریر کے ابتدا میں کہا تھا ’’الفاظ کی تخلیق و ترتیب شاعر و ادیب کا پیشہ ہے لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب یہ قدرتِ کلام جواب دے جاتی ہے، آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے‘‘۔ فیض صاحب تو انسانی حریت کے بزرگ عَلم بردار اور عِلم کے پہاڑ تھے، پھر ہم جیسے کوتاہ فہم و کم علم لکھاریوں کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں نہ درپیش ہوگا جب وہ کسی عالمِ مسرت یا استعجاب کو اپنے روبرو پائیں۔ ہم قلم کے مزدور بھی اس امر کے داعی ہوتے ہیں کہ حروف ہمارے خون میں شامل اور جملے ہمارے اظہاریہ کے رگِ جاں ہیں لیکن حضرت فیض کا قولِ سدید دہراتے ہیں کہ بعض اوقات وابستہ الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کچھ ایسی صورت اِس طالب علم کو بھی بڑی مراد والی جمعرات پر درپیش تھی…کلفٹن کے پوش علاقے میں شعبہ ابلاغ سے وابستہ مزدوروں کا جنگ جیو سے اظہارِ یکجہتی کا قابلِ رشک مظاہرہ بلامبالغہ ایسا تھا کہ روایت کرنے کی خاطر الفاظ کے قحط کا سامنا ہے۔ قرطاس و شیشے پر محنت کے رنگ سنوارتے، ہندسوں کی قید سے آزاد تاحدِنظر ہنر مندان کا بحرِ بیکراں اپنی جگہ، لیکن سارے سراپے کا حُسن وہ عالمِ شوق و ذوق تھا جس نے جنون کو نئے معانی و مفاہیم عطا کئے۔ اتحاد و یگانگت کا ایسا بے مثل عکس یہاں کے پوش ان مکینوں پر منعکس تھا جو برسوں ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانے ہوتے ہیں۔ نظم و ضبط کا ایسا سلیقہ کہ ہزاروں کی موجودگی بھی کسی ٹریفک جام کا باعث نہ بن سکی۔ شرکاء خود ہی ایک دوسرے کو سمجھاتے ہوئے ٹریفک رواں رکھنے پر اصرار بہ تکرار مصر، کہ ہم جو دوسروں کی تکالیف کو اجاگر کرنے کے پیامبر ہیں، ہم جو ایسے مظاہر پر ٹریفک جام میں پھنسی خلقِ خدا کی بے بسی کو زبان دیتے ہیں۔ آج کیونکر محض قوت کے دکھاوے کی خاطر گاڑیوں کی لمبی قطاروں کا سبب بن سکتے ہیں۔ پوش اہلِ کرم کیلئے تو یہ میلہ ہی تھا کہ نہ پتھرائو نہ گالم گلوچ، نہ روایتی مظاہرے کی طرح ہر شے کو مالِ غنیمت سمجھ کر اس پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی ضد… ہاں ایک ضد البتہ کارفرما تھی، ہے اور رہے گی، جیو اور جینے دو کی ضد‘‘ عبدالحمید عدم نے کیا خوب کہا ہے
حوادثِ روزگار میری خوشی سے کیا انتقام لیں گے
کہ زندگی وہ حسین ضد ہے کہ بے سبب مسکرارہی ہے
پیمرا کے دفتر کے سامنے اس مظاہرے کا مقصد نہ تو کسی کی مخالفت تھی اور نہ ہی دل آزاری، بات صرف اپنے اس حق کی تھی جو اگر تہہِ تیغ آجائے تو پھر اظہار کیلئے سڑکوں کے ماسوا اور کونسا مقام رہ جاتا ہے…!! اور یا پھر اس سے آگے وہ مقام جس کی نشاندہی فیض صاحب نے یوں کی ہے۔
بجر دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے؟
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
لیکن خدا نہ کرے کہ اپنے دیس میں یہ مقام آئے کہ اس وطن کے دشمن بڑے عیار ہیں اور جو عرصہ ہوئے گھات میں تاک لگائے بیٹھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پرجوش مظاہرین کے سامنے بھی ہر مقرر ہوش سنبھالے ہوئے تھا۔ ہر مقرر کا کہنا تھا کہ ہمارے تمام ادارے ہمیں پیارے ہیں جس کی جتنی قربانیاں ہیں وہ اسی قدر محترم و مکرم ہے۔ اہلِ قلم راہ حق کیلئے سرقلم کرنے والوں کی عزت و توقیر جانتے اور مانتے ہیں، مدعا گھر کے اندر بیٹھ کر مروجہ و مسلمہ ضابطوں کے تحت مسئلہ حل کرنا تھا۔ مظاہرے میں جہاں پرنٹ و الیکٹرانٹ میڈیا کے ہر شعبے سے وابستہ کارکنوں نے شرکت کی، وہاں یہ صحافتی تنظیموں کے بے مثال یکجہتی کا بھی مظہر تھا۔ فروعی اختلافات میں الجھے فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے عہدیداران بھی یہاں ایک تھے، تو نظریاتی محاذوں پر سرگرم لیفٹ رائٹ بھی یہاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے برکتیں سمیٹ رہے تھے۔ یہاں اس امر کا بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ مظاہرے یا مارچ میں ان اداروں کے کارکن بھی پوری لگن سے شریک تھے جن کے اینکرز آئے روز جنگ جیو پر گل پاشی کرتے رہتے ہیں۔ خیر یہ ان کا حق ہے لیکن اگر اس حق پر باہمی مکالمہ ہوجائے تو اس کے فوائد یقینی ہیں یا کم از کم بقول احمد فراز پھر شاید جیو والے یہ گلہ تو نہ کرپائیں۔
اب تو خود سے بولتے میں خوف آتا ہے فراز
اتنا دل آزار طرزِ گفتگو میرا نہ تھا
اساتذہ کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان کی لڑائی یا مسابقتی رجحانات تلے عزائم اپنی جگہ لیکن اظہار رائے کی آزادی کے ایک نکتہ پر کیوں نہ اتفاق کرلیا جائے!! راقم جب مظاہرے کے شرکاء کے جذبے پر غور کرتا ہے تو اس کے ماسوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ روزی روٹی کے ساتھ ساتھ فکر اس آزادی کی بھی ہے جس کیلئے اصحابِ قلم نے ماضی میں ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں۔ قربانیوں کی اس تاریخ کا قرض یہ ہے کہ کسی ادارے کے مالک کی جنگ لڑنے کے بجائے وہ اصولی موقف اپنایا زیرِنظر رہے جو اظہار رائے کی آزادی کی چادر اوڑھے ہوئے ہو، اگر ایسا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تلاطم موجوں کو قرار نصیب نہ ہوجائے۔
اے ہم نفسو کچھ تو کہو عہدِ ستم کی
اِک حرف سے ممکن ہے حکایت نکل آئے
اگرچہ زیر تذکرہ ریلی جو کلفٹن چورنگی سے پیمرا آفس تک نکالی گئی، کا انتظام و انصرام جیو جنگ گروپ نے کیا تھا لیکن کارکن ہاتھ میں مالکان کے بجائے حامد میر صاحب کی قدآور تصاویر اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ علامت اس آزادی کی جنگ کی تھی جس پر پابندیوں کے خدشے چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا کہ ضابطہ اخلاق اور حدود و قیود کا تعین ازبس ضروری ہے۔ ایک صاحب فٹ پاتھ پر جاتے ہوئے زور زور سے چھڑی گما رہے تھے، دوسرے صاحب نے اپنے چہرے کے قریب آتی اس چھڑی کو روکتے ہوئے پوچھا ’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ جواب تھا اپنی آزادی کا اظہار!! دوسرے صاحب نے کہا لیکن یہ یاد رہے کہ آپ کی آزادی وہاں پر ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے‘‘ بلاشبہ مادر پدر آزادی کا تصور کسی بھی معاشرے میں روا نہیں، پھر ہم تو اوج ثریا کو چھوتے اپنے اقدار کے حوالے دیتے بھی نہیں تھکتے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں آصف علی زرداری صاحب پر تمسخرانہ انداز میں تنقید کی گئی لیکن وہ قوتِ برداشت کا لاجواب مظاہرہ کرگئے، اب یہ ضروری تو نہیں کہ ہر کوئی اس نوع کی دل آزار تنقید برداشت کرپائے لہٰذا اصولوں کی حرمت ہی مقدم اور پہلی ترجیح ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مظاہرے کے شرکاء کا جوش و ولولہ دیدنی تھا، جنگ گروپ (جس میں اس کے تمام صحافتی ادارے شامل ہیں) سے وابستہ کارکنان ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام نہ ہونے کے باوجود جس طرح اپنی مدد آپ کے تحت مظاہرے کے مقام پر پہنچے، دیگر اداروں کے صحافیوں نے ان سے جس طرح اظہارِ یکجہتی کیا اس پر راقم بطور ایک مزدور ہدیہ تبرک و تحسین پیش کرتا ہے۔ تقریروں کیلئے چونکہ طے شدہ جگہ نہیں تھی لہٰذا ایک واٹر ٹینکر پر یہ فریضہ ادا کیا گیا، ایک خاتون صحافی یادداشت پڑھنے کیلئے جرأت و جدوجہد کے بعد جب اس ٹینکر پر پہنچیں تو انہیں ملنے والی داد سے ایسا لگا جیسے سومنات فتح کرلیا گیا ہو، یہی وہ جذبے ہوتے ہیں جو تحریکوں میں جان ڈالتے ہیں۔ کسی بھی یادداشت کا مدعا ظاہر ہے اپنے مطمح نظر کی جانب مخاطب کی توجہ دلانا ہوتا ہے، آئیے دیکھتے ہیں فیض صاحب اگر آج زندہ ہوتے تو اربابِ حکومت و اہلِ نظر کے سامنے کیا یادداشت پیش کرتے…!!
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکان میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
تازہ ترین