• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیمرا کے دو پرائیویٹ ارکان اسرار عباسی اور میاں شمس الرحمٰن نے جنگ گروپ کے موجودہ بحران میں پاکستان پیپلزپارٹی کی میڈیا پالیسی کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا تاریخی رویہ اور پالیسی اس معاملے میں مگر ہمیشہ حساس اور اصولی رہی۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات اور سینٹ میں اس کےپارلیمانی لیڈر میاں رضاربانی کو وضاحت کرنا پڑی۔
جنگ گروپ کے بحران میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شناخت سے وابستہ پیمرا کے ان دونوں پرائیویٹ ارکان نے ایسا طرز عمل اور طرز فکر اختیار کیا جس نے آزادی ٔ صحافت کے سلسلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے تاریخی وجود پر تیر چلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اب چلتے ہیں میڈیا کے تناظرمیں پاکستان پیپلزپارٹی کی قومی پالیسی کے حوالے سے میاں رضا ربانی کے بیانئے کی طرف، انہوں نے گروپ کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہم اس معاملے میں پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں اپناموقف پیش کرچکے ہیں۔ پارٹی پیٹرن اِنچیف بلاول بھٹو زرداری بھی اس نظریاتی پوزیشن کااعلان کرچکے ہیں یعنی پاکستان پیپلزپارٹی کسی بھی میڈیا ہائوس کو بند کرنے کے حق میں نہیں، جوکچھ اسرار عباسی کی جانب سے ہو رہا ہے اس کا پیپلزپارٹی کے نظریات اور پالیسی سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ اس روز (20مئی 2014) میاں رضا ربانی، اعتزاز احسن اور سنیٹر فرحت اللہ بابر نے ایوان بالا میں ایکبار پھر جیو پرپابندی کے خلاف اپنے اس موقف کا اعادہ کیا۔
قومی اسمبلی میںمرنجاں مرنج، نفیس الطبع اور عاجز مزاج پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما اورقائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ ’’میڈیا کا معاملہ حکومت نے پیمرا کو بھیج کر ایسے کیا جیسے مشرف کے باہربھیجنے کامعاملہ عدالت پر چھوڑ دیا گیا۔ پیمرا میں پی پی پی کے ارکان نے(وہی دونوں جن کا تذکرہ ہو گیا) جو موقف اختیار کیا ضروری نہیں کہ پی پی پی کا بھی یہی موقف ہو۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی نے بطور جماعت آج پھرمیڈیا کی آزادی سلب کرنے کی تمام سازشوں اور کوششوں کو مسترد کردیا، کسی میڈیا ہائوس پر پابندی کی وہ سب سے بڑی مزاحمت کار ہوگی۔
رہ گئے عمران خان اور جنگ گروپ! سب سے پہلے آپ کےساتھ اپنا ایک قیاس Shareکرنا چاہتا ہوں۔ لگتا یوں ہے کہ پاکستان کی قومی سیاست میں عمران خان کردار کااصغرخا ن نہ کبھی تھا نہ آج ثابت کیا جاسکتا ہے مگر وہ انجام کااصغرخان شاید لازماً ہوگا۔ میں بہت عرصہ پہلے اپنے برادر محترم کہپاکستان کے مقتدر ترین ایڈیٹر اور دانشور ہیں، کے الفاظ اپنی کسی تحریر میں پیش کرچکا ہوں۔ انہوں نے ایک بار نجی گفتگو میں کہا تھا ’’عمران خان پاکستانی سیاست کا ایک اور اصغر خان ہے‘‘ میرے خیال میں منزل قریب تر آتی جارہی ہے!
جنگ گروپ نے عمران خان کے الزامات کا متعدد بار جواب دیا ہے۔ خان صاحب کو اپیلیں پر اپیلیں کر رہا ہے۔ الزامات کے باربار د ہرانے پر گروپ نے 19مئی 2014 کو ازخود یہ تجویز دی کہ..... حکومت عمران خان کے پیش کردہ مطالبے کے مطابق ان الزامات کی تحقیق و ثبوت کے لئے ایک کمیشن بنائے‘‘ سوال یہ ہے کہ عمران پھربھی دن رات یہ ساراکوڑا کرکٹ گروپ کے سر پر کیوں پھینک رہے ہیں؟ میںان کے اس لاشعوری خوف کا تذکرہ نہیں کرناچاہتا جس کے تحت انہوں بنی گالا میں نوازشریف اور چوہدری نثار علی خان سے اچانک بڑی بھرپور ملاقات فرمائی تھی۔ مجھے اس سے کیاملے گا۔ میں توصرف ان کے سیاسی فریم کو سمجھنےمیںمصروف رہتا ہوں۔اب تک جو سمجھ آئی ہے وہ یہی ہےکہ عمران اب کسی ’’لائن‘‘کی دلدل میں ’’گوڈےگوڈے‘‘پھنس چکے ہیں۔ باہر اسی وقت آئیں گے جب ’’دلدل‘‘بھی انہیںبے کارجان کر خود ہی ان کی جان چھوڑ دے گی! لہٰذا وہ جنگ گروپ کے خلاف، خواہش کے باوجود اپنی منفی مہم بند نہیں کرسکتے، یہ ان کی ڈیوٹی کا ناگزیر تقاضہ ہے۔ لاہور پریس کلب کے صدر نے گزشتہ روز اپنی تقریر میں گروپ انتظامیہ کو سو فیصد صحیح مشورہ دیا ’’عمران کےالزامات کاجواب دینا بند کردیں یہی اس کا جواب ہے۔‘‘
عمران کا سفر ان لوگوںاور قوتوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے جن کا عوام کے سفر سے کبھی تعلق نہیں رہا۔انہوں نےعوام کی ’’رعایا‘‘ سے’’شہری‘‘بننے کی جدوجہد کو ناکام کرنے میں ہمیشہ ان کے حق حکمرانی کے تسلسل میں رکاوٹ ڈالی۔ کبھی اسے منسوخ کردیا، کبھی معطل کردیا، ایساہی تماشا دیکھنے میں آ رہا ہے، یہ علیحدہ بات ہے تماشے کے آخری منظر میں عمران خان صرف شیکسپیئر کی ’’ٹریجڈی‘‘بن کر رہ جائے۔
پس نوشت
افتخار احمد جیو ٹی وی کا معروف ترین اینکرپرسن ہی نہیں وہ ’’جنگ گروپ‘‘ کی پہچان ہے۔ اس کے پروگرام ’’جوابدہ‘‘ کی نوکیلی ، سریلی اور کٹیلی تیز طراریاں کون بھول سکتا ہے۔ عزیزی حامدمیر پر قاتلانہ حملے نے پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ان کے صحافتی ساتھیوں اور بزرگوں کوبھی ایک ناگہانی صدمے سے دوچار کیا۔ ہماری دعائیں کیا اللہ کا کرم بے پایاں رنگ لایا۔ حامد کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی۔ خالق کون و مکان اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ابھی حامد صحت کے مراحل طے کر ہی رہا تھا کہ ہمارے افتخار احمد کو پہلے ون ٹو ون دھمکی دی گئی پھر ان دھمکیوں نے ٹیلیفون کالز کا راستہ دیکھ لیا۔ ادھرعمران خان اور تحریک انصاف کے پروانوں نےاس کے صحافتی کیریئر کی گردن پرایڑھی رکھ دی۔ اسے ’’الیکشن میں دھاندلی‘‘ کروانے والے مرکزی کرداروں میں قرار دینے کا ناپاک شور و غوغا آسمان سرپر اٹھا لیا..... آخر اس نے یہ سب اپنے دل پر لیا۔ ہارٹ اٹیک ہوا، شکر ہے اب روبصحت ہے۔ حامد میر اور افتخار دونوں سلامت رہیں! اور گروپ بھی۔ مالک خطائیں معاف کردے ہماری۔ ہمیں بدنیتوں اور شرپسندوں سے بھی بچائے! وہ پھولوں اورکلیوں کا بندہ، پالا زہریلے کانٹوں سے پڑ گیا۔
سوچتا ہوں اس افتخار احمد نے ایوب دور سے لے کر ذوالفقارعلی بھٹو تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر جیو کے کیریئر تک سیاست اور صحافت کے محاذوں پر عوام کی آزادی اور لفظ کی حرمت کامیدان کارزار برپا رکھا اور صلہ جھوٹ کے طومار اور تہمت کے پہاڑ!
تازہ ترین