• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان کے منتخب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی اندرونی معاشی طاقت اور استحکام کی بنا پر استوار ہوتی ہے۔ اگر مودی سرکار اپنے ایجنڈے کے مطابق ہندوستان میں ترقی کی شرح نو یا دس فیصد تک لے جاتی ہے تو ہندوستان چند سالوں میں کافی آگے چلا جائے گا۔ اگر اس دوران پاکستان اپنے داخلی مسائل میں الجھا معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تاریخی حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی ملک بھی اپنی فوجی طاقت کی بنا پر دنیا میں مہمیز نہیں ہوتا بلکہ معاشی طاقت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ سرد جنگ میں روس باوجود امریکہ کے برابر عسکری طاقت ہونے کے توڑ پھوڑ کا شکار ہو گیا۔ تاریخ دان پال کینیڈی نے اپنی کتاب ’’عظیم طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ میں کئی سو سالوں کی تاریخی شہادت سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ سلطنت (ایمپائر) جو فوجی اخراجات کو بڑھاتی جاتی ہے آخر میں فنا ہوجاتی ہے۔ عظیم رومن سلطنت سے لے کر سوویت یونین تک کی ایک ہی کہانی ہے۔ عظیم سلطنتیں تب تک قائم رہتی ہیں جب تک وہ معاشی اعتبار سے ترقی کر رہی ہوتی ہیں۔ہم اپنے دور میں یہ دیکھ رہے ہیں کہ چین اور ہندوستان کی دنیا میں اہمیت ان کی معاشی ترقی کی وجہ سے بن رہی ہے۔
مودی سرکار کے پاس وہ تمام لوازمات موجود ہیں کہ وہ ہندوستان کو تیز تر معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کر سکے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ مودی کی پارٹی اکثریت کے ساتھ جیتی ہے اور اسے کوئی اتحادی بھی بلیک میل نہیں کر سکتا۔ اس پہلو سے کانگریس کی کمزوری یہ تھی کہ وہ اتحادیوں کی مدد سے حکومت کر رہی تھی اور اس کے پاس وہ پارلیمانی طاقت موجود نہیں تھی جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس ہے۔ کانگریس حکومت میں دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کلی طور پر بااختیار نہیں تھے۔اصل طاقت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے پاس تھی جو باہر سے فیصلہ سازی کو متاثر کرتی تھیں۔ اس کے مقابلے میں نریندر مودی کلی طور پر طاقتور وزیر اعظم ہوں گے کیونکہ یہ الیکشن ان کی شخصیت پر بھی ہوا ہے اور وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔
نریندر مودی کے پاس معاشی ترقی کا وسیع تجربہ بھی ہے۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو ان پر بہت اعتماد ہے بلکہ وہ بڑے سرمایہ داروں کے ہی نمائندے ہیں۔ وہ سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی اہلیت ثابت کر چکے ہیں۔ وہ نوکر شاہی کی پیدا کی ہوئی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے عمل سے بھی گزر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج گجرات ہندوستان کی صنعتی ریاستوں میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ غرضیکہ نریندر مودی معاشی ترقی کے کامیاب ماڈل کے ساتھ وزیر اعظم کی گدّی پر بیٹھنے جا رہے ہیں۔
نریندر مودی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نہ تو وہ خود کرپٹ ہیں اور نہ ہی کرپشن برداشت کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معمولی مکان کے مالک ہیں اور اس کے علاوہ ان کی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ ان کا تعلق اپنے خاندان سے بھی برائے نام ہے۔ اسی لئے جب وہ اپنی ماں سے ملنے گئے تو وہ ایک معمولی سا گھر تھا۔ ویسے تو سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی شخصیت بھی بہت صاف شفاف تھی لیکن ان کے زمانے میں بدعنوانی کے بہت سارے اسکینڈل سامنے آئے جن کے بارے میں وہ بے بس نظر آئے۔ اس کے مقابلے میں نریندر مودی کے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران کسی قسم کے مالی اسکینڈل سامنے نہیں آئے۔
نریندر مودی پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے 2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں اپنا کردار نہیں نبھایا۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ درپردہ ان فسادات کی اعانت کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں عدالتوں نے ان پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی اور وہ اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے ہوئے ان کو ساتھ لے کر چلیں گے یا فروعی معاملات (جیسے رام مندر کی تعمیر) میں الجھ کر ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے ترقی کے ماڈل اور ان کے تجربات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور ہندوستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے نریندر مودی کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ خارجہ پالیسی میں کسی طرح کی مہم جوئی نہ کریں۔ اس سلسلے میں ان کے چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ چین کے ساتھ ہندوستان کا سرحدی تنازع چلا آرہا ہے جس کے باعث دونوں ملکوں میں کشمکش جاری رہتی ہے۔ اس وقت چین ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ نریندر مودی موجودہ صورت حال کو کسی صورت میں بھی بگاڑنا نہیں چاہیں گے۔ پاکستان کے ساتھ بھی ہندوستان کے معاملات الجھے ہوئے ہیں اور نئی سرکار کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی معاشی ترقی کے لئے غیر ضروری مہم جوئی سے احتراز کرے۔ اگر نریندر مودی بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کی روایت پر چلتے ہیں تو وہ پاکستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کر سکتے ہیں۔
نریندر مودی کے بیانات اور ان کے گجرات میں طرز حکومت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی وجہ معاشی ترقی پر مرکوز ہوگی۔ چند سال پیشتر ہندوستان نو سے دس فیصد سالانہ کی شرح سے معاشی ترقی کر رہا تھا جو اب کم ہو کر پانچ فیصد سے نیچے آچکی ہے لیکن ہندوستانی معیشت میں استطاعت ہے کہ وہ دوبارہ تیز تر ترقی کر سکے۔ نریندر مودی کا یہی امتحان ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی تیز تر معاشی ترقی کے پاکستان کی علاقائی اہمیت پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر پاکستان میں ترقی کی رفتار تیز تر نہیں ہوتی تو وہ ایک معمولی سے غریب سے ہمسائیے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں اگر ہندوستان اپنی سالانہ آمدنی کا تھوڑا سا حصہ بھی دفاعی اخراجات پر بڑھا دے تو پاکستان اپنا دفاعی توازن قائم نہیں رکھ سکے گا۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی معیشت بجائے مقامی بچتوں سے سرمایہ کاری کرنے کے بیرونی امداد، قرضوں اور عطیات پر چل رہی ہے اس وقت پاکستان بمشکل چار فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہا ہے جو کہ ہندوستان کے مقابلے میں بہت کم ثابت ہوگی۔ مزید برآں پاکستان مختلف طرح کے سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس کے شمالی علاقوں میں خانہ جنگی کی حالت ہے اور ملک میں اداروں کا ٹکراؤ جاری ہے، اس حالت میں حکومت کا معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ممکن نظر آتا ہے۔
تازہ ترین