• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک بھارت تعلقات ہمیشہ سے ’’وٹے سٹے ‘‘ کی شادی جیسے رہے ہیں۔ہمارے ہاں رائج ایسی شادیوں میں جب کسی خاتون کو اس کا شوہر بلاوجہ پیٹنے لگتا ہے تو وہ سمجھ جاتی ہے کہ اس کے بھائی نے اپنی بیوی کو مارا ہو گا اور اب یہ اپنی بہن کا بدلہ لے رہا ہے۔ اگر بھارت میں کسی پاکستانی سفارت کار پر تشدد ہوتا ہے یا اسے ناپسندیدہ قرار دیکر نکالا جاتا ہے تو اس کے اسلام آباد پہنچے سے پہلے ہی کسی بھارتی ڈپلومیٹ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جا چکا ہوتا ہے۔
بھارت نے مکتی باہنی کے علیحدگی پسندوں کو ٹریننگ اور اسلحہ دیا تو ہم نے سکھ بغاوت پر دست شفقت رکھا، پاکستان نے کشمیریوں کی اخلاقی ،سفارتی اور سیاسی امداد کا بیڑا اٹھایا تو جواب میں بھارت نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو گود لے لیا۔اگر ہمارے ہاں بھارت جانے والوں کو انڈین سفارتخانے کے باہر کئی کئی دن قطار میں لگنا پڑتا ہے تو دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر ویزے کے منتظر افراد کو بھی جاسوس سمجھ کر مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اس روش کے باعث دونوں ممالک کا شمار دنیا کے بدترین ہمسائیوں میں ہوتا ہے اور خوشگوار تعلقات کی خواہش خواب بن کر رہ گئی ہے مگر نواز شریف نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔
گزشتہ برس عام انتخابات کے بعد جب نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے دیگر عالمی رہنمائوں سمیت بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی تقریب حلف برداری میں مدعو کیالیکن من موہن سنگھ نے یہ دعوت مسترد کر دی۔ من موہن کے پاکستان نہ آنے کی بیشمار وجوہات تھیں ،ایک تو وہ کٹھ پتلی اور بے اختیار وزیراعظم تھے،دوسری بات یہ تھی کہ اگر وہ یہ دعوت قبول کر لیتے تو بی جے پی آسمان سر پر اٹھا لیتی اور تیسری بات یہ کہ انتخابات سر پر تھے۔اب جب مودی نے غیر متوقع طور پر نوازشریف کو مدعو کر کے عالمی برادری کو ’’سرپرائز‘‘ دیا تو سب کا یہی خیال تھا کہ سابقہ روایات کے عین مطابق نواز شریف انکار کر دیں گے جو افراد میاں نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں،انہیں اس بات کا بخوبی علم تھا کہ کسی کو اچھا لگے یا بُرا ،نواز شریف بھارت ضرور جائیں گے۔مودی نے تو بعد میں دعوت دی مگر نواز شریف یوں سبقت لے جانے میں کامیاب ہوئے کہ عالمی رہنمائوں میں سب سے پہلی مبارکباد کا فون انہوں نے کیا اور جب یہ مبارکباد پہنچی تب ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ جاری تھا۔
میاں نواز شریف کے بھارت جانے پر ہمارے ہاں بھی بعض عناصر کی جانب سے ویسے ہی واویلا کیا جا رہا ہے جیسے وہاں بال ٹھاکرے کی شیوسینا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ’’ملکی مفاد‘‘ کی آڑ میں استعمال ہونے والوں کو یاد نہیں کہ چند ماہ قبل ہی بنگلہ دیش میں عبدالقادر مُلا کو پھانسی دی گئی تو کہیں بھونچال نہیں آیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں اور اس کی ذہنی آبیاری آر ایس ایس جیسی انتہا پسند جماعت نے کی ہے مگر وہ ایک ایسی فاتح جماعت کا قائد ہے جو 31سال بعد کسی بیساکھی کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ بھی کیسا حسن اتفاق ہے کہ کانگریس جو سیکولر جماعت ہے اس کے دور میں پاک بھارت تعلقات ہمیشہ تنائو کا شکار رہے ہیں مگر بھارتیہ جنتا پارٹی جو ایک انتہا پسند جماعت ہے،اس کے دور میں پاک بھارت تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔میاں نوازشریف کے سابقہ دور میں ہی یہ تاریخ لکھی گئی کہ ان کے ہم منصب اٹل بہاری باجپائی نہ صرف واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان آئے بلکہ انہوں نے قیام پاکستان کی یادگار مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر اپنے اس روایتی موقف کی تنسیخ کی کہ ہم پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی غیرت جاگ اُٹھی اور انہوں نے غدار وزیر اعظم کو سبق سکھانے کے لئے کارگل مہم جوئی کا سراب تیار کیا۔
اس وقت نواز شریف کو ملک دشمن اور غدار کے القابات سے نوازا گیا لیکن جب چند ماہ بعد جنرل پرویز مشرف خود برسراقتدار آئے تو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے مصافحہ کرنے کے لئے ان کی بیتابی پوری دنیا نے دیکھی۔اس وقت ایک سیاسی مذہبی جماعت نے کٹھ پتلی اور آلۂ کار کا کردار ادا کیا اور باجپائی کی لاہور آمد پر شدید احتجاج کیا۔ اب یہ ذمہ داری کسی اور کو تفویض کی گئی ہے اور یقیناً یہ ’’محب وطن‘‘ جماعتیں یہ فریضہ جماعت اسلامی سے کہیں زیادہ احسن انداز میں ادا کر سکتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک میں فوج کا کردار بہت اہم ہوتا ہے مگر میں نے کبھی کسی اخبار میں یہ خبر نہیں دیکھی کہ بھارتی آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات ،ملکی و غیر ملکی صورت حال پر تبادلہ خیال۔مودی کی تقریب حلف برداری میں 8ممالک کے سربراہان ریاست یا حکومت شرکت کر رہے ہیں۔ میں نے سری لنکا، مالدیپ، بھوٹان،نیپال ،بنگلہ دیش اور افغان اخبارات کنگھال کر دیکھ لئے مگر کہیں کوئی ایسی خبر نظر نہیں آئی کہ وزیر اعظم کے بھائی نے دورہ بھارت کی کلیئرنس حاصل کی ہو یا اعتماد میں لیا ہو مگر پاکستان میں بھارت جانا تو درکنار بھارتی سفارتخانے جانے کے لئے بھی اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ یہاں ہر سویلین کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہاں منتخب نمائندوں کو ایوان اقتدار میں داخل ہوتے وقت ایسے ’’سمجھایا‘‘ جاتا ہے جیسے کوئی شکی مزاج باپ اپنے نادان بیٹے کو دوستوں کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دیتے ہوئے سختی سے نصیحت کرتا ہے۔
’’سنو! کسی سے کوئی چیز لیکر مت کھانا،واپسی پر سیدھے گھر آنا،کسی ایرے غیرے سے ہاتھ ملا کر میری عزت خاک میں نہ ملا دینا،وہ جو خان صاحب ہیں ناں خود کو بہت طرم خان سمجھنے لگے ہیں ان کی طبیعت صاف کرنی پڑے گی تم اس سے ملنا جلنا چھوڑ دو تو اچھی بات ہے اور ہاں،وہ جو ہمارا ہمسایہ ہے ناں موہن داس بڑا ہی کمینہ ہے۔بغل میں چھری منہ میں رام رام،مجھے پتہ چلا کہ تم اب بھی اس کے ساتھ گھومتے ہو تو پھر دیکھنا کیا حشر کرتا ہوں تمہارا‘‘۔
میں امن کی یکطرفہ آشا کا قائل نہیں مگر دشمنی کی آگ پر روٹی سینکنے والوں کی طرح جنگ کی بھاشا پر مائل بھی نہیں۔اس ملاقات میں نواز شریف کو مسئلہ کشمیر پر دوٹوک اور جرأت مندانہ موقف اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے ’’بال ٹھاکرے‘‘ امن کی گاڑی کو چلنے سے پہلے ہی روکنا چاہتے ہیں۔ اس ملاقات میں بداعتمادی کی برف پگھل جائے اور نریندر مودی بھی ’’وٹے سٹے‘‘ کی روایت ختم کرتے ہوئے واجپائی کی طرح پاکستان آنے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی حامی بھر لیں تو یہی کافی ہو گا۔دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف ’’وٹے سٹے ‘‘ کی اس فرسودہ روایت کو ختم کر پاتے ہیں یا ’’پھپھے کٹنیاں‘‘روڑے اٹکانے میں کامیاب رہتی ہیں۔
تازہ ترین