• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ اکتالیس سال سے انسانی جسم کا علم پڑھا رہے ہیں انہیں علم الابدان کا اس قدر ادراک ہے کہ روح کی حقیقت رب تعالیٰ نے ان پر کھول دی ہے، وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اللہ پاک قبول کرلیتا ہے ان کی محفل میں آنے والا شخص ان کے لئے اجنبی بالکل بھی نہیں ہوتا، وہ اپنے رب کا عطیہ کیا ہوا علم کشف سے اس شخص کو جان جاتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر پروفیسر فدا محمد ہیں جو 33برس تک خیبر میڈیکل کالج پشاور میں اناٹومی (ANATOMY) پڑھاتے رہے ہیں اور جب 2006ء کی جنوری میں اکیسویں گریڈ سے ریٹائر ہوئے تو کبیر میڈیکل کالج انتظامیہ نے ان کی خدمات بطور چیئرمین اناٹومی ڈیپارٹمنٹ حاصل کرلیں جہاں گزشتہ آٹھ سال سے علم تشریح الاعضاء جسموں کے علم سے آگاہی دے رہے ہیں۔ انسانی جسم ایک ایسی مشین ہے جس کے مقابلے میں دنیا میں کوئی اس جیسی پیچیدہ اور خودکار مشین نہیں بنائی جاسکی اور نہ کوئی بناسکے گا۔ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی مکمل کاپی نہیں ہوتا انسان ایک عجیب و غریب اور وسیع کائنات ہے جسے ایک جسم میں سمیٹ کے رکھ دیا گیا ہے جسے انسان خود بھی سمجھنے میں لگا ہوا ہے انسانی جسم چھوٹے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتا ہے ایک اوسط قدوقامت کے انسان میں خلیات کی تعداد قریب قریب ایک کروڑ ارب ہوتی ہے یہ تمام اربوں کھربوں خلیے سے بنے ہوتے ہیں روزانہ کروڑوں خلیے ختم ہوتے ہیں اور نئے خلیئے ان کی جگہ لے لیتے ہیں، ہر سیکنڈ میں خون کے دس لاکھ خلیے ختم ہو کر نئے خلیئے ان کی جگہ لے لیتے ہیں ، ان اربوں کھربوں خلیوں کا آپس میں اتنا اتفاق ہے کہ ہر خلیہ جسم کی بہتری کے لئے اپنے حصے کا کام ذمہ داری ، صحت اور فرض سمجھ کر کرتا ہے، انسانی جسم ایک ایسا بند شہر ہے جس میں برقی نظام کے لئے جنریٹر اور کیمیائی اجزاء کی ضرورت کے لئے اندر ہی اندر کئی فیکٹریاں کام کررہی ہیں، اس تیار شدہ مال کو جسم کے تمام حصوں میں پہنچانے کا انتظام بھی ہے خطرہ یا نقصان کی صورت میں اس سے بچائو کے لئے دفاعی اقدامات اور احکامات جاری ہوتے ہیں پھر یہ کہ ہر گیارہ ماہ بعد جسم کا یہ اربوں کھربوں خلیوں پر مشتمل سارا نظام بدل جاتا ہے، خلیوں کے اندر ہزار ہا جین ہوتے ہیں ہر جین عجیب و غریب مالیکیول سے بنتا ہے جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے اس کے اربوں یونٹ ایک خلیے میں ہوتے ہیں ،ہر فرد کی زندگی کا لائحہ عمل قد رنگ بالوں کا رنگ جسامت پہلے ہی سے ڈی این اے کی ٹیپ میں ریکارڈ ہوتا ہے، ڈی این اے جو ایک عام خوردبین سے دیکھا بھی نہیں جاسکتا اس کی تفصیلات اگر لکھی جائیں تو بڑے سائز کے ایک لاکھ صفحات درکار ہوں، دماغ الگ ایک کائنات ہے۔
ڈاکٹر فدا محمد گزشتہ اکتالیس برس سے اللہ کی اسی پیچیدہ اور لاثانی مشین کا علم عطا کررہے ہیں، وہ اللہ پاک کی عظمت کے اس قدر گرویدہ ہیں اور رب تعالیٰ کے اتنے قریب ہیں کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو اللہ ان کا مان رکھ لیتا ہے۔ وہ گزشتہ چالیس برس سے پشاور یونیورسٹی ٹائون کی مسجد میں جمعتہ المبارک کا خطبہ دے رہے ہیں ان کی پہلی بیعت تبلیغی جماعت کے تیسرے عالمی امیر انعام الحسن سے ہے اور دوسری بیعت مولانا محمد اشرف خان سلیمان پشاوریؒ سے ہے جنہوں نے 1981ء میں ڈاکٹر فدا محمد صاحب کو خلافت سے سرفراز کرکے بیعت کی اجازت دے دی تھی۔خیبرپختونخوا میں میڈیکل کے شعبے میں جہاں ڈاکٹر فدا محمد صاحب کے ہزاروں شاگرد ہیں وہاں صوبے کے دیندار اور روحانی حلقوں میں ان مریدوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ڈاکٹر فدا محمد صاحب کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ کے علاقے ڈوڈھیال سے ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے اور 1971ء میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس کیا ، آپ 1947ء میں مئی کے کسی ہفتے والے روز جناب میر داد کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ANATOMY میں ایم فل کیا۔ پاکستان میں چونکہ اناٹومی میں پی ایچ ڈی نہیں ہوتا اور حیرت ہے کہ اس وقت ملک میں صرف دو پی ایچ ڈی ہیں جو بیرون ملک سے اناٹومی میں وہ ڈگری لے کر آئے ہیں۔ڈاکٹر فدا محمد صاحب نے انسانیت کی بھلائی کے لئے پشاور یونیورسٹی ٹائون میں ایک بلڈ بینک قائم کرر کھا ہے جس کا نام ’’خون جگر‘‘ رکھا آپ کی سرپرستی میں چلنے والے اس بلڈ بینک کے چیئرمین جناب اسلم خان مروت ہیں۔ گردوں کے مریض ، خون کے سرطان میں مبتلا لوگ میٹرنٹی کی ضرورتوں میں اور کینسر کے مریضوں کو چوبیس گھنٹے مفت خون مہیا کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فدا محمد صاحب نے ایک ماہنامہ بھی شروع کر رکھا ہے جس کا نام ’’غزالی‘‘ ہے اسے تبیلغ دین اسلام کے لئے وقف کیا ہوا ہے انہوں نے ایک ادارہ اشرفیہ عزیزیہ بھی قائم کر رکھا ہے جو مولانا محمد اشرف سلیمان پشاوریؒ اور عبدالعزیز دعاجو دہلوی کی یاد میں ہے۔
ڈاکٹر فدا محمد صاحب کی تبلیغ کا طریقہ اور اصلاح نفس کی ترتیب حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسی ہے۔ 11؍مئی اتوار کو اپنے مہربان دوست اسلم خان مروت کی دعوت پر یونیورسٹی ٹائون پشاور کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھنے گیا تو خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرز انجینئرز کاروباری لوگ اور عام شہری ڈاکٹر فدا محمد کی محفل میں ان کا خطاب سننے پہنچا ہوا تھا، ذکر کی محفل کے بعد ڈاکٹر صاحب نے عوام کے مسائل سننے سے محفل میں موجود بعض اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کے حوالے کچھ مریض کئے بعضوں کی مالی مدد کی، ڈاکٹر فدا محمد نے حج کے موقع پر رہنمائے حج بھی لکھی اور اپنے مرشد مولانا محمد اشرف سلیمانی پشاوری کی سوانح ’’مرد درویش‘‘ بھی لکھی، سچی بات ہے قحط الرجال کے اس دور میں ڈاکٹر فدا محمد اللہ کا بہت بڑا انعام ہیں۔
تازہ ترین